آل انڈیا نیشنل کانگریس نے 224 ارکان پر مشتمل کرناٹک اسمبلی کی 136 نشستوں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ کر حکمران بھارتیا جنتا پارٹی (بی جے پی) جو محض 65 نشستیں جیت سکی ہے کو پچھاڑ کر رکھ دیا جبکہ جنتا دل سیکولر (جے ڈی ایس) کے حصے میں صرف 19 نشستیں آئی ہیں۔ بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک کی 224 نشستوں کی ریاستی اسمبلی کے لیے انتخابات 9مئی کو منعقد ہوئے جب کہ نتائج کا اعلان گزشتہ روز کیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق ریاست میں کل ووٹر 52,173,579 تھے جن میں 2کروڑ 62لاکھ مرد، 2کروڑ 59 لاکھ خواتین اور 4,699 ٹرانس جینڈر ووٹر تھے۔ الیکشن کمیشن نے انتخابات کے لیے 58,282 پولنگ اسٹیشن قائم کیے تھے جن میں سے 24,063 شہری علاقوں اور 34,219 دیہی علاقوں میں تھے۔ الیکشن کمیشن نے ووٹروں کی زیادہ سے زیادہ شرکت کو یقینی بنانے کے لیے 1,320 پولنگ اسٹیشنوں کا مکمل انتظام خواتین کے حوالے کیا تھا۔ واضح رہے کہ کرناٹک میں کامیابی کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں زبردست مہم چلائی گئی لیکن بی جے پی یہاں مسلسل دوسری مرتبہ اقتدار حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے جسے بی جے پی اور نریندر مودی کے زوال کا آغاز قرار دیا جارہا ہے۔ نریندر مودی نے اپنے امیدواران کی انتخابی مہم کو کمک پہنچانے کے لیے کرناٹک کا 24مرتبہ دورہ کیا جب کہ بی جے پی نے حسب روایت یہاں بھی ہندو انتہا پسندی کا کارڈ کھیلنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا حتیٰ کہ پوری انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کے ساتھ ساتھ جنگ آزادی کے ہیرو ٹیپو سلطان شہید کو بھی نہیں بخشا گیا بلکہ اس ضمن میں بی جے پی نے ایک ایسا من گھڑت بیانیہ بھی گڑھنے سے دریغ نہیں کیا جس میں ٹیپو سلطان کو بطور ولن پیش کرنے کے علاوہ ان کی شہادت کا محرک انگریزوں کے بجائے دو انتہا پسند ہندو بھائیوں کو قرار دیا جاتا رہا۔
یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ 2018ء میں کرناٹک اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے 104، کانگریس نے 80 اور جنتا دل ایس نے 37 نشستیں حاصل کی تھیں۔ یہاں شرو ع میں تو کانگریس اور جنتا دل مشترکہ طور پر حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی تھیں لیکن بعد ازاں بی جے پی اس اتحاد میں دراڑ پیدا کرکے خود برسراقتدار آگئی تھی اور یہاں ابھی تک اس کی حکومت تھی اسی لیے اس کی حالیہ شکست کو ایک بڑے اپ سیٹ سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ بھارت میں اگلے سال عام انتخابات کے تناظر میں کرناٹک کے حالیہ نتائج بی جے پی کے لیے خطرے کی گھنٹی قرار دیے جارہے ہیں۔ یہ بات دلچسپی کی حامل ہے کہ حالیہ انتخابات میں ووٹوں کی مجموعی شرح 73.19 فی صد رہی ہے جسے کرناٹک میں قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ میں اب تک کی سب سے زیادہ شرح بتائی جا رہی ہے۔
دوسری جانب کرناٹک کے انتخابی نتائج کے بعد راجستھان اور چھتیس گڑھ کے متوقع انتخابات میں بھی کانگریس کی کامیابی کی توقع ظاہر کی جارہی ہے۔ جب کہ کرناٹک کی شاندار فتح کے بعد بی جے پی کے بعد کانگریس ملک کی دوسری بڑی پارٹی کے طور پر ابھرکر سامنے آئی ہے جو گزشتہ سال کے شروع تک صرف دو ریاستوں راجستھان اور چھتیس گڑھ میں برسراقتدار ہونے کے ناتے عام آدمی پارٹی کے ہم پلہ تھی کیونکہ وہ بھی ان دنوں دو ریاستوں دہلی اور پنجاب میں برسراقتدار ہے لیکن گزشتہ سال ہمہ چل پردیش کی جیت اور اب کرناٹک کی فتح کے بعد کانگریس کو کافی عرصے بعد ملک کی چار ریاستوں میں کامیابی نصیب ہوئی ہے جسے مستقبل کے عام انتخابات کے تناظر میں ایک بڑی تبدیلی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ بھارتی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر کانگریس بی جے پی کے مقابلے میں اپوزیشن کا ایک موثر الائنس بنانے میں کامیاب ہوگئی تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ اگلے عام انتخابات میں بی جے پی کو ٹف ٹائم نہ دے سکے۔ اس سلسلے میں ان جماعتوں کا حوالہ بھی دیا جارہا ہے جو مختلف ریاستوں میں برسراقتدار ہیں۔
اس ضمن میں یہ بتانا خالی از دلچسپی نہیں ہوگا کہ بی جے پی اس وقت ملک کی تیس میں سے دس ریاستوں میں برسراقتدار ہے جب کہ اس کے مقابلے میں کانگریس کی چار اور عام آدمی پارٹی کی دو ریاستوں میں حکومت کے علاوہ بھارت کی چودہ ریاستیں ایسی ہیں جن میں مختلف علاقائی اور بعض دوسری جماعتیں برسراقتدار ہیں لہٰذا اگر کانگریس ان میں سے اکثر جماعتوں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے تو وہ بی جے پی کے مقابلے میں ایک زیادہ بڑا اور وسیع انتخابی اتحاد بنانے کی پوزیشن میں آ سکتی ہے۔ کانگریس کے ممکنہ وسیع البنیاد اپوزیشن اتحاد میں دیگر علاقائی پارٹیوں کے علاوہ مہاراشٹر میں برسراقتدار شیو سینا جیسی ہندو انتہا پسند جماعت کے راہنما سنجے راوت کو بھی گزشتہ دنوں یہ ماننا پڑا کہ کانگریس کے بغیر مستقبل میں کسی بڑ ے اپوزیشن اتحاد کا وجود میں آنا اور اس کی کامیابی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے حالانکہ شیو سینا کو اس کے کٹر اور سخت گیر ہندو انتہا پسندانہ نظریات کی وجہ سے بی جے پی کی ہم نوا اور ہم خیال سمجھا جاتا ہے لیکن اب جب اس کی جانب سے بھی کانگریس کی قیادت میں کسی ممکنہ اتحاد کی خواہش کا اظہار کیا جارہا ہے تو اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہوگا کہ اگر کانگریس آئندہ قومی انتخابات کے لیے اپنے پتے صحیح طور پر کھیلنے کی کوشش کرے تو وہ نہ صرف بی جے پی کو ناکوں چنے چبوا سکتی ہے بلکہ پچھلی ایک دہائی سے کھوئی اپنی سیاسی ساکھ کو بھی ایک بار پھر بحال کرسکتی ہے۔