اے ابن آدم اس وقت ملک ایک نہایت نازک دور سے گزر رہا ہے۔ سیاست چمکانے کے لیے کبھی فوج پر تنقید کی جاتی ہے اور آج کل عدلیہ حکومت کے نشانے پر آئی ہوئی ہے۔ یہ عدلیہ اُس وقت بہت اچھی تھی جب اس حکومت کے لیے اُس نے رات کو عدالت کھول کر فیصلہ دیا تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ماضی کے کچھ جرنیلوں کی وجہ سے سیاست دانوں اور میڈیا کو تنقید کرنا پڑی۔ سوشل میڈیا پر وہ کارنامے آتے رہے ماضی کے کچھ چیف جسٹس حضرات نے بھی سیاست میں کود کر خود کو گندا کیا۔ جو کچھ 9 مئی سے ہورہا ہے ہر محب وطن پاکستانی کا دل رو رہا ہے۔ یہ کون سی جمہوریت ہے جس میں کوئی سیاسی پارٹی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ خواجہ آصف، مولانا فضل الرحمن، مریم اورنگزیب کی گفتگو سنی سب کی تقریر میں کچھ چیزیں یکساں تھیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے سابق وزیراعظم عمران خان کو دیکھ کر ویلکم کہا کہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔ بس یہ الفاظ سب حکومتی لیڈروں نے پکڑ لیے۔ آصف صاحب، مولانا صاحب، مریم صاحبہ نے کہا کہ یہ رعایت اور ویلکم 3 مرتبہ وزیراعظم رہنے والے میاں نواز شریف کو تو عدلیہ نے نہیں دیا جبکہ آج میاں صاحب مزے سے ملک کو لوٹ کر بیماری کا بہانہ بنا کر لندن میں عیاشی سے زندگی گزار رہے ہیں۔ اتنی بڑی رعایت وہ عدلیہ سے لے کر ہی تو لندن گئے تھے اور حلف نامہ بھی لکھ کر دیا تھا کہ علاج مکمل ہوتے ہی پاکستان واپس آجائوں گا۔ کیا اتنے سال میں اُن کا علاج مکمل نہیں ہوا۔ جب عدلیہ آپ کو رعایت دے تو وہ اچھی اگراور اگر فیصلہ آپ کے خلاف ہو تو عدلیہ کو کنٹرول کرنے کے لیے اسمبلی سے بل پاس کرواتے ہیں۔ عدالت میں موجود Pending Cases پر کمیٹی بنانے کا اعلان کرتے ہیں، طرح طرح کے حربے استعمال کرنے کے بجائے ملک کی معاشی صورت حال کو بہتر بنانے کی کوشش کیوں نہیں کی جاتی۔ ملک کی تاریخ کی سب سے ریکارڈ مہنگائی بھی آپ کی مرہون منت ہے اُس کو کم کریں۔ ملک کی تعمیر و استحکام کے لیے بڑے بڑے فیصلے کریں، غریب کو 50 روپے کلو آٹا فراہم کریں، پٹرول پر 100 روپے کی کمی کریں۔ بجلی کے بلوں پر عوام کو ریلیف دیں، جب عوام کو آپ کچھ دیں گے تو بدلے میں عوام آپ کو ووٹ دیں گے، اپنی تمام توانائی عوام کی فلاح وبہبود پر لگائیں تا کہ میاں نواز شریف باعزت وطن واپس آئیں۔ آپ نے تو تحریک انصاف پر پابندی کا پروگرام بنالیا تھا مگر پیپلز پارٹی، متحدہ اور دیگر جماعتوں نے مخالفت کی، اگر آپ پابندی لگاتے تو عمران خان اور مقبول ہوجاتے۔ خیر آنے والے دن ملک کی سیاست کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوں گے۔
جماعت اسلامی نے کراچی میں بلدیاتی الیکشن جیت لیا مگر افسوس پیپلز پارٹی کسی صورت حافظ نعیم الرحمن کو میئر کراچی کے روپ میں برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت فرماتی ہے ہم حافظ نعیم الرحمن کو الطاف حسین نہیں بننے دیں گے، میرے پرانے دوست مزدور رہنما اور سچے جیالے بھائی عثمان غنی مرحوم کے صاحبزادے سعید غنی کا بیان پڑھ کر بے حد تکلیف ہوئی کہ اقتدار کی لالچ میں یہ سیاسی لوگ کتنی پستی میں چلے جاتے ہیں۔ سعید غنی بھائی اس طرح کے بیان آپ جیسے جیالے کو زیب نہیں دیتے، آپ حافظ نعیم الرحمن اور جماعت اسلامی کو Under Estimate کررہے ہیں، اُس وقت سے ڈریں جب جماعت اسلامی عوامی حق کے لیے روڈوں پر نکل آئے گی پھر آپ اُس پر بھی پابندی لگانے کا سوچنے لگیں گے۔ سیاست برداشت کا نام ہے جس کی اکثریت ہو اُس کو تسلیم کرلیا جائے، ماضی میں آپ کے قائد ذوالفقار علی بھٹو بھی یہ غلطی کرکے ملک کو آدھا کرواکر دنیا سے چلے گئے اگر وہ شیخ مجیب الرحمن کی اکثریت کو تسلیم کرلیتے تو آج پاکستان ایک عظیم اسلامی ملک بن چکا ہوتا۔ آپ نے فرمایا نعیم الرحمن ماتم کرو ہم خوشی منائیں گے ہمارا میئر بن رہا ہے۔ بندیال کورٹ نے ایک لاڈلے کے عشق میں پوری ریاست کو دائو پر لگادیا، بھائی اُس کو عدالت عظمیٰ کہتے ہیں بندیال کی کوئی عدالت نہیں ہے۔
آج جو پیپلز پارٹی سندھ کی مالک بنی ہوئی ہے وہ محترمہ کے خون کی مرہون منت ہے، نہیں تو اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے آپ کی پارٹی اور الطاف حسین پر کراس لگادیا تھا مگر آپ کو شاید آپ کی پرانی قیادت نے یہ بات نہیں بتائی جب آپ کی پارٹی نے دیکھا کہ 200 سیٹیں لے کر حافظ نعیم الرحمن میئر بن جائیں گے تو راتوں رات آپ نے بلدیاتی ایکٹ میں ترمیم کرلی، آپ نے کہا کہ حافظ نعیم الرحمن دوسرا الطاف حسین بننے کی کوشش کررہا ہے۔ الطاف حسین کو کراچی والوں نے لیڈر بنایا تھا آپ بھول جاتے ہیں کہ شہید محترمہ 90 تشریف لے کر گئی تھیں اور الطاف حسین کو بھائی بنایا تھا۔ میاں صاحب بھی 90 تشریف لے کر آئے اور الطاف بھائی سے اظہار محبت کیا، پھر آپ کے وزیراعلیٰ جام صاحب نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر اُن کو جلاوطنی پر مجبوری کردیا، آپ نے اور میاں صاحب نے مل کر کراچی کی ایک طاقتور آواز کو نہ صرف بند
کروایا بلکہ اُن کی پارٹی کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں آپ بھی شریک جرم ہیں۔
برسوں سے آپ کے پاس سندھ اور کراچی کا اقتدار ہے آپ نے صوبے اور کراچی کے لیے اگر کچھ کیا ہے تو بتائیں کراچی ایک احساس محرومی کا شکار تھا کراچی کے نام نہاد لیڈر آپ کے پے رول پر کام کررہے ہیں ان حالات میں ایک مرد مومن ایک مجاہد جو کراچی کا بیٹا ہے جس کا نام حافظ نعیم الرحمن ہے کراچی والوں کے حقوق کے لیے آواز حق کو بلند کیا، آپ نے کہا کہ نعیم الرحمن یہ شہر تمہارے باپ کا نہیں ہے، مگر یہ شہر اردو بولنے والوں کا شہر ہے جن کو تم لوگ مہاجر کہتے ہو، جو لاکھوں جانیں قربان کرکے اپنے بنگلے اور حویلیاں چھوڑ کر سرکاری کوارٹرز میں آکر رہے، پاکستان بننے کے بعد سندھ کی ساری بیوروکریسی مہاجر پڑھے لکھے ایمان دار افسران کی تھی جن کو ایوب خان نے اور پھر بھٹو نے اقتدار میں آکر فارغ کردیا۔ آج اُن کی قربانیوں کا صلح یہ دیا جارہا ہے کہ گریڈ 1 کی نوکری ان کے لیے نہیں اور آپ کے جیالوں کو گریڈ 16 اور 17 دیا جارہا ہے۔ جو اس عہدے کے اہل تک نہیں۔ کراچی کے ہر عوامی مسئلے پر حافظ نعیم الرحمن روڈ پر نکل آتا ہے، عدالتوں میں جاتا ہے، کوئی ایک تو ہے جو بغیر کسی لالچ کے عوام کے کام کرتا بھی ہے اور کرواتا بھی ہے۔ آپ نے تو کہہ دیا کہ حافظ صاحب کے ہاتھ میں میئر بننے کی لکیر نہیں جو نصیب اللہ نے لکھا ہے اس پر اکتفا کریں کیونکہ آپ نے بلدیاتی ایکٹ میں ترمیم اسی خوف سے کی ہے کہ کہیں حافظ صاحب میئر کراچی نہ بن جائیں کیونکہ آپ بھی میئر کراچی کے لیے ایک طاقتور امیدوار ہیں۔ ابن آدم کہتا ہے سیاست کریں برداشت بھی کریں، وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا یہ وقت بہت ظالم ہے ماضی کے لیڈروں کے حال کو بھی سامنے رکھیں اللہ پاکستان کی حفاظت کرے سلامت رہے میرا وطن۔