ـ7 مئی کے ظالم 9مئی کو خوفزدہ کیوں؟

727

7 مئی کو کراچی کی 11 مختلف یونین کونسلوں میں ضمنی انتخابات منعقد ہوئے اس کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ حکمران جماعت پیپلز پارٹی نے انتخابی عملے پولیس اور ریٹرننگ افسران کی ملی بھگت سے دھاندلی کی وہ تاریخ رقم کی جو اس کی سابقہ روایات کے عین مطابق ہے۔ اگر پیپلز پارٹی کے ارباب اختیار تاریخ سے کچھ سبق لیتے تو بہت کچھ بدل سکتا تھا۔ 1977ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی مقبولیت اتنی ضرور تھی کہ اگر وہ سادہ اکثریت نہ بھی لے پائی تو ایوان کی سب سے بڑی جماعت بن سکتی تھی مگر اس وقت کے ارباب اقتدار نے دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے ایسی دھاندلی کرائی کہ پہلے احتجاج ہوتا رہا یہاں تک کے ملک میں مارشل لا لگا دیا گیا جس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو ایک مقدمے میں پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ بظاہر یہ کہا جاسکتا ہے کہ بھٹو صاحب کو پھانسی تو نواب محمد احمد خان کے مقدمہ قتل میں ہوئی تھی مگر حقیقت حال یہ نہ تھی کیونکہ جب 7 مارچ 1977ء کو ووٹنگ کا عمل ختم ہوا تو شام 5 بجے ہی سے پی ٹی وی پر نتائج آنے کا سلسلہ شروع ہوا اور رات دیر گئے دھاندلی کے شواہد سامنے آئے، فضا مکدر ہوئی حزب اختلاف نے صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور پھر کئی ماہ تک احتجاجی تحریک چلتی رہی، مذاکرات بھی ہوئے مگر انجام کار مارشل لا کا نفاذ عمل میں آیا اگر تمام حالات کا بغور جائزہ لیں تو نہ دھاندلی ہوئی اور نہ مارشل لا لگتا اگر فوری طور پر بھٹو صاحب حکومت نہ بھی بناپاتے تو بہت جلد حزب اختلاف کا اتحاد پی این اے اندرونی اختلافات کا شکار ہوجاتا، یوں بھٹو صاحب دوبارہ اقتدار میں بھی آجاتے تو شاید جان بھی بچ جاتی۔ اسی زمانے میں ہندوستان میں اندرا گاندھی نے بدنام زمانہ ایمرجنسی لگائی جس کے بعد وہاں بھی کانگریس حزب اختلاف کے اتحاد کے مقابلے میں شکست سے دوچار ہوئی۔ اندرا گاندھی حزب اختلاف کی بنچوں پر بیٹھی اور پھر محض دو سال میں حزب اختلاف کا اتحاد اندرونی خلفشار سے دوچار ہو کر ختم ہوگیا۔ یوں اندرا گاندھی دوبارہ اقتدار کے ایوانوں میں براجمان ہوئیں۔ ہاں ان کی ضد اور تکبر انہیں لے ڈوبا۔ جب انہوں نے سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل پر فوج کشی کی تو نتیجتاً اپنے دو سکھ محافظوں کے ہاتھوں قتل ہوئیں۔
بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی جمہوریت کی امین بن کر سیاست میں شامل رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 1988، 1993ء، 2008ء میں دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔ اس دوران کراچی حیدر آباد میں لسانی گروہ نے عصبیت کی بنیاد پر عوام کو فریب سے دوچار کیا۔ انہوں نے بھی جمہوری روایات کو پامال کرتے ہوئے اپنے مخالفین کو تہس نہس کرنے کی ٹھانی۔ پہلے پہل انہیں عوامی حمایت حاصل تھی مگر اس کے باوجود ٹھپے بازی کے ذریعے ووٹوں کا گراف بڑھایا گیا، عدم برداشت کا یہ عالم تھا کہ مخالف پارٹیوں کے پولنگ ایجنٹوں کو پولنگ اسٹیشنوں سے باہر نکال دینے اور بعض مواقع پر تو یہاں تک ہوا کہ پولنگ اسٹیشن میں موجود ووٹروں کی تعداد سے بھی زیادہ ووٹ کاسٹ ہوئے۔ انتظامیہ بہی خواہ تھی الیکشن کمیشن بے بس تھا۔ دہشت گردوں کے سامنے حق گوئی کی قیمت جان گنوا دینے پر منتج ہوئی اور پھر وہی ہوا جو ہمیشہ سے ہوتا آرہا ہے۔ نمرود، فرعون، شداد، ابوجہل، ابولہب اور راجا داہر کی طرح ظالموں کا خاتمہ ہوا مگر اب ایک بار پھر پیپلز پارٹی دھاندلی کی سیاست پر اُتر آئی ہے۔
15 جنوری کو ہونے والے انتخابات میں پریزائیڈنگ آفیسروں کے نتائج کو ریٹرننگ افسران نے تبدیل کیا، پہلے تو الیکشن کمیشن نے انصاف دلانے کی بات کی مگر وہ بھی اہل اقتدار کے سامنے بے بس نظر آیا۔ ابھی یہ معاملات عدالت میں زیر سماعت تھے کہ 7 مئی کے ضمنی انتخابات کا معرکہ آن پہنچا۔ حافظ نعیم الرحمن نے انتخابات سے قبل ہی دھاندلی کے خدشات ظاہر کرتے ہوئے فوج اور رینجرز کی تعیناتی کا مطالبہ کیا۔ اس مطالبے کو بھی مانا جاسکتا تھا کیونکہ محض چند سو فوجی جوانوں کی ضرورت تھی مگر نہ ہی الیکشن کمیشن سنجیدہ تھا اور نہ ہی حکومت چاہتی تھی۔ اس لیے من پسند نتائج کے حصول کے لیے یہ تمام ڈراما کھیلا گیا۔
