پاپولر سیاست کا انجام

803

دانشور سیاستدانوںکے مربی (Mentor) ہوتے ہیں۔ وہ سیاستدانوں کو گاہے گاہے احساس دلاتے ہیں کہ معاشی، سیاسی اور سماجی حرکیات (Dynamics) کو کس طرح اپنے خیالات اور بیانیے میں سمو دیں۔ وہ سیاست دانوں کے بیانیے کو نظریات مقاصد اور روایات سے ہم آہنگ کرتے ہیں۔ امریکی ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کی چاروں صدارتی مدتوں کے دوران دانشوروں نے ہنگامہ خیز معاشی بحران سے نکالنے میں امریکی حکومت کی بہت مدد کی اور انتہائی دائیں اور بائیں بازو کی تنظیموں کی بڑھتی تحریک کو بے اثر کرنے کے لیے امریکی صدر کو ایک بیانیہ مرتب کرکے دیا۔ اگرچہ امریکی ریپبلکن پارٹی میں دانشورانہ سیاست کی مخالف موجود تھی لیکن اس نے ڈیموکریٹک پارٹی کے سرگرم دانشوروں کے مقابلہ کے لیے اپنی جماعت میںکئی دانشوروں کو شامل کیا۔ یورپ میں برطانیہ کی لیبر پارٹی اور کنزرویٹو پارٹی نے بھی دانشوروں کو اپنے ساتھ رکھا۔ جرمنی اور اٹلی کی کچھ مطلق العنان حکومتوں نے بھی دانشوروں کی خدمات حاصل کیں۔ سوویت کمیونزم کی تشکیل میں بھی دانشوروں نے اہم کردار ادا کیا۔ ایڈولف ہٹلر کو جرمنی میں اْس دور کے چند بہترین ذہنوں کی خدمات حاصل تھیں، فلسفی کارل شمٹ اور مارٹن ہائڈپیگر، منطق دان روڈولف کارنپ، اور بہت سے دوسرے دانشوروں نے ’نازی ازم‘ کو ایک ہمہ گیر نظریے میں ڈھالنے میں مدد دی۔
پاکستان میں آمرانہ اور جمہوری حکومتوں نے سیاسی ونظریاتی بیانیہ اور معاشی ایجنڈے کی تشکل کے لیے دانشوروں پر بہت زیادہ انحصار کیا۔ جنرل ایوب خان کی آمریت (69-1958) میں ایسے دانشور شامل تھے جو اسلام کے مختلف پہلوؤں کو ’’جدیدیت پسند تشریحات‘‘ فراہم کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔ بانی جماعت اسلامی پاکستان سیّد ابولا علیٰ مودودی کے اسلامی نظریہ حیات، اسلامی ریاست اور حکومتِ الٰہیہ کے نظریہ کے خلاف عقلیت پسند دانشوروں فضل الرحمان ملک اور غلام احمد پرویز سمیت کئی فرقہ پرست گروہوں کو ایوب حکومت نے خوب استعمال کیا۔ ایوب حکومت کو دوام بخشنے کے لیے ترقی پسند ناول نگار ممتاز مفتی، جسٹس جاوید اقبال، الطاف گوہر اور قدرت اللہ شہاب نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی اپنے قیام کے وقت سے سیاسی اور معاشی نظریات کے حامل دانشوروں سے بھری ہوئی تھی۔ یہ لوگ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت (77-1972) کے دوران سرگرم رہے۔ ایک مارکسی تھویریسٹ جے اے رحیم نے پاکستان پیپلز پارٹی کا فاؤنڈیشن پیپرز اور اس کا پہلا انتخابی منشور لکھا۔ ڈاکٹر مبشر حسن پی پی پی کے معاشی منصوبہ ساز تھے۔ انہوں نے بھٹو دور میں وزیر خزانہ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ دیگر دانشوروں میں حنیف رامے اور صفدر مری نے اسلام پسند نظریات کا مقابلہ کرنے کے لیے مقالے لکھے۔ حنیف رامے نے پارٹی کا بنیادی نظریہ ’اسلامی سوشلزم‘ وضع کیا۔ قانون دان اور آئینی ماہر عبدالحفیظ پیرزادہ 1973 کے آئین کے اہم مصنفین میں سے ایک تھے جبکہ مولانا کوثر نیازی کی شخصیت مذہبی پیشکش کے لیے کافی تھی۔ ’’طاقت کا سرچشم عوام ہیں‘‘، ’’سوشلزم ہماری معیشت ہے‘‘ اور ’’اسلام ہمارا دین ہے‘‘ کا نعرہ لگا کر بھٹو نے بیک وقت لبرل، اشتراکی اور روایتی مذہبی ووٹروں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔
جنرل ضیاء الحق کو ممتاز دانشور اور ماہر اقتصادیات محبوب الحق اور قانون دان شریف الدین پیرزادہ کی خدمات حاصل تھیں۔ اْنہوں نے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا میں ججوں کے لیے ایسا حلف تیار کیا جس میں آئین کے تحفظ کے عزم کو نظر انداز کا گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور ِاقتدار کو دوام بخشنے کے لیے اْس زمانے کے دانشور، مذہبی پیشوا اور مشائخ بھی پیش پیش تھے۔ اْن کے دورِ اقتدار میں ’’سروسز بْک کلب‘‘ سرکاری افسران کو دوسری کتب کے ساتھ ساتھ معارف القرآن، تفہیم القرآن اور دوسرا اسلامی لٹریچر معمولی سبسکرپشن پر فراہم کرتا رہا۔
جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور اقتدار (2008-1999) میں دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں متبادل مذہبی بیانیہ متعارف کروانے کے لیے بالواسطہ جاویداحمد غامدی اور ڈاکٹر رفعت حسن جیسے کئی دانشواروں کی خدمات حاصل کیں دوران ِ اقتدار جنرل پرویز مشرف کو لبرل اور لادین دانشوروں نے بھی اپنی حمایت سے خوب نوازا۔
21 ویں صدی میں اکثر سیاسی جماعتوں اور جمہوری حکومتوں میں دانشوروں کی موجودگی کے خلاف شدید ردعمل دیکھا گیا۔ سیاسی گروہوں میں دانشور مخالف سوچ پنپ گئی۔ چنانچہ بہت سے ممالک میں مقبول سیاست (Popular Politics)کو عروج ملا۔ ’’پاپولرزم‘‘ فطری طور پر دانشور مخالف ہے۔ اْس کو کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی جب مقبولیت فرقہ (Cult) میں تبدیل ہو جائے۔ اگرچہ یورپ اور امریکا میں مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتیں آج بھی دانشوروں کی خدمات سے استفادہ کرتی ہیں لیکن پاکستان کی سیاست میں دانشوروں کا کردار کم ہو گیا۔ دانش مندانہ سیاست کی جگہ پاپولر سیاست نے لے لی۔ اس دوران انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی اور سوشل میڈیا (فیس بْک، ٹویٹر، واٹس ایپ اور انساںگرام) نے لوگوں کے دل و دماغ کو مسخر کیا۔ وہ ٹیکنالوجی کے سحر میں مبتلا ہو گئے۔ اس عوامی رجحان کو پاپولر سیاست کی ترویج کے لیے احمد شجاع پاشا، ظہیر الاسلام اور فیض حمید نے بھرپور استعمال کیا۔ اْنہوں نے سیاسی اور جمہوری رویات کو مَسل کر ’سب چور ہیں‘ کا ایک پاپولر بیانیہ بنایا، اْس میں روح پھونکی اور ایک منظم ’’سوشل میڈیا فورس‘‘ بنائی۔ اْس کی ایسی تربیت اور استعمال کیا کہ جس کا توڑکرنے کے لیے بڑی سیاسی جماعتیں استعداد نہیں رکھتی تھیں۔ پاکستان تحریک انصاف میں کبھی بھی دانشوروں کی جگہ نہ تھی۔ اس میں زیادہ تر کرکٹ کے دیوانے اور دیوانیاں تھیں جو ایک سلیبرٹی کی مسحور کن شخصیت کی اسیر تھیں۔ بعد میں مقتدر قوتوں نے پوری ریاستی مشینری اور وسائل کا استعمال کرکے سیاسی مفاد پرستوں (یعنی الیکٹ ایبلز) کو پکڑ پکڑ کر اس میں داخل کیا۔ نوجوان اینکرز، یوٹیوبرز، بلاگرز اور کی بورڈ جنگجوؤں کو دلیل کے بجائے جذبات بھڑکانے پر لگا دیا۔ ’’نیا پاکستان‘‘، ’’دو نہیں ایک پاکستان‘‘، ’’تبدیلی‘‘ اور ’’مدینہ کی اسلامی ریاست‘‘ بنانے کے وعدے پر وفاق کے ساتھ دو صوبوں کی حکومت دے دی۔ لیکن جب سنگین معاشی اور داخلی بحرانوں میں حالات نے پلٹا کھایا اور سلیکٹرز اور کپتان کی راہیں جْدا ہو گئیں تو مقبولیت اپنے جامے سے باہر آگئی۔ سارے بیانیے اْلٹ گئے۔ ’’ایک صفحہ‘‘ پھٹ کیا۔ 9 مئی 2023ء کا سانحہ ظہور پزیر ہوا جس نے پورے ملک کا سیاسی منظر نامہ تبدیل کردیا اور یوں پاپولر سیاست اپنی موت آپ مر گئی۔ بقول شاعر: اپنے ہاتھوں سے جلا کر اپنا ہی گھر دیکھنا، زندگی بھر کی کمائی کو لْٹا کر دیکھنا۔
کپتان کا کہنا ہے اْسے کچھ پتا نہیں کہ باہر کیا ہوا۔ امریکی دانشوار ڈیوڈ گراہم کہتے ہیں کہ ’’یہ اسمارٹ سیاستدانوں کا دور ہے جو احمق ہونے کا بہانہ کرتے ہیں‘‘۔ اسمارٹ سیاستدان کی ادائیں ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہیں مگر حکمت اور دانش کی کمی اْسے تباہ کر دیتی ہیں۔ دانش مند لوگ پاپولر سیاست اور پاپولر لیڈر کی احمقانہ حرکتوں سے قوم کو بچا تے ہیں سو ہمیں پاپولر سیاست کے اِس انجام سے سبق سیکھنا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں، عدلیہ، مقننہ، حکومت اور مقتدرہ کو پاکستان کو اسلامی جمہوری اور خوشحال ریاست کے لیے علم، حکمت اور دانش کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے اور اس کا نقطہ آغاز منصفانہ، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا جلد از جلد انعقاد ہے۔