عافیہ ،امریکی جیل اور سوشل میڈیا

674

15 جنوری 2022 کو صبح دس بجے، سائیکل پر سوار ایک شخص ریاست ٹیکساس کے ایک یہودی معبد ’’کانگریگیشن بیتھ اسرائیل‘‘ میں دروازہ بجا کر مدد مانگنے کے بہانے داخل ہوتا ہے۔ اندر جا کر وہ بندوق کے زور پروہاں موجود افراد کو یرغمال بنالیتا ہے۔ اس دوران مغویوں میں سے ایک شخص نظریں بچا کر اپنے فون سے 911 پر اطلاع کردیتا ہے۔ 11:30 بجے تک یہ اطلاع عوام میں پھیل جاتی ہے کہ یہودی معبد میں ایک مسلح شخص نے وہاں کے لوگوں کو یرغمال بنا لیا ہے۔ اب وہ شخص اُس یہودی عبادت گاہ کے آفیشل فیس بک پیج سے لائیو اسٹریم شروع کر دیتا ہے۔ اس کا حیرت انگیز مطالبہ امریکا سے اپنی بہن ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا سامنے آتا ہے(جو اُس جگہ سے صرف 27 میل دور خواتین جیل میں قید تھی)۔ ایف بی آئی ایجنٹوں نے 10 گھنٹے تک مذاکرات کے بعد، جب دیکھا کہ مغوی رہا ہو گئے ہیں، اندر داخل ہو کر اُس اکیلے شخص کو ختم کر دیا، جو اپنی لائیو اسٹریم پر امریکا کے مظالم کے خلاف بولتا رہا، یہی نہیں امریکا، اسرائیل اور یہودیوں کے خلاف بھی مسلسل مختلف زبانوں (اردو، پنجابی، انگریزی) میں بیانیہ دیتا رہا۔ فیس بک نے بعد ازاں وہ لائیو اسٹریم بند بھی کر دی تھی اور پھر ڈیلیٹ بھی کر دی تھی۔ دو دن بعد ملک فیصل اکرم کے نا م سے بی بی سی و دیگر اداروں سے اُس کا نام ظاہر ہوا اور 44 سال کی عمر بتائی گئی۔ جو تفصیلات سامنے آئیں وہ یہ تھیںکہ ملک اکرم (پاکستان )جہلم کا رہائشی تھا مگر بنیادی طور پر وہ برطانوی شہری تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ نشریاتی رپورٹوں بہ شمول وکی پیڈیا پر بھی فیصل اکرم کی دماغی حالت پر سوال اٹھائے گئے، ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا کہ وہ دوران نشریات اپنے خدا سے دعا کر رہا تھا کہ وہ دو سال سے اپنی بہن کے لیے کچھ کرنے کی ہمت پکڑ رہا تھا جو آج ممکن ہوئی۔ بہرحال اس طرح بیمار قرار دینے والی ’’مساوات‘‘مجھے تو اس کیس میں مناسب ہی لگی۔ تکلیف دہ بات یہ ہوئی کہ امریکا میں مسلمانوں نے بھی اپنے ’’بیمار‘‘ بھائی پر سے ہاتھ اُٹھا لیے کیوں کہ اگر مغوی پہلے ہی رہا ہو گئے تھے تو کیوں ماورائے عدالت قتل کیا گیا، جب کہ پورے آپریشن میں کسی امریکی اہلکار کو خراش بھی نہیں آئی۔ واضح رہے کہ یہ واقعہ امریکا کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد ہوا ہے، پھر عافیہ پر کیس بھی افغانستان کے تناظر میں ہی تھا، دوسری جانب گوانتانامو سمیت دیگر جیل سے قیدی رہا کیے جا چکے تھے۔ یہ انتہائی اہم واقعہ تھا، امریکا میں کسی پاکستانی کی جانب سے جو 18سال سے سب کی خاموشی برداشت کرتے شاید تھک چکا تھا۔

