امن سے ہے زندگی! ویسے تو کراچی سے کشمور پورا سندھ بدامنی کی لپیٹ میں ہے مگر اس وقت پنجاب و بلوچستان کی سرحد پر واقع اور دریائے سندھ کے کچے کے ساتھ ملحق بالائی سندھ کا ضلع کشمور سب سے زیادہ بدامنی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس وقت بھی معصوم بچہ سمرت کمار سمیت درجنوں افراد ڈاکوؤں کے چنگل میں ہیں جبکہ تین ماہ قبل حاملہ خاتون نازیہ کھوسہ بھی تاحال بازیاب نہیں ہوسکی ہیں۔ لوٹ مار چوری ڈکیتی معمول خاص طور پر اغوا برائے تاوان اس ضلع میں ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کر گیا ہے، کہا جاتا ہے کہ دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ کشمور گھوٹکی اور شکارپور اضلاع کا کچے کا علاقہ اس وقت ڈاکوئوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، جہاں پر سندھ سمیت ملک بھر سے اغوا برائے تاوان کے مغویوں کو چھپایا جاتا ہے۔ ہزاروں ایکڑ پر مشتمل کچے کا علاقہ جنگلات کے ساتھ زرخزیز زمین پر مشتمل ہے جہاں پر گندم سمیت ہر فصل بہترین ہوتا ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ معنیٰ خیز ہے کہ ہر سال فصل اترنے کے موقع پر کچے میں آپریشن کے اعلانات اور مذکورہ اضلاع میں بدامنی اور جرائم کی وارداتوں میں تیزی آجاتی ہے اس وقت بھی ان علاقوں میں بے امنی اپنے انتہا کو پہنچ چکی ہے، یہاں تک کہ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں یہاں سے ڈاکو بیلٹ باکس تک اٹھا کر لے گئے اور مذاکرات کے بعد بیلٹ باکس واپس ہوئے یہ خبریں میڈیا پر بھی آچکی ہیں اس سے اندازہ لگائیں کہ یہاں کتنی حکومتی رٹ قائم ہے۔
حیرت اس بات پر بھی ہوتی ہے کہ پولیس سے بھی زیادہ جدید ترین اسلحہ وگولہ بارود جنگل میں بیٹھے ڈاکوئوں تک کیسے پہنچ جاتا ہے؟ جبکہ حکومت نے ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن کرنے کے لیے 3کروڑ روپے جاری کیے ہیں جس میں جدید اسلحہ وسازو سامان شامل ہے۔ پولیس کی جانب سے سکھر، گھوٹکی، کشمور اور شکارپور کے کچے کے مخصوص علاقوں میں مواصلاتی نظام جام کرنے کے ساتھ ڈاکوؤں کے خلاف جامع حکمت عملی کے ساتھ آپریشن جاری ہے۔ کچے میں پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان مقابلے کے دوران کئی پولیس افسران و اہلکاروں کی شہادت کے بعد پولیس کی جانب سے حکومت سندھ سے جدید اسلحہ فراہم کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔
اس وقت بالائی سندھ کے ان اضلاع میں قبائلی جھگڑے بھی ایک ناسور کی شکل اختیارکرچکے ہیں جو بدامنی ولاقانونیت میں مزید اضافہ کا سبب بن رہے ہیں۔ معمولی معمولی بات پر ہونے والے قبائلی جھگڑوں نے کئی خاندان تباہ اور گائوں کے گائوں اجاڑ کررکھ دیے ہیں۔ عوام سخت خوف اور اذیت کا شکار ہیں جس کی وجہ سے تعلیم و کاروبار کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت پولیس اور ادارے عوام کی جان و مال کی حفاظت میں ناکام ہوچکے ہیں۔ بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم یافتہ آئی بی اے کے استاد پروفیسر اجمل ساوند بھی کندکوٹ میں اسی لاقانیت کے بھینٹ چڑھ گئے۔ اس صورتحال کے پیش نظر جماعت اسلامی نے اتوار 21 مئی کوضلع کشمور کے صدر مقام کندھ کوٹ میں حکومتی بے حسی اور اداروں کی ناکامی کے خلاف گھنٹہ گھر سے پریس کلب تک ’’امن مارچ‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔ جس کی قیادت جماعت اسلامی سندھ کے امیرو سابق ایم این اے محمد حسین محنتی، امیرضلع غلام مصطفی میرانی نے کی جبکہ جماعت اسلامی کے دیگر صوبائی ومقامی رہنمائوں کے علاوہ شہر کی تاجر برادری، سیاسی سماجی دینی رہنما، اقلیتی نمائندے اور مغویوں کے ورثاء نے شدید گرمی کے باوجود بھرپور شرکت کی اس سے قبل بدامنی کے خلاف جماعت اسلامی رمضان میں بھی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرکرچکی ہے۔ امن مارچ کے شرکاء نے بدامنی کے خلاف اور امن کھپے امن کھپے کے فلگ شگاف نعرے لگا ئے۔ صوبائی امیر محمد حسین محنتی نے اپنے خطاب میں امن و امان کی ناکامی پر وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پولیس ڈاکوؤں سے ملی ہوئی ہے اتنے بڑے بجٹ کے باوجود پولیس رینجرز حکومت کس کام کی ہے۔ کسی کی جان ومال محفوظ نہیں ہے۔درجنوں لوگ اغوا ہوچکے مگر انتظامیہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ڈاکوؤں کے پاس جدید اسلحہ کیسے پہنچ جاتا۔ پولیس، بااثر لوگوں اور ڈاکوئوں کا نیٹ ورک ختم کیے بغیر اس کاروبار کا خاتمہ ناممکن ہے۔ پیپلز پارٹی 15 سال سے اقتدار میں ہے مگر سندھ کے عوام امن ترقی سے محروم ہیں۔ عوام کو جینے کا موقع دیا جائے۔ سندھ حکومت کو مخاطب ہوتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمارے اس احتجاج کا نوٹس نہ لیا گیا تو عوام کراچی میں بلاول ہائوس و سندھ اسمبلی پر دھرنا دے سکتے ہیں۔ بے امنی سے ہندو تاجر بھی محفوظ نہیں، سندھ کی روایات کے برعکس خواتین کی تذیل و لوٹ مار کے واقعات شرمناک عمل ہیں۔ سورج غروب ہونے کے بعد شاہراہیں روڈ راستے سنسان ہوجاتے ہیں اغوا لوٹ مار اور بھتے کی وارداتوں کے باعث لوگ گھروں تک محصور ہوگئے ہیں۔ قیام امن کے لیے کچے علائقے میں فوجی آپریشن کی اشد ضرورت ہے۔
سندھ میں بدامنی ولاقانونیت نمبر ون مسئلہ بنا ہوا ہے۔ پہلے ہی عوام مہنگائی بیروزگاری اور سیلاب کی صورتحال کی وجہ سے سخت پریشان ہیں بدامنی کی لہر نے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے ماضی میں سندھ میں ڈاکو راج کے خلاف بے رحمانہ آپریشن کرکے امن امان کی بحالی کے لیے اپنا بھرپورکردار ادا کیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جیسے جیسے عوام بے امنی کے خلاف احتجاج اور پولیس ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن کرتی ہے تو ویسے ویسے بدامنی اور جرائم کی وارداتوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کہیں یہ سب کچھ مصنوعی تو نہیں؟ بہرحال حکومت کی اولین ذمے داری ہے کہ وہ شہریوں کی جان ومال کی حفاظت کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کرے۔