!!!تنازع کشمیر ایک انڈسٹری

1203

آزاد ریاست جموں کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کے فائیو اسٹار ہوٹل پرل کانٹی نینٹل میں 3 جون کو 3 روزہ پاکستان لٹریچر کانفرنس زیر اہتمام آرٹس کونسل کراچی کا انعقاد کیا گیا۔ ایک روز قبل مظفرآباد پریس کلب میں اس کانفرنس کو ہندوستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں منعقدہ G-20 کانفرنس کا جواب قرار دیا گیا ہے۔ اونٹ کے منہ میں زیرہ سہی! اس کانفرنس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا کانفرنس کے کم و بیش ڈیڑھ درجن نشستیں منعقد ہوئیں جن میں آزاد جموں کشمیر اور مملکت پاکستان کی نامور شخصیات جن میں صاحب علم و دانش، ادیبوں، شعراء، سیاستدانوں، گلوکاروں، فنکاروں کے ساتھ ساتھ ملک کے نامی گرامی صحافیوں نے شرکت کی ہے۔ اس کانفرنس میں دنیائے صحافت کا معروف نام وسعت اللہ خان کے خطاب نے اس وقت طلاتم پیدا کیا جب انہوں نے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ کیا کشمیر کی چھوٹی سی پٹی لیکر بیٹھے ہیں؟ معذرت کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ آپ مسئلہ نہیں ہیں بلکہ انڈسٹری ہیں یہ انڈسٹری کشمیر کمیٹی کا ذریعہ معاش ہے فاروق عبداللہ، محبوبہ مفتی سے لیکر آزاد کشمیر کے سیاستدانوں کا روزگار اس سے جڑا ہوا ہے پھر مسئلہ کشمیر کا آؤٹ آف بکس کوئی حل کیونکر تلاش کیا جائے؟ یہ تو اپنی پیٹ پر لات مارنے والا عمل ہوگا۔ گرچہ راقم کو وسعت اللہ خان کے فرمودات سے کچھ زیادہ اختلاف نہیں ہے لیکن کانفرنس ہال میں موجود یونیورسٹی کے طلبہ نے وسعت اللہ خان کے خطاب کے دوران جب ’’یہ وطن ہمارا ہے اس کا فیصلہ ہم کریں گے، ہم کیا چاہتے آزادی، لے کے رہیں گے آزادی‘‘ کے نہ تھمنے والے نعرے بلند ہوئے تو مجمعے کو کنٹرول کرنے کے لیے اسٹیج سیکرٹری معروف ٹی وی اینکر محترمہ عاصمہ شیرازی نے مداخلت کرتے ہوئے سروں کی فصل کٹوانے والے کشمیریوں کو قلم کے جہاد کا درس دے کر کشمیروں کی قربانیوں کا اپمان کیا ہے محترمہ عاصمہ شیرازی نے شرکاء سے مخاطب ہوکر کہا ہے کہ آج تک نعروں کے علاوہ کون سا کارنامہ سر انجام دیا گیا ہے؟ افسوس بلکہ صد افسوس موصوفہ کو کشمیریوں کی لاکھوں قربانیاں، ماؤں بہنوں کی تار تار عزت و آبرو، کشمیری نوجوانوں کے چھلنی بدن، جبری گمشدگیاں، بے نام قبریں اور بھارتی عقوبت خانوں میں ہزاروں محبوس کشمیری دکھائی نہیں دیے۔ محترمہ پاکستان کے جھنڈے میں لپٹی کشمیری مجاہدین کے جنازے نہ جانے کیوں صرف نظر کر گئیں؟ وسعت اللہ خان نے اسٹیج چھوڑنے کا غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے کشمیریوں پر مخصوص ایجنڈے کے تحت آمد کا الزام دھر دیا، جناب والا کیا محکوم و مجبور کشمیریوں کو با ادب پوچھنے کی اجازت ہوگی کہ آپ ساحل سمندر سے مظفرآباد کس ایجنڈے کی تکمیل کے لیے تشریف فرما ہوئے تھے؟ جناب والا غالباً بھول چکے ہیں کہ یہ وہی نعرے ہیں جو کبھی بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کشمیری عوام لگایا کرتے تھے، آج مظفرآباد کے پرتعیش فائیو اسٹار ہوٹل میں ان نعروں پر اعتراض کیوں؟ جناب وسعت اللہ خان آپ نے اپنے بے شمار کالموں میں زبان کھولنے والے کو ’’غدار‘‘ قرار دینے کی مخالفت کا بارہا ذکر کیا ہے یہاں تک کہ کشمیر اور کشمیریوں کے حوالے سے غداری کا لیبل چپکانے تک کا بھی تذکرہ کیا ہے لیکن آج آپ کے بدلے تیور آخر چہ معنی دارد؟