ڈاکٹر عافیہ امریکی ریاست ٹیکساس میں ’’ایف ایم سی کارسویل‘‘ کے نام سے خواتین جیل میں ایک ایسے جرم کی قیدکاٹ رہی ہیں جو عملاً پورا ہی نہیں ہوا بلکہ زبردستی اُنڈیلا گیا۔ اس جیل میں کوئی 1068 خواتین قیدی ہیں۔امریکی فیڈرل بیورو آف پریژن کے مطابق 159387 قیدی مختلف جرائم کے بعد جیلوں میں قید ہیںجن میں 18 سے65 سال تک کے افراد جن میں مرد و خواتین شامل ہیں۔ اِن میں سب سے زیادہ 31 سے35 سال کی عمر کے قیدی ہیں، سب سے کم 18 سے 21 سال کی عمر کے۔

7 مئی 2023 کو ورلڈ جیل بریف سے تازہ ترین دستیاب اعداد و شمار کے مطابق، ریاست ہائے متحدہ دنیا میں چھٹے نمبر پر سب سے زیادہ قید ہونے کی شرح رکھتی ہے، یہ شرح 531 افراد فی لاکھ میں بنتی ہے۔ نوم چومسکی کہتے ہیں کہ ’’جب امریکا ایسا کچھ کرتا ہے تو یہ قانونی کیوں ہوتا ہے؟ کس طرح ریاست ہائے متحدہ کی فوج سپر اور سپر پاور کے لیے عالمی پولیس فورس بن گئی ہے؟‘‘

امریکا کا محکمہ جیل کی پوری جامع ویب سائٹ ہے، اِن قیدیوں کی تفصیلات ان کی ویب سائٹ پر درج ہیں۔ میں نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا ڈیٹا دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ 6 مارچ2082 مطلب مزید 59 سال بعد رہائی پا سکیں گی۔ ویب سائٹ پر اُن کی عمر 51 سال درج ہے۔ 28 جنوری 2010 کو نیویارک ٹائمز نے ڈاکٹرعافیہ کے کیس کی ایک عدالتی کارروائی کی یہ تفصیل شائع کی کہ’’تقریباً دو گھنٹے کی پرجوش گواہی میں، نیورو سائنٹسٹ، 37 سالہ عافیہ صدیقی نے اس بات سے انکار کیا کہ اس نے 18 جولائی 2008 کو افغانستان کے شہر غزنی کے ایک پولیس اسٹیشن میں ایم 4 رائفل پکڑی تھی اور امریکی افسران اور ایجنٹوں پر فائرنگ کی تھی۔ یہ سب سے بڑا جھوٹ ہے کہ مجھے کبھی اپنے اسکارف کے نیچے مسکرانے پر مجبور کیا گیا ہے، محترمہ صدیقی نے کہا جن کی آنکھیں ان کے چہرے کا واحد حصہ تھیں‘ جو اس کے کریم رنگ کے سر کو ڈھانپنے سے پوشیدہ نہیں تھیں۔ محترمہ صدیقی نے کہا کہ ہتھیار کبھی بھی اُن کے ہاتھ میں نہیں تھا، انہوں نے وضاحت کی کہ وہ محض اس لیے اسٹیشن سے فرار ہونے کی کوشش کر رہی تھیں کہ انہیں تشدد کا ڈر تھا۔ مین ہٹن میں امریکا کی ضلعی عدالت میں اس کی گواہی آخری لمحات تک شک میں رہی۔ محترمہ صدیقی کے وکلا نے اُن کو بچانے کے لیے یہ دلیل بھی دی کہ وہ ذہنی طور پر بیمار ہیں۔ تاہم استغاثہ نے کہا کہ محترمہ صدیقی، جنہیں کچھ انٹیلی جنس اہلکاروں نے القاعدہ سے جوڑ دیا ہے، اِن کا دماغ مکمل درست ہے اور انہوں نے اُن کے غصے کو ’’موقع پرست اور حسابی‘‘ قرار دیا۔ اگرچہ وہ زیادہ تر استغاثہ اور دفاع کی طرف سے اٹھائے گئے موضوعات پر قائم رہیں، محترمہ صدیقی نے اپنی گرفتاری سے قبل خفیہ نجی جیلوں میں اپنے اوپر ہونے والے تشدد کا بھی ذکر کیا۔ ‘بالآخر 24 ستمبر 2010 کو اخبارات میں ڈاکٹر عافیہ پر امریکی فوجیوں اور ایف بی آئی ایجنٹس کو قتل کرنے کی کوشش میں 86 سالہ قید کی خبر شائع ہوئی۔

