بجٹ، او ر خصوصاً وطن ِ عزیز کے بجٹ کو ہندسوں اور اعشاریوں کی زبان ہونے کی بنا پر سمجھنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ بس جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ تنخواہوں میں کتنے فی صد اضافہ ہوا ہے اور کن کن اشیاء پر ٹیکس بڑھا دیا گیا۔ اخبارات بھی اُسی کی شہ سرخیاں نکالتے ہیں۔ اضافہ شدہ قیمتیں تو بجٹ کے پیش کرنے سے ہی بڑھ جاتی ہیں البتہ تنخواہوں میں اضافے کا آغاز یکم جولائی سے ہوتا ہے جو یکم اگست کی تنخواہ میں ملتا ہے، اب معلوم نہیں وزیراعظم نے عوام کو ریلیف دینے کی جو ہدایت کی ہے اُس کا مطلب وزارت خزانہ نے کیا لیا ہے۔ حکمران طبقے کے دلائل اپنی جگہ درست ہو سکتے ہیں وہ جس قسم کی مالی اور معاشی مشکلات بیان کر رہے ہیں وہ بھی درست ہیں لیکن اگر تصویر کے دوسرے رخ کو غور سے دیکھا جائے تو یہ بھی نظر آتا ہے کہ پاکستان کو درپیش مالی مشکلات کا ذمے دار بھی حکمران طبقہ ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک جو معاشی پالیسیاں تشکیل دی گئیں اور جو قوانین بنائے گئے ان میں متوازن ترقی کے اصول کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ حکمران طبقے اور اس کے حاشیہ بردار طبقات سرکاری مراعات پر پلتے چلے آ رہے ہیں یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اگر حکمران طبقے اور ان کے حاشیہ بردار طبقے کی مراعات بند کر دی جائیں تو آج بھی معیشت کو ٹریک پر لایا جا سکتا ہے۔ حکمرانوں کو حاصل صوابدیدی اختیارات پر نظرثانی لازم ہو چکی ہے۔ کسی بھی اعلیٰ سرکاری عہدیدار کو ایسے صوابدیدی اختیارات حاصل نہیں ہونے چاہئیں جن کے ذریعے وہ اپنے آپ کو اپنے خاندان کو اور اپنے دوستوں اور حواریوں کو مالی فوائد پہنچا سکیں مثلاً مختلف ہاؤسنگ اسکیموں میں وزیراعظم یا وزراعلیٰ یا کسی سرکاری افسر کے لیے کوٹا مقرر نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح مشیر معاونین اور کوآرڈینیٹرز کے نام پر قومی خزانے سے بھاری رقوم ایسے افراد کی جیب میں چلی جاتی ہے جو کوئی پیداواری سرگرمی سرانجام نہیں دیتے۔ سرکاری افسروں سرکاری خود مختار اتھارٹیز اور کارپوریشنوں اور اعلیٰ جوڈیشری کی تنخواہوں سہولتوں اور مراعات میں توازن لانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح بہت سے ایسے سیکٹرز ہیں جنہیں ٹیکسوں میں چھوٹ حاصل ہے ان پر بھی نظرثانی ہونی چاہیے۔
سرکاری زمینوں، آلاٹ زمینوں مختلف محکموں کی زمینوں کی الاٹمنٹ اور فروخت پر مکمل پابندی عائد ہونی چاہیے۔ ان زمینوں کی دیکھ بھال سرکار خود کرے اسی طرح متروکہ املاک اور اوقاف کی زمینوں اور جائدادوں کی لیز کا قانون تبدیل کیا جائے۔ ان زمینوں اور جائدادوں کی دیکھ بھال بھی سرکار کی ذمے داری ہو اور یہ کسی بھی نجی شخص کو لیز یا فروخت کرنے پر مکمل پابندی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر مہنگائی کم نہ ہوئی تو عوام کی زندگی بجٹ کے بعد بھی اجیرن ہی رہے گی۔ ڈالر ہی حکومت کے قابو نہیں آ رہا، باقی کس کی بات کریں۔ اس ڈالر کی وجہ سے ہر شے مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو نہیں رہا جب کہ حکومت نے آئندہ چند ماہ میں اربوں ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ خزانہ خالی ہے یہ تو ہمیشہ کہا جاتا ہے مگر اس بار تو عوام کی جیب بھی خالی ہے۔ اُن کے لیے صبح سے شام کرنا ایک مشکل امر بن کر رہ گیا ہے۔ آٹا جو کبھی غریب کی پہنچ میں ہوتا تھا اور وہ کم از کم اُس سے اپنا پیٹ بھر لیتا تھا، اب وہ بھی اُس کے لیے سونا بن گیا ہے۔ حکومت نے مفت آٹے کے جو تھیلے دیے تھے وہ کب کے ختم ہو چکے ہیں اب تو اُس آٹے کی قیمت بھی مہنگا آٹا خرید کر عوام ادا کر رہے ہیں۔ ان نمائشی اقدامات سے عوام اس لیے بے زار ہیں کہ اُن کی زندگی کی مشکلات میں کمی نہیں آئی ہے، انہیں کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اچھے دن کیسے آئیں گے۔ اچھے دن تب آئیں گے جب ملک میں سیاسی استحکام آئے گا اور سیاسی استحکام اُس وقت آئے گا جب انتخابات ہوں گے، ملک میں انتشار ختم ہو جائے تو خوشحالی آ سکتی ہے۔