جدید ہتھیاروں سے لیس بھارتی افواج کے مقابلے میں لاکھوں جوانیاں لٹانے اور ان گنت قربانیاں دینے والے کشمیریوں کو محترمہ عاصمہ شیرازی کا قلم کے جہاد کا درس وسعت اللہ خان کے بیڈ فورڈ میں کشمیروں کو مسئلہ کشمیر سمجھانا عذر بدتر از گناہ کے مترادف ہی گردانا جاسکتا۔ اس کانفرنس کی صدائے بازگشت پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی گونجتی رہی ہیں۔ آر پار کشمیریوں کی اس کانفرنس میں دلچسپی دیکھنے کو ملی ہے کانفرنس کے نرم گرم ماحول پر کشمیریوں نے بھی اپنے جذبات اور احساسات کا برملا اظہار کیا ہے سوشل میڈیا پر چند ایک کی رائے قارئین کرام بھی ملاحظہ فرمائیں: ایک کشمیری مجاہد و مہاجر لکھتے ہیں کہ آج 35 سال بعد کشمیریوں کو سمجھایا جارہا ہے کہ کشمیر کے مسئلے سے پیچھے ہٹ جاؤ ہمارا سب کچھ لٹ چکا ہے ہمارے پاس بچا ہی کیا ہے کہ پیچھے ہٹ جائیں؟ جس تن لاگے سو تن جانے۔ محبوس کشمیری رہنما چیئرمین آل پارٹیز حریت کانفرنس مسرت عالم بٹ کے نمائندے نے اپنے جذبات کا اظہار کچھ یوں کیا ہے، جس قوم کے لوگ اپنے اصلی ہدف کو بھول کر اپنے معاشی حالات کو استوار کررہے ہوں کیا وہ انڈسٹری نہیں؟ بڑے ہی کیوں چھوٹے بھی تو اپنے استطاعت کے مطابق اس انڈسٹری کے پرزے بن چکے ہیں؟ آزادی کے نعرے کو پس پشت ڈال کر اپنی معاش کے لیے اس نعرے کو ڈال بنانا انڈسٹری نہیں، نعرے ہر قوم کے جذبات کی ترجمان ہوتے ہیں اور یہی نعرہ لگانے والے وقت آنے پر اپنے جانوں کا نذرانہ بھی دیتے ہیں اور نام نہاد قلم سے جنگ لڑنے والے ٹھنڈے کمروں یا ایسے ایونٹس پر
داد حاصل کرنے کے لیے ہوائی گولے داغ دیتے ہیں اور انگلی کٹا کے نام شہیدوں میں لکھوانا چاہتے ہیں۔ کشمیر کی لٹی پٹی قوم کے پاس نعروں کے سوا ہے ہی کیا؟ کیا تاریخ گواہ نہیں کہ اس قوم کے پاس لٹی ہوئی عصمتوں، بے نام قبروں، جلی ہوئی بستیوں، یتیموں، آدھی بیواؤں اور بے آسرا والدین کے سوا کچھ نہیں ہے؟ کشمیریوں کی قربانیوں کے نام نہاد رکھوالے رہزنوں کی طرح دو دو ہاتھوں سے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق بیچ رہے ہیں۔ ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی ضرورت ہے کہ آیا ہم کشمیر انڈسٹری کے چھوٹے ہی سہی مگر پرزے تو ہیں نا۔
کیا نام نہاد اہل قلم نے کبھی اپنے قلم کو جنبش دے کر بے آسرا قوم کشمیر کی حقیقی داستانِ غم کو رقم کیا ہے؟ یہ گلہ درست ہے کہ تیز تھی بارش مگر اپنے مکان کا رنگ بھی کچھ کچا تھا۔ جیو نیوز سے وابسطہ کشمیری نژاد صحافی لکھتے ہیں کہ میں نے دونوں سیشن سنے ہیں جن میں وسعت اللہ خان کی بے ربط گفتگو سمجھ سے بالاتر تھی، ہاں کشمیر کو انڈسٹری قرار دے کر جیسی روایتی باتوں پر ضرور تالیاں بجی ہیں، دانشور کا کام روایتی باتیں کرکے تالیاں بجوانا اور داد سمیٹنا نہیں ہوتا بلکہ موجودہ صورت حال کا جائزہ لیکر نئی راہ دکھانی ہوتی ہیں، موصوف نے کشمیر کو تو انڈسٹری اور روزگار قرار دے کر خوب داد سمیٹی ہے لیکن ان کی بات نہیں کی جنہوں نے یہ روزگار پیدا کیے ہیں، جناب حامد میر نے کہا جنرل باجوہ نے کشمیر بیچا لیکن موجودہ کشمیر پالیسی ٹھیک ہے۔
قارئین محترم مزید اضافہ کرنے کی گنجائش نہیں بنتی ہے البتہ آخر میں اتنا عرض کرنا چاہوں گا کہ اس ساری صورتحال کے تناظر میں مسئلہ کشمیر کہاں کھڑا ہے؟ کیا کشمیر انڈسٹری کو دوام بخشنا ہے؟ یا اس مسئلے کا کوئی باوقار حل تلاش کرکے مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے کشمیریوں کو بھارتی ظلم و جبر سے نجات دلانے کا انتظام و انصرام کرنا ہے۔