ترک صدی کا دروازہ کھل گیا

710

ترکیہ میں صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لیے ووٹنگ کا ترکیہ کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار تجربہ ہوا۔ دوسرے مرحلے کے انتخابات میں جمہور اتحاد کے رجب طیب اردوان کا ملت اتحاد کے کمال کلیچ دار اوغلو کے ساتھ کانٹے کا مقابلہ ہوا۔ لیکن درحقیقت رجب طیب اردوان کا مقابلہ مغربی طاقتوں سے تھا، جو نہیں چاہتی تھیں کہ اس مرتبہ طیب اردوان اقتدار میں آئیں۔ پورے ترکیہ میں 28 مئی کی صبح 8:00 بجے ووٹنگ کا عمل شروع ہوا۔ شہریوں نے شام 5:00 بجے تک ووٹ کاسٹ کیے۔ انتخابات کے لیے ملک بھر کے 973 اضلاع اور 1094 اضلاع کے انتخابی بورڈز میں 191 ہزار سے زائد بیلٹ بکس لگائے گئے تھے۔ جن میں 5 سال تک خدمات انجام دینے والے ترکیہ کے صدر کا تعین کیا گیا۔ ملک میں 6 کروڑ سے زائد ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔
14 مئی 2023 کو ہونے والے ترکیہ کے انتخابات سے پہلے مغربی طاقتوں نے سروے کمپنیوں کے ذریعے اردوان کے خلاف پروپیگنڈا کیا اور یہ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی کہ اردوان عوامی مقبولیت کھو چکے ہیں اور وہ اپنے عوام کی نظروں میں کسی ڈکٹیٹر سے کم نہیں ہیں۔ ان سروے کمپنیوں نے عوامی رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی بھرپور کوشش کی۔ یہ درحقیقت ففتھ جنریشن وار کا حصہ تھا جس کے تحت انفارمیشن وار ان کے خلاف لڑی جاتی ہے جو مغربی طاقتوں کو پسند نہیں۔ ترکیہ میں اردوان ایک مضبوط لیڈر ہیں جو مغربی طاقتوں کو ناپسند ہیں، اس کی بنیادی وجہ ترکیہ کو بلندی اور ترقی کی جانب لے کر چلنا ہے۔ ترکیہ نے حال ہی میں ہونے والی آذربائیجان کی جنگ کا پانسہ پلٹ دیا ہے، جو مغرب کو قطعاً ناقابل قبول ہے۔ لہٰذا انفارمیشن وار کے تحت سروے کمپنیوں کو بیک ڈور فنڈنگ کی گئی تاکہ لوگوں کا مائنڈ سیٹ تبدیل کیا جاسکے۔ سروے کمپنیوں نے پیش گوئیاں کی تھیں کہ کلیچ دار اوغلو کو 56فی صد ووٹ ملیں گے اور طیب اردوان کو 42فی صد ووٹ ملیں گے۔ جس کی وجوہات مہنگائی، قدامت پسندی، غیر ملکیوں کی ترکیہ میں آبادکاری اور پچھلی دو دہائیوں سے طیب اردوان کی مسلسل حکومت۔ سروے باقاعدہ ایجنڈا سیٹنگ کے تحت ان علاقوں میں ہوئے جہاں پر طیب اردوان کی مخالفت تھی۔ چند ہزار لوگ سات کروڑ افراد کی نمائندگی نہیں کرتے۔ چند ہزار مخصوص لوگوں کی رائے سوشل میڈیا پر دکھانے سے صرف مغربی طاقتوں کا ایجنڈا سامنے آیا اور 14 مئی اور پھر اب 28 مئی کے الیکشن میں ان سروے کمپنیوں نے حتی کہ مغربی طاقتوں نے منہ کی کھائی ہے۔
پوری دنیا میں جب مغربی طاقتیں کسی مسلمان ملک میں پروپیگنڈا کرتی ہیں تو عوام اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ جیسے عراق اور لیبیا حتیٰ کہ پچھلے دنوں پاکستان میں بھی دیکھا گیا۔ لیکن ترکیہ میں اس کے برعکس ہوا۔ سروے کمپنیوں کی اردوان مخالف مہم کا اثر الٹا پڑا اور لوگوں نے اردوان کو لانے کے لیے بھرپور ووٹنگ کی۔ سب سے زیادہ نوجوانوں نے رجب طیب اردوان کو سپورٹ کیا۔ جس کے نتیجے میں28 مئی کو ہونے والے دوسرے مرحلے کے انتخابات میں طیب اردوان بالآخر بھاری اکثریت سے جیت گئے۔ 14مئی کے پہلے مرحلے میں طیب اردوان کو 49 فی صد ووٹ ملے۔ جبکہ 28مئی کو ہونے والے دوسرے راؤنڈ میں 52 فی صد ووٹ حاصل ہوئے۔ ترکیہ کی عوام نے پہلے سے زیادہ طیب اردوان پر اعتماد کا اظہار کرکے مغربی طاقتوں کو پیغام دے دیا ہے ترکیہ میں ان کی چالیں کامیاب نہیں ہوں گی۔ دوسرے راؤنڈ میں ترکیہ کے دور دراز قصبوں میں یہ مناظر بھی دیکھنے کو ملے کہ بوڑھے اور اپاہج افراد بھی صبح صبح اپنے ہر دلعزیز لیڈر کو ووٹ دینے پولنگ اسٹیشنوں کے باہر ووٹ ڈالنے کے منتظر دکھائی دیے۔