15 جنوری اور 7 مئی کے دوران اہل اقتدار نے ضمنی انتخابات میں تاخیر اس لیے کی کہ من پسند نتائج حاصل کیے جاسکیں۔ جن حلقوں میں ضمنی انتخابات ہوئے وہاں دوسرے علاقوں کے ہزاروں ووٹوں کا اندراج کروایا گیا اور مخالف ووٹروں کے نام فہرستوں سے حذف کرائے گئے۔ کورنگی ٹائون کے UC-2 مخدوم بلاول میں وائس چیئرمین کے امیدوار منصور فیروز اور ان کے خاندان اور دیگر بہت سے گھرانوں کے ووٹ فہرستوں میں موجود ہی نہ تھے حالاں کہ 15 جنوری تک ان سب کے نام ووٹر لسٹ میں موجود تھے پھر مخدوم بلاول سوسائٹی کے دو بہت چھوٹے کمروں میں پولنگ اسٹیشن بنایا گیا جہاں سے پولنگ ایجنٹوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر باہر نکالا گیا۔ اسی طرح الطاف ٹائون کے تینوں پولنگ اسٹیشنوں سے بھی پولنگ ایجنٹوں کو نکال کر من پسند نتائج حاصل کیے گئے جمہوریت کا یہ حسن ہے کہ انتخابی عمل کی نگرانی امیدوار یا ان کے ایجنٹ کریں مگر ایسا نہ کر کے جمہوری روایات کو پامال کیا گیا ہم تو یہی سنتے آئیں ہیں کہ بہترین آمریت سے بدترین جمہوریت بہتر ہے۔ ماضی اور حال کے تجربات نے یہی دکھایا کہ ہمارے حصے میں ہمیشہ بدترین جمہوریت آئی اور جب بھی ترقی ہوئی آمرانہ دور میں ہوئی کیونکہ بنیادی جمہوری اداروں کو وسیع اختیارات انہی ادوار میں حاصل رہے۔
7 مئی کو کورنگی کی UC-2 مخدوم بلاول میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے موقع پر پولیس نے جس طرح جماعت اسلامی کے نہتے کارکنان کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ وہ ایک ظالمانہ اقدام ہے۔ فوٹو اور ویڈیوز میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح ظلم و درندگی کا بازار گرم رہا۔ 50 کے قریب کارکن زخمی ہوئے۔ کراچی کے عوام کا مسیحا حافظ نعیم الرحمن 9 مئی کو ان کارکنان کی عیادت کی غرض سے کورنگی تشریف لائے انہوں نے کم و بیش پر زخمی کے گھر جا کر ان کی عیادت کی۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ آپ اللہ کی راہ میں نکلے تھے۔ باطل نے آپ کا راستہ روکا آپ کو جو زخم آئے وہ اجر کا باعث ہوں گے۔ صبرو استقامت کو اپنائیں کیونکہ جدوجہد جاری ہے۔ باطل کب چاہے گا کہ عدل و انصاف کا دور دورہ ہو۔ اس لیے ہمیں ان طاغوتی قوتوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑے رہنا ہے۔ 9 مئی کو جب حافظ نعیم الرحمن کورنگی میں زخمی ہونے والے کارکنوں کی عیادت کررہے تھے تو اسی دوران سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے دوران ان کے چند سو مشتعل کارکن شہر کی مختلف شاہراہوں پر توڑ پھوڑ اور آتش زنی میں مصروف تھے۔ بسیں اور کئی گاڑیاں جلائی گئیں، املاک کو نقصان پہنچایا جارہا تھا اور پولیس تماشا دیکھ رہی تھی۔ کہاں گئے وہ ڈنڈے جو محض دو روز قبل کورنگی میں جماعت اسلامی کے نہتے کارکنوں پر برسائے گئے تھے کہاں گئی وہ بندوقیں جن سے فائرنگ کرکے خوف و ہراس پھیلایا گیا تھا اور وہ منظر دیکھ کر دل باغ باغ ہوا جب لوگ پولیس والے کو مار رہے تھے میں نے اپنے کارکنوں سے کیا دیکھو آپ کی بددعائیں اثر لانے لگی ہیں جو آپ نہتے کارکنوں پر چڑھ دوڑے تھے۔ آج کیسے پٹ رہے ہیں اور ممکن ہے کہ ان ظالموں کی دنیا میں مکمل پکڑ نہ ہو مگر روز قیامت انہیں بے گناہوں پر ظلم کرنے کا جواب دینا ہوگا۔ اس موقع پر ایک بات بھی ذہن میں آئی کہ آخر پولیس جماعت اسلامی کے نہتے کارکنوں پر کیوں ٹوٹ پڑی۔ پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ان کے اپنے ہیں۔ رشوت، تشدد اور کرپشن سے نہیں روکیں گے۔ رہی جماعت اسلامی تو وہ برسراقتدار آکر عادلانہ نظام قائم کرکے بدعنوانی، رشوت اور کرپشن کا خاتمہ کردے گی اور ہماری پولیس یہ نہیں چاہتی۔