ادھر عالمی معیشت بھی اضطراب اور گرداب کا شکار ہے، پہلے تو کورونا کی تباہ کاریوں نے عالمی معیشت اور تجارت کو شدید نقصان پہنچایا۔ ابھی دنیا اس سے مکمل طور پر نجات حاصل نہیں کر پائی تھی کہ یوکرین، روس جنگ نے عالمی معیشت کو جکڑ لیا ہے، اس سے بھی اقوام عالم کے معاشی معاملات پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ کوئی ملک بھی اس قابل نہیں رہا کہ وہ حالات کا رخ پھیر سکے۔ عالمی سیاست شدید گرمی و اضطراب کا شکار ہے سیاسی اضطراب نے معاشی عدم استحکام کو جنم دیا ہے اور دونوں بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں مستقبل قریب میں بہتری کی کوئی بھی صورت نظر نہیں آ رہی۔ دوسری طرف عالمی معیشت کا انجن، امریکا گمبھیر حالات کا شکار ہو چکا ہے۔ عالمی اور علاقائی سطح پر نئے نئے سیاسی اور معاشی اتحاد قائم ہو رہے ہیں، امریکی معیشت کے دیوالیہ ہونے کی خبریں سنائی دے رہی ہیں۔ امریکا اس کی مسلسل تردید بھی کر رہا ہے لیکن امریکی عالمی برتری پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ ایسے حالات ہماری سیاست و معیشت پر منفی انداز میں اثر انداز ہو رہے ہیں۔
خطے میں امریکی و چینی مفادات ٹکرا رہے ہیں چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ روز افزوں ہے ثمر آور ثابت ہو رہا ہے۔ سی پیک نے بھی خطے کی سیاست اور معیشت میں تلاطم برپا کر رکھا ہے۔ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا ہی عقل مندی کا تقاضا ہے، اسی میں عافیت و فلاح ہے لیکن اکثر ترقی پذیر ممالک اخراجات کے مطابق، آمدن والے طریقے پر منصوبہ بندی کرتی ہیں اخراجات کیونکہ آمدن سے زیادہ ہوتے ہیں اس لیے ٹیکس لگا کر آمدنی کا حجم بڑھایا جانا مقصود ہوتا ہے جس کے باعث عامتہ الناس پر بوجھ پڑتا ہے۔ ان کی زندگیاں مشکل سے مشکل تر ہوتی چلی جاتی ہیں۔ ہم اکثر و بیش تر اخراجات کو سامنے رکھ کر آمدنی کا تخمینہ لگاتے رہے ہیں۔ ہم نے اخراجات کم کرنے یا ان پر گرفت کرنے کے بجائے آمدنی بڑھانے کی ترکیب استعمال کی ہے۔ ہمارے لیے آمدنی کا بڑا ذریعہ ٹیکس اور قرض رہا ہے اس لیے آج ہم اس مقام تک پہنچ چکے ہیں، صورتحال تقریباً نا قابل برداشت ہوچکی ہے۔ عالمی قرضے ہوں یا اندرون ملکی قرضوں کا حجم، ہماری بساط اور اوقات سے ایک عرصہ ہوا تجاوز کر چکا ہے۔ ٹیکسوں میں ہوشربا اضافے نے عوامی معیشت کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ پاکستان کے جاری سیاسی دنگل اور بے یقینی کا تعلق بھی اس بات سے ہے اور ہماری معاشی بدحالی بھی اسی فکر و عمل کے ساتھ جڑی ہوئی ہے کہ ہم نے ابھی تک اپنی پوزیشن کا تعین نہیں کیا ہے، ہم چینی گروپ کے ساتھ ہیں یا پہلے کی طرح امریکی اتحادی ہیں۔ ہم یہ بھی طے کر سکے ہیں کہ ہم دونوں کے ساتھ برابری کی سطح پر دوست اور حلیف ہیں لیکن اس پالیسی کو اپنانے کے لیے جو بنیادی عوامل درکار ہوتے ہیں وہ ہمارے پاس نہیں ہیں۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی نئے ابھرتے ہوئے عالمی سیاسی و معاشی تناظر میں طے کرنا ہوگی۔ ہمیں اپنی قومی ترجیحات اور مفادات کا جائزہ لے کر ابھرتے ہوئے نئے تناظر میں فیصلے کرنا ہوں گے۔ ہم جس انداز میں چل رہے ہیں ہماری معیشت جس طرح قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے، ہم عالمی ساہوکاروں کے ہاتھوں مسلسل بلیک میل ہو رہے ہیں اور آزادانہ خارجہ پالیسی اختیار نہیں کر پا رہے ہیں۔ جس کے باعث ہمارے معاملات کسی بھی ٹریک پر چڑھتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ اب جبکہ بجٹ آچکا ہے، تو ہمیں دیکھنا ہو گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ حکومت کی معاشی حکمت کاری ہمیں کہاں لے جاتی ہے؟