ایک ایسا حکمران جس کی حکمرانی میں انسان تو انسان جانور بھی آسودہ ہیں۔ ترکیہ میں کتوں، بلیوں، پرندوں کو حکومت کی جانب سے باقاعدہ خوراک ڈالی جاتی ہے۔ چرند پرند انسانوں کی مانند پرسکون نظر آتے ہیں۔ اسی طرح عوام کو زندگی کی بنیادی ضروریات حاصل ہیں۔ سستا اور ہر جگہ ہر طرح کا میسر ٹرانسپورٹ سسٹم، مفت تعلیم، مفت صحت الغرض عوام کو ہر طرح کی سہولت میسر ہیں۔ پر امن ماحول میں پہلے اور دوسرے راؤنڈ کے الیکشن ہوتے ہوئے ساری دنیا نے دیکھے۔ نہ کوئی پولیس کی نفری تعینات تھی اور نہ آرمی و رینجرز۔ اپوزیشن بھی مطمئن ہے کہ کوئی دھاندلی نہیں ہوئی۔ فری اور فئیر الیکشن ہوئے۔ دونوں صدارتی امیدواروں نے عوام کے ساتھ لائن میں کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظار کیا۔ اسی طرح صدر رجب طیب اردوان نے استنبول میں دوسرے راؤنڈ میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد جشن منانے والے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’ہم نے صدارتی انتخابات کا دوسرا دور اپنی قوم کے حق میں مکمل کر لیا ہے، انہوں نے کہا، 14 مئی اور 28 مئی کے انتخابات کے فاتح ہمارے تمام 85 ملین شہری ہیں۔ میں نے کہا تھا کہ ہم اس طرح جیتیں گے کہ کوئی نہیں ہارے گا، لہٰذا آج صرف ترکیہ ہی فاتح ہے‘‘۔
صدر رجب طیب اردوان نے اپنی تنظیم کے تمام اراکین، خواتین اور نوجوانوں اور ہر اس شخص کو مبارکباد پیش کی جنہوں نے رضاکارانہ طور پر انتخابات کو بخوبی انجام دیا۔ انہوں نے پھر دہرایا کہ ان انتخابات میں صرف ترکیہ ہی جیت رہا ہے’’آج کا الیکشن جمہوریت کی بھٹی ہے۔ جس طرح آگ میں لوہا بنتا ہے اسی طرح آپ کی مرضی بیلٹ باکس میں اٹوٹ طاقت بن گئی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ 14 مئی اور 28 مئی کے انتخابات کے فاتح ہمارے 85 کروڑ شہری ہیں۔ میں نے ایک اور بات کہی تھی۔ ’’ہم اس طرح جیتیں گے کہ کوئی نہیں ہارے گا‘‘ تو آج صرف ترکیہ ہی فاتح ہے۔ اپنی جمہوریت اور ترقی پر سمجھوتا کیے بغیر ’’ہم نے ترک صدی کا دروازہ کھول دیا‘‘۔ ہم نے مل کر اپنی قوم کے تمام طبقات کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کیا ہے۔ یہاں پر یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ 28 مئی کو ترکیہ میں دوبارہ صدارتی انتخابات ہوئے۔ اور 29 مئی کو سرکاری رزلٹ آئے گا۔ 29 مئی ترکیہ کی تاریخ کا انتہائی اہم دن ہے۔ 29 مئی کو ہی نبی اکرمؐ کی بشارت کے مطابق قسطنطنیہ (استنبول، اناطولیہ موجودہ ترکی) فتح ہوا تھا۔ خلافت عثمانیہ کے اختتام کے بعد 1913 میں ترکیہ پر مغربی قوتوں نے 100 سالہ پابندی لگادی تھی۔ وہ بھی اختتام پزیر ہونے کو ہے۔ ترکیہ معاہدے کے خاتمے کے بعد خلافت عثمانیہ کی بحالی اور مسلم ممالک کو ساتھ ملا کر اسلامی بلاک بنا سکتا ہے۔ جو مغربی قوتوں کے لیے ناقابل ِ برداشت ہے۔ اس لحاظ سے رجب طیب اردوان کا یہ پیغام کہ ’’ہم نے ترک صدی کا دروازہ کھول دیا‘‘۔ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