پاکستان کی حالیہ سیاسی دھما چوکڑی نے ہر خاص و عام کو نہ صرف متاثر بلکہ فکر مند بھی کیا ہے اخلاق اور تہذیب سے عاری سیاسی نابالغوں نے پورے معاشرے کو ایک ایسی نہج پر پہنچایا کہ گھر کے افراد خانہ ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں قیامت صغریٰ ہے کہ نہ باپ بیٹے کا نہ بیٹا کا باپ کا رہ گیا ماں بیٹی دو مختلف سمتوں کے راہی ہوچکے ہیں سیاسی اختلافات نے برسوں کی یاری دوستی میں بھی دراڑیں ڈال دیں پارٹیوں کے اختلافات کے باعث برسوں سے رشتے ناتوں میں جڑے خاندانوں میں پُر نہ ہونے والی خلیج پڑ گئی۔ ذاتی مفادات کے حصول میں مملکت پاکستان کی راج گدی اور کلیدی عہدوں پر براجمان ہونے کی جنگ میں جہاں برسوں کے یارانے گئے وہاں بڑے بڑے لوگ بھی پہچانے گئے۔ گجرات کے چودھری برادران کی تازہ مثال سب کے سامنے ہے یہ خاندان نہ صرف سیاسی سطح پر منقسم ہو چکا ہے بلکہ خاندانی تقسیم نے ان کی سماجی حیثیت کو بھی دشواریوں سے دوچار کردیا ہے۔ مملکت پاکستان میں شاید یہ گھر گھر کی کہانی ہے۔ ذرا سوچیے! جس سیاست اور جن سیاستدانوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تقسیم کرو اور راج کرو کی پالیسی اپنا کر مملکت کے باسیوں کو تتر بتر کرکے ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا ان کے پیچھے عوام نے برسوں پرانے راہ و رسم اور خاندانی روایات کو کیونکر داؤ پر لگا دیا ہے۔
باشندگان مملکت پاکستان کی تکالیف میں روز بروز اضافہ کرنے والے سیاسی تماشا گروں کی آئے روز کی کارستانیوں سے کون واقف نہیں ہے۔ گزشتہ عشرے میں پاکستانی سیاستدانوں نے مملکت پاکستان کو جس افتاد میں مبتلا کیا ہے اس میں اوپر سے لیکر نیچے تک سیاسی حریف ایک دوسرے کے خلاف ہر محاذ پر صف آرا رہے اخلاق اور شائستگی کا کوئی لحاظ رکھے بغیر من مرضی مواد سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرتے رہے حواس باختگی کا یہ عالم ہے کہ خواتین کی عزت ریزی سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ الامان الحفیظ، ایسی غیر شائستہ اور اخلاق سے گری ایڈیٹ شدہ ویڈیوز اور تصاویر جنہیں دیکھ کر روح تڑپتی ہے اور سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اخلاقیات کا جنازہ کب کا اٹھ چکا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری اور ملک کے طول و عرض میں پھیلائی گئی افراتفری کے نتیجے میں تین روزہ انٹرنیٹ بندش کے بعد جب علیٰ الصباح فون اٹھایا تو کوئی پانچ ہزار کے قریب سوشل میڈیا پر پیغامات موصول ہوچکے تھے یکے بعد دیگرے پیغامات کی ژالہ باری نے عزیز و اقارب کے پیغامات دیکھنے کی مہلت تک میسر نہ ہونے دی۔ سوشل میڈیا کے پیغامات کو کھنگالنے کے بعد تین ویڈیوز کو حد سے زیادہ شیئر ہوتے دیکھا جو سینہ چاک کرکے جگر کے آرپار ہوگئی۔ ایک وہ ویڈیو جس میں ایک معصوم بچہ خان صاحب کے والدین کو نبی آخر الزماںؐ کے والدین سے تشبیہ دے کر سیدنا عبداللہ اور سیدہ بی بی آمنہ کے بعد خوش قسمت والدین قرار دے رہا ہے افسوس صد افسوس وہاں موجود اکابرین پر جو بچے کو روکنے کے بجائے خوشی کا اظہار کرتے رہے۔ اسلامی شعائر کا لحاظ رکھے بغیر اس کے مدمقابل ایک اور بچے کو سیاست کی کچرہ کنڈی میں اتارا گیا جس میں خان صاحب کو زچ کرنے اور نیچا دکھانے میں، کہاں یہ ذلیل کائنات، شوکت خانم کی گندی اولاد، امریکا اور یورپ کا بھنگی، صدی کا جھوٹا اور نوسرباز جیسے غلیظ القابات دے کر حدود سے تجاوز اور غلو سے کام لیا گیا ہے۔ دوسروں کی خوشنودی اور انا کو تسکین پہنچانے کے خاطر ان معصوم کلیوں کے قلب و ذہن کو کس قدر پراگندہ کردیا گیا۔ کبھی سوچا بھی ہے! کہ ہم مستقبل میں کاٹنے کے لیے کیا بو رہے ہیں؟ اس معاشرے کے مستقبل کو ریزہ ریزہ کرنے کے لیے غلاظت کے کس ڈھیر کے مکین ہوچکے ہیں؟ منصوبہ بندی کے ساتھ ہر خاص و عام کو ایک ایسے موڑ پر پہنچایا گیا جہاں نہ آنے والا کل محفوظ ہے اور نہ ہی ایمان کی سلامتی کی ضمانت۔
متذکرہ بالا ویڈیوز سے قطعی جدا گانہ ایک اور ویڈیو جس میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اپنے صاحبزادے بلاول کو دیدہ زیب نصیحت کرتی نظر آتی ہیں جس میں بلاول با ادب اپنی والدہ محترمہ کے ساتھ کھڑا اور ماں بے نظیر بھٹو شہید انہیں کہہ رہی ہیں میرے بیٹے میری بات ہمیشہ یاد رکھنا جو لوگ شو آف کرتے ہیں ان میں اعتماد نہیں ہوتا ہے اور اگر انسان کا کردار اچھا ہو تو اسے دکھاوے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بلاول فرمانبرداری میں سر ہلاتے ماں کی نصیحتیں پلو میں باندھ لیتا ہے۔ وقت نے ثابت کردیا کہ بے نظیر بھٹو شہید کا بلاول اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیر خارجہ بن جاتا ہے جن کی شخصیت میں ماں کی سادگی، اخلاق کے اعلیٰ اقدار اور باکردار وصف دکھائی دیتے ہیں۔ میرے عزیز ہم وطنو! کبھی اس ویڈیو پر غور کیا؟ جنہیں اعلیٰ مقاصد پیش نظر ہوتے ہیں وہ اپنے بچوں کی تربیت کیسے کرتے ہیں؟ ان کی شخصیت میں نکھار کیسے لاتے ہیں؟ یاد رکھیں ایسے ہی اشخاص کل قوموں کی باگ ڈور سنبھالنے کے حقدار قرار پاتے ہیں اور یہی لوگ دنیا میں توقیر پاتے ہیں۔
اس لیے صلاح ہے کہ جھوٹوں کے اس راج میں اپنے بچوں کو نفرت کی آگ کے سپرد نہ کریں خدارا سیاست کے اس گندے کھیل کو اپنے معصوم بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں انہیں زندگی کے نشیب و فراز کے گر سکھائیں، آداب زندگی کی دولت سے انہیں آراستہ اور پیراستہ کریں ان نونہالوں کی اخلاقی اور شائستگی کی تربیت پر دھیان دیں تاکہ انہیں کل حق و باطل کے تمیز میں دشواری نہ ہو۔ اگر نہیں تو جان لیں کل آپ کو ضعیف عمری میں اور ان بچوں کو اپنی جوانی میں پچھتاوا ہی ہوگا آپ خود کو کوستے رہیں گے اور یہ بچے بھی گرچہ ظاہراً نہیں لیکن درون دل برا بھلا کی تسبیح ہی پھرتے ملیں گے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آج کے یہ راج دلارے کل جنگلوں اور بیابانوں میں، ندی نالوں کے کنارے یا بر لبِ سڑک گرداس مان کی غزل ’’بچپن چلا گیا جوانی چلی گئی، زندگی کی قیمتی نشانی چلی گئی‘‘ گاتے بیتے بچپن کو ڈھونڈتے پھریں۔ اپنے بچوں سے بچپنا نہ چھینیں ان کے گلی ڈنڈا، لنگڑی، آنکھ مچولی، پٹھو گرم، گڑیا گڈی کی شادی اور چھپن چھپائی کھیلنے کے ایام پر ڈاکا زنی سے گریز کریں اور اپنے شہزادوں کو ہر اس عمل کی پہنچ سے دور رکھیں جن سے ان کی شخصیت پر برے اثرات مرتب ہوں۔ حرف آخر عرض ہے:
جھوٹوں کا ہے راج کون پوچھے سچوں کو
نفرت کی آگ میں جھونک نہ دو بچوں کو