کراچی میں مسلح ڈکیتی اور اسٹریٹ کرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتیں شہریوں کے لیے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن کا حالیہ بیان جس میں انہوں نے سندھ حکومت اور محکمہ پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کو ان جرائم کی روک تھام میں ناکامی کا ذمے دار قرار دیا ہے، صورتِ حال کی سنگینی کو واضح کرتا ہے۔ اخباری رپورٹ کے مطابق رواں سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی 30 ہزار سے زائد وارداتیں درج کی گئیں۔ ان واقعات کے نتیجے میں 61 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، جبکہ 250 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ یہ اعدادو شمار تشویش ناک ہیں اور کراچی کے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں حکام کی سنگین ناکامی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن کا موجودہ حالات کا ذمے دار سندھ حکومت کو قرار دینا کوئی نئی بات نہیں، اور کراچی کے لوگ دیکھ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی ناکام ہوگئی ہے۔ یہ انتہائی تشویش ناک بات ہے کہ سندھ حکومت اس صورتِ حال کو کنٹرول کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔کراچی کو کئی دہائیوں سے مختلف مسائل کا سامنا ہے، اور موجودہ صورتِ حال پیپلز پارٹی کی بار بار بننے والی حکومت کی مجموعی ناکامیوں کا نتیجہ ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ میں طویل عرصے سے برسراقتدار ہے اور وہ موجودہ صورتِ حال کی ذمے داری سے بچ نہیں سکتی۔ کراچی کے مسائل سیاسی کے ساتھ انتظامی ہیں اور ان کے حل کے لیے جامع حکمت ِ عملی کی ضرورت ہے۔ اسٹریٹ کرائم کی روک تھام میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی ان کے پاس موجود صلاحیت کی کمی کا واضح ثبوت ہے۔ کراچی میں پولیس کا محکمہ جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح سے نمٹنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔ مزید یہ کہ پولیس فورس میں تربیت اور پیشہ ورانہ مہارت کی کمی بھی اسٹریٹ کرائمز کی روک تھام میں ناکامی کی ایک اہم وجہ ہے۔ کراچی میں پولیس کا محکمہ بھی بدعنوانی اور سیاست کی لپیٹ میں ہے جس کی وجہ سے اس کے موثر طریقے سے کام کرنے کی صلاحیت مزید متاثر ہوئی ہے۔ پولیس والے جرائم میں ملوث ہیں، عام شہریوں کو ناجائز اغوا کرتے ہیں اور پھر پیسے لے کر چھوڑتے ہیں۔ اسی طرح محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکار اپنے اصل کام سے ہٹ کر کراچی میں شہریوں کو تاوان کے لیے اغوا کرتے ہیں۔ گارڈن میں قائم مختلف سیل سے متعلق اس طرح کی شکایات موجود ہیں۔ ماضی میں ڈی آئی جی کائونٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ نے عوامی شکایات پر نوٹس بھی لیا ہے اور انچارج کی سطح پر اہلکاروں کو معطل بھی کیا ہے، لیکن بعد میں پھر وہ کسی نہ کسی طرح نوکری پر بحال ہوجاتے ہیں۔ ابھی گزشتہ دنوں بھی سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے فیڈرل بی ایریا میں ایک دکان پر چھاپا مارا، اس کے دو ملازمین کو اغوا کیا، دکان میں سیکورٹی کے لیے رکھے ہوئے لائسنس یافتہ اسلحہ کو لے گئے، اور جب مالک نے لائسنس پیش کیا تو اسلحہ کا نمبر مٹا دیا گیا اور اسے ناجائز اسلحہ بناکر ایف آئی آر درج کرلی گئی۔ اب کراچی کا شہری اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے عدالت کے چکر لگا رہا ہے۔ کراچی میں اس طرح کی کارروائیاں روزانہ کی بنیاد پر ہورہی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ محکمہ پولیس کو سیاسی بنانے کا مطلب یہ ہے کہ افسران کی تقرریاں اور ترقیاں اکثر میرٹ کے بجائے سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں احتساب اور پیشہ ورانہ مہارت کا فقدان ہوتا ہے۔ محکمہ پولیس کے ساتھ ساتھ کراچی کے شہریوں کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں سندھ حکومت کی ناکامی بھی موجودہ صورتِ حال میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ شہر کو پانی اور بجلی کی عدم فراہمی کے شدید مسائل کا سامنا ہے جس کے باعث شہریوں میں شدید مایوسی اور غصہ پایا جاتا ہے۔ بنیادی سہولتوں کی کمی نے بھی نوجوانوں میں ناامیدی کا احساس پیدا کیا ہے جس کی وجہ سے جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ بنیادی خدمات کی فراہمی میں سندھ حکومت کی ناکامی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کراچی میںکچی آبادیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ بستیاں اکثر ایسے علاقوں میں واقع ہیں جہاں انفرا اسٹرکچر اور سیکورٹی ناکافی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے یہ علاقے مجرموں کے لیے آسان ہدف بن جاتے ہیں۔ ان علاقوں میں منصوبہ بندی اور ترقی کی کمی نے بھی جرائم پیشہ گروہوں کی افزائش میں اہم کردار ادا کیا ہے جو کسی استثنیٰ کے بغیر کام کرتے ہیں۔ کراچی میں اسٹریٹ کرائم کے مسئلے کا ملک میں دہشت گردی، سی پیک اور عالمی کھیل کے منصوبوں سے بھی گہرا تعلق ہے، کیوں کہ کچھ قوتیں سی پیک سے خوش نہیں اور وہ اسے ناکام بنانے کے لیے کراچی میں افراتفری چاہتی ہیں۔ کراچی میں اسٹریٹ کرائم کے مسئلے کے حل کے لیے ایک جامع منصوبے کی ضرورت ہے۔ اس سمت میں پہلا قدم شہر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مضبوط بنانا اور پولیس کو جدید ٹیکنالوجی اور تربیت سے آراستہ کرنا ہے۔ کراچی میں محکمہ پولیس کو بھی غیر سیاسی کرنے کی ضرورت ہے اور تقرریاں اور ترقیاں سیاسی وابستگیوں کے بجائے میرٹ کی بنیاد پر ہونی چاہئیں۔ سندھ حکومت کو کراچی کے بنیادی مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ شہر میں بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائم کے معاملے کو بھی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ کراچی کی یہ تصویر صرف شہریوں کی سلامتی سے منسلک نہیں ہے بلکہ اس سے ملک کا امیج بھی متاثر ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ حکومت کو پانی اور بجلی کی فراہمی کو ترجیح دینے، شہر میں انفرا اسٹرکچر کو بہتر کرنے کے لیے باتوں اور نمائشی اقدامات کے بجائے عملی کام کرنے اور کسی بھی پروجیکٹ میں پورا بجٹ لگانے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد ہی کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال پر قابو پانا اور اسے اپنے مکینوں کے لیے پْرامن اور محفوظ شہر بنانا ممکن ہوگا۔