ڈاکٹر فوزیہ سینیٹر مشتاق خان اور وکیل کلائیو اسٹیفورڈ کے ہمراہ 20 سال سے امریکا میں قید کی زندگی کاٹنے والی اپنی بہن ڈاکٹر عافیہ سے ملنے امریکا گئیں۔20 سال بعد اپنی ہی بہن سے ملاقات کرنے کی اجازت ہو سکتا ہے طویل جدوجہد کے بعد ملی ہو، مگر سوشل میڈیا کی وجہ سے لوگ تو دیوانے ہی ہو گئے تھے۔ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ تو بننے تھے جب ساری معلومات اور نتائج اخذ کرنے کا ذریعہ ہی یہی رہ گیا ہو۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کی ٹوئیٹ کے الفاظ یہ تھے ’’حکمران اگر عافیہ کو واپس نہیں لاتے تو انھیں دنیا و آخرت میں عافیت نہیں ملے گی۔ شرم ناک فعل ہے کہ قوم کی بیٹی پر ڈالروں کو ترجیح دی گئی۔ ملت کا اجتماعی فریضہ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے حکمرانوں کا جھنجھوڑا جائے۔‘‘

اب چلتے چلتے ایک اور انصاف پسندی بتاتے ہیں، ماں کے لیے ایک دن، باپ کے لیے بھی ایک، خاندان کے لیے بھی ایک، استاد، عورت، محبوبہ کے لیے بھی ایک دن، معذوروں کے لیے ایک دن، صحت، پانی، کھانے، ماحولیات سب کے لیے ایک‘ ایک دن وقف ہے۔ مگر ہم جنس پرستوں کے لیے پورا ’’ایک مہینہ‘‘۔ جی یکم سے 30 جون ’’پرائڈ منتھ‘ شروع‘ پوری دنیا میں چلے گا مگر سوشل میڈیا بری طرح رنگین رہے گا۔ یکم جون کو پاکستانی حدود میں LGBTٹاپ ٹرینڈ میں گردش کرتا رہا، جس کے ذیل میں اسی بات پر زور دیا گیا کہ اپنی تحریک کو اب ہمیں دگنی رفتار سے لے جانا ہوگا۔ ہیومن رائٹس واچ نے ٹوئیٹ کرکے اپنا ایجنڈا بتایا کہ ’’دنیا بھر میں LGBT لوگوں کے لیے مساوات کے حصول کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ لیکن ہم آگے بڑھتے رہتے ہیں۔پورے #Pride مہینے اور ہر دن کے دوران LGBT حقوق انسانی حقوق ہیں۔‘‘ یہ تیزی سے سرایت کرتا ہوا عنوان ہے، مغربی ممالک میں جس تیزی سے اِس کو ریاستی پشت پناہی حاصل ہے اُس نے پوری معاشرت کو تباہ کر دیا ہے۔ مغرب میں خاندان ویسے ہی سکڑ چکا ہے، اب اس کو LGBTکے قالب میں ڈھال کر ہم جنس پرستوں، جانوروں، حتیٰ کے روبوٹ تک سے جوڑ دیا جائے گا تو اندازہ کر لیںکہ کیا حال ہوگا۔ اس ساری جعلی ترقی کی سب سے خطرناک قیمت مغربی ممالک میں آبادی کے شدید بحران کی صورت ہمارے سامنے ہے۔ عورتیں بچے پیدا نہیں کر رہیں، جو ہو جائے اُس کو پھینک دیتے ہیں، باقی ہم جنس پرستی و جانوروں سے یا روبوٹ سے تو کوئی چانس ہی نہیں۔ میٹرنٹی وارڈ ہی بند ہو رہے ہیں، سروگیسی اور بچوں کی پیدائش کے مصنوعی طریقے عام کیے جا رہے ہیں، بوڑھوں کی تعداد میں ہول ناک اضافہ ہو رہا ہے‘ جس کے لیے ’’اولڈ کیئر‘‘ کی پوری صنعت تخلیق کر دی گئی ہے کہ باہر سے نرسیں منگوا کر کام چلایا جائے۔ اس تباہی کو مستقل سوشل میڈیا پر بتانے وسمجھانے کی ضرورت ہے۔