چیف جسٹس کا حکومت کو جارحانہ انداز اختیار کرنے سے گریز کا مشورہ

827

اسلام آ باد :چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے وفاقی حکومت کو جارحانہ انداز اختیار کرنے سے گریز کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ حالات جس نہج پر پہنچ چکے سب کو مثبت کردار ادا کرنا ہوگا، عدالت کاذہن کسی قانون کوختم کرنے کا نہیں، صرف عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کریں گے، جمعرات کو دوسرے کیس میں عدالت بیٹھے گی، ہم چاہتے ہیں دوسرے فریق کوبھی اس قانون کاپتہ چلے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پنجاب الیکشن فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی نظر ثانی اپیل پر سماعت کی۔ دوران چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو محاطب کرتے ہوئے کہا کہ جارحانہ مزاجی کسی کی مدد نہیں کرتی،گریز کریں۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ اب قانون بن چکا ہے، اب نظرثانی اپیل فیصلہ دینے والے بنچ سے بڑا بنچ ہی سنے گا اور نئے ایکٹ کے تحت نظرثانی کا دائرہ اختیار اپیل جیسا ہی ہوگا، اب نظرثانی اپیل فیصلہ دینے والے بنچ سے بڑا بنچ ہی سنے گا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ تو بڑا ہی دلچسپ معاملہ ہوگیا، یہ عدالت عدلیہ کی آزادی کے بنیادی حق کو بھی دیکھتی ہے، آپ اس سے متعلق حکومت سے ہدایت لے لیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جمعرات کو دوسرے کیس میں عدالت بیٹھے گی، ہم چاہتے ہیں دوسرے فریق کوبھی اس قانون کاپتہ چلے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ دوسر ے فریق کواس نئے قانون کاپتہ ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آج علی ظفر نظر نہیں آئے لیکن انہیں سینیٹ سے علم تو ہوگیا ہوگا۔

چیف جسٹس عمرعطابندیال کا کہنا تھا کہ عدالت کاذہن کسی قانون کوختم کرنے کا نہیں، صرف عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کریں گے۔ عدالتی اصلاحات کیس جمعرات کوسنیں گے۔

یاد رہے کہ گزشتہ سماعت میں تحریک انصاف نے اپنا جواب جمع کراتے ہوئے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن چاہتا ہے سپریم کورٹ نظریہ ضرورت کو زندہ کرے۔ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل مسترد کرنے کی استدعا کی تھی اور کہا کہ نظرثانی اپیل میں الیکشن کمیشن نے نئے نکات اٹھائے ہیں جب کہ نظرثانی اپیل میں نئے نکات نہیں اٹھائے جاسکتے، الیکشن کمیشن نظرثانی اپیل میں نئے سرے سے دلائل دینا چاہتا ہے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 4 اپریل کو فیصلہ سناتے ہوئے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا، تاہم 14 مئی کی ڈیڈ لائن گزرنے کے باوجود عدالتی حکم پر عملدرآمد نہیں ہوا تھا۔ 21 ارب روپے کی عدم فراہمی عدالتی حکم پر وفاق اور الیکشن کمیشن عملدرآمد نہ کرسکے، اس کے بعد 3 مئی کو الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے پر نظر ثانی درخواست دائر کی تھی۔