محلات اور لش پش موٹر کاروں کا راز

954

میں جب پاکستان جیسے غریب اور مقروض ملک کی گلیوں اور سڑکوں کا حال دیکھتا ہوں تو دل و دماغ اس بات کو تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتے کہ یہ وہ ملک ہے جو اربوں کھربوں کا مقروض ہے۔ یہاں انسانی خون کے علاوہ ہر شے اتنی مہنگی ہے کہ تصور سے بھی بالا تر، اس کے باوجود کوئی گلی، کوئی گھر مجھے بغیر موٹر کار کے دکھائی نہیں دیتا اور ہر گھر میں جو موٹر کار کھڑی ہوئی ہے وہ پٹرول کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں کے باوجود، دن رات گلیوں، بازاروں اور سڑکوں پر دوڑتی پھرتی دکھائی دیتی ہے۔ اس وقت تو حیرت کی وجہ سے میری آنکھیں اور بھی دوربین کی طرح اپنے حلقوں سے باہر نکل پڑتی ہیں جب ایک نہایت کثیر تعداد، اسی مقروض و مفلس ملک میں ان کاروں کی دیکھتا ہوں جو دنیا کے امیر کبیر لوگوں کے تصرف میں بھی بمشکل ہی آتی ہوں گی۔ نوابین، جاگیردار، زمیندار، کارخانوں اور ملوں کے مالکان یقینا اس حیثیت میں ہوتے ہیں جو ایسی عیاشی کے متحمل ہو سکتے ہیں، لیکن ایک بہت بڑی تعدا ان لوگوں کی ہے جو صرف ملازمت کرتے ہیں اور وہ بھی مناسب سرکاری عہدوں پر۔ ایسے افراد کی تنخواہوں اور دیگر مراعات کا حساب لگایا جائے تو وہ اپنی تمام مدت ملازمت میں بہت ہوا تو کوئی ایک چھوٹا موٹا گھر بنا سکتے ہیں اور بہت ہی کفایت کر لی تو کوئی ہزار بارہ سو سی سی کی گاڑی خریدنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو اپنی پوری پوری جوانی مڈل ایسٹ، یورپ یا امریکا میں گزر لینے کے باوجود پاکستان میں آکر بمشکل اپنے لیے ایک مکان بنا پاتے ہیں یا چھوٹے موٹے کاروبار کا آغاز کر پاتے ہیں۔ یہی حال اچھی سے اچھی ملازمت کرنے والوں کا دیکھا گیا ہے۔ ایک بات اور بھی سامنے آئی ہے اور وہ ساری باتوں سے زیادہ ناقابل ِ فہم ہے کہ گزشتہ بیس بائیں برسوں کے دوران صحافت سے تعلق رکھنے والے افراد کی جیسی چاندی ہو کر رہ گئی ہے جس میں الیکٹرونک میڈیا سے تعلق رکھنے والے اینکرز اور صحافی سرِ فہرت ہیں۔ پرویز مشرف کے دور سے پہلے کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا اس شعبے سے تعلق رکھنے والے چند ہی برسوں میں فرش سے اٹھ کر عرش پر جا بیٹھیں گے۔ اس وقت جتنے بھی چوٹی کے اینکرز اور صحافی اور الیکٹرونک میڈیا سے تعلق رکھنے والے دیگر لوگ ہیں ان کی اب وہ حیثیتیں نہیں ہیں جو پرویز مشرف کے دور سے پہلے تھیں۔ ایک بہت بڑی تعداد ان افراد کی ہے جن کا تعلق نہ تو کبھی کسی بہت امیر خاندانوں سے رہا ہے اور نہ ان کی ملیں اور کار خانے اندرونِ ملک یا بیرونِ ملک چل رہے ہیں لیکن ان کے گھروں سے لیکر قیمتی موٹر کاروں تک سے ان کی سیکڑوں سالہ امارت ٹوٹ ٹوٹ کے برس رہی ہوتی ہے۔ بات کیونکہ غور اور تحقیق طلب ہے لیکن اس پر نہ تو کوئی ادارہ غور کرنے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی عام آدمی۔ ادارے تو اس لیے مجبور ہیں کہ وہ تمام کