کسی بھی ملک و معاشرے کی تعمیر و ترقی خوشحالی و استحکام اور چین وسکون کے لیے امن کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ بدقسمتی سے صوبہ سندھ میں ملک کے دیگر حصوں کے برعکس امن و امان اور غربت و شرح خواندگی کی صورتحال زیادہ تشویشناک ہے۔ اس وقت کراچی تا کشمور پورا سندھ بدامنی کی لپیٹ میں ہے۔ اسٹریٹ کرائم، ڈاکا زنی اور اغوا برائے تاوان کی بڑھتی ہوئی وارداتوں نے عوام کی زندگی اجیرن اور عدم تحفظ کا احساس پیدا کردیا ہے۔ صوبہ میں بڑے عرصہ کے بعد اغوا برائے تاوان ایک انڈسٹری کی شکل اختیا کرگیا ہے جس میں کچے و پکے کے ڈاکو برابر کے شریک اور سب کو اپنا حصہ بقدر جثہ ملتا ہے۔ پٹرول، گیس اور کوئلہ کی دولت سے مالامال ہونے کے باجود سندھ دیانتدار قیادت و گڈ گورننس کے فقدان کی وجہ سے غربت و افلاس کی عملی تصویر بنا ہوا ہے۔ اس وقت دارالحکومت کراچی کے علاوہ بالائی سندھ کے چار اضلاع کشمور گھوٹکی، شکارپور اور جیکب آباد سخت بدامنی کی لپیٹ میں ہیں۔ کشمور، گھوٹکی اور جیکب آباد اضلاع کی پنجاب و بلوچستان سے بھی سرحدیں ملتی ہیں۔ جیکب آباد کو سونے کی چڑیا کہا جاتا ہے جہاں سے ایرانی تیل افغانستان سے کابلی گاڑیاں کپڑے کمبل ودیگر سامان اسمگل جبکہ یہاں سے آٹا گندم دیگر اشیاء غیر قانونی طور بھیجنے کی اطلاعات ہیں۔ مغویوں کو لاکھوں کروڑوں روپے تاوان حاصل کرنے کے بعد بڑی ڈیل کے تحت آزاد کیا جاتا ہے۔ اندازہ لگائیں کہ جب عام آدمی اس ساری صورتحال سے واقف ہے تو پھر پولیس و دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کس طرح بے خبر ہوسکتے ہیں!
لوگ حیران و پریشان ہیں کہ جو اسلحہ پولیس کو بھی میسر نہیں ہوتا وہ جدید ترین میزائل و گولہ بارود ان ڈاکوؤں کے پاس کیسے پہنچ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کئی بار ان کے خلاف پولیس کے آپریشن سے ناکامی وسائل اور جوانوں کے نقصان کے سوا کچھ بھی نہیں ملا۔ چند دن پہلے جیکب آباد میں جوابی کارروائی کے طور پر ڈاکوؤں کی جانب سے 2 پولیس اہلکاروں کو اغواء کرنے کے بعد ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کا واقعہ بھی جگ ہنسائی کا سبب بنا۔ ایس ایس پی جیکب آباد سمیرنور چنا نے پہلے تردید اور بعد میں واقعے کی تصدیق کردی بالآخر پولیس اہلکاروں کو ڈاکوؤں کے چنگل سے چھڑا لیا گیا اب اندازہ کریں جب قوم کے محافظ خود بھی رہزنوں سے محفوظ نہ ہوں تو پھر ایک عام آدمی کو کیا تحفظ ملے گا۔
بتایا جاتا ہے کہ سندھ میں ڈاکوؤں کے سب سے بڑے مراکز و مغویوں کو ڈمپ کرنے (چھپانے) کی محفوظ جگہیں کچے کے علاقے ہیں۔ جہاں جہاں سے دریائے سندھ گزرتا ہے وہاں پر کچے کے علاقے اور زرخیز زمینوں کے ساتھ ڈاکوؤں کے اڈے بھی قائم ہیں۔ یہ ہزاروں نہیں لاکھوں ایکڑ سرکاری زمینوں پر سیاسی لوگ قابض ہیں۔ کس وڈیرے کے قبضے میں کتنی زمین ہے یہ فہرست بھی اخبارات و سوشل میڈیا پر آچکی ہے۔ تادم تحریر میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس وقت بھی صرف کشمور ضلعے سے 30 افراد اغوا ہوچکے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے بدامنی، اغوا اور قبائلی تصادم پولیس سردار اور مقامی بااثر لوگوں کی معتبری کا بھی ذریعہ ہوتا ہے۔ اسی طرح قبائلی تصادم بھی سندھ کے لیے ایک ناسور بن چکے ہیں۔ معمولی معمولی بات پر قیمتی انسانی جانوں کا نقصان معمول بنادیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے معمول کی زندگی مفلوج، تعلیم و کاروبار تباہ ہوجاتا ہے نوجوان طبقہ خاص طور تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق بے راہ روی اختیار جبکہ پولیس کے مظالم و جھوٹے مقدمات بغاوت اور ڈاکو بننے پر مجبور کرتے ہیں۔ بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور آئی بی اے سکھر کا استاد پروفیسر ڈاکٹر اجمل ساوند بھی اسی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ڈاکو راج اور قبائلی تصادم کے خاتمے کے لیے سب سے پہلے جرائم پیشہ لوگوں کے سرپرستوں کی سرکوبی کے لیے ان کا نیٹ ورک توڑنا ہوگا اس کے بغیر جرائم کا خاتمہ نا ممکن ہے۔ پولیس، ڈاکو اور سرداروں کا اس حوالے سے اہم کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 25_20سال قبل جیکب آباد و شکارپور اضلاع میں کچھ ہائی پروفائل لوگ اغوا ہوئے شنید تھی کی یہ کچھ سرداروں کے زیر اثر کچے کے ڈاکوؤں کے قبضہ میں ہیں اس وقت کے ایس ایس پی ثناء اللہ عباسی نے اپنی فورس کے ساتھ سرداروں کے بنگلوں کے گرد گھیراؤ ڈال دیا کہ مغوی واپس کراؤ یا گرفتاری کے لیے تیار ہوجائو۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ مغوی واپس پہنچ گئے۔ دوسری بات پہلے تھانے لوگوں کو انصاف دلانے وداد رسی کے مراکز تھے مگر اب اغوا برائے تاوان کے مغوی تھانوں سے برآمد کیے جارہے ہیں اس حوالے سے کراچی میں نارتھ ناظم آباد اور شاہ لطیف ٹاؤن تھانے کے چشم کشا میڈیا رپورٹ واقعات کھلی مثال ہیں۔ صوبائی دارالحکومت کراچی میں صرف گزشتہ 4 ماہ کے دوران 186 شہریوں کو قتل، 9ہزار سے زائد لوگوں کو موبائل سے محروم 81 ہزار سے زاید موٹر سائکلیں چھینی گئیں۔ سی پی ایل سی کے مطابق چار ماہ کے دوران شہریوں کو 754 گاڑیوں سے محروم کردیا گیا، جبکہ اغوا برائے تاوان کی 2، بھتا خوری کی 5 وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔ اسی طرح مجموعی طور ہر ماہ 2366 موبائل فونز، 4738 موٹرسائیکلیں چوری اور ہرماہ 46 سے زاید افراد مختلف واقعات میں قتل ہوئے۔ یہ صرف ان واقعات کی تفصیل ہے جو رپورٹ کیے گئے۔ رپورٹ نہ ہونے والے وقعات اس کے علاوہ ہیں۔ رپورٹ و تفتیش کے تکلیف دہ طریقہ کار کے پیش نظر اس طرح کے بیش تر واقعات رپورٹ نہیں کیے جاتے۔
شہریوں کی جان و مال عزت و آبرو کی حفاظت ہر حکومت کا اولین فرض ہوتا ہے مگر بظاہر اس سلسلے میں سندھ حکومت کامیاب ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہے۔ لوگ اپنی مدد آپ کی تحت کروڑ روپے دیکر ڈاکوؤں کے چنگل سے آزاد ہوکر آرہے ہیں۔ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کے مطابق حکومت ہر سال امن و امان اور انصاف کے نام پر 300 ارب بجٹ میں مختص کرتی ہے مگر آج بھی عام آدمی امن و انصاف سے محروم ہے۔ سندھ میں حالیہ بدامنی کی لہر اور ڈاکووں کے خلاف آپریشن کے نام پر بجٹ کے علاوہ خصوصی طور کروڑوں روپے جاری کیے جاچکے مگر۔۔۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں جوں دوا کی۔
بارڈرفورس ودیگر اس طرح کی فورس بنائی گئی مگر نتیجہ بجٹ پر بوجھ کے سوا کچھ نہیں نکلا۔ اس لیے پولیس و قانون میں اصلاح خاص طور پولیس کی کالی بھیڑیوں کے خلاف کارروائی کے ساتھ جرائم کی سرپرستی کرنے والوں کا نیٹ ورک ختم اور ان کے گلے میں ہاتھ ڈالے بغیر امن وامان کی بحالی اور جرائم کا خاتمہ ناممکن نظر آتا ہے کیونکہ پولیس ڈاکو اور مقامی بااثر لوگ ایک دوسرے کے مفادات کے محافظ ہیں۔ ماچس کی ڈبیا صابن کی ٹکیا اور تمام یوٹیلٹی بلز سمیت تمام تر ٹیکس دینے کے باوجود عوام اپنا علاج و تحفظ اور بچوں کو تعلیم پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے دلانے ہی کو ترجیح دیتے ہیں پھر حکومت کس چڑیا کا نام ہے۔ عوام یہ سوال پوچھنے پر مجبور ہیں کہ سندھ میں آخر ڈاکو راج کب ختم ہوگا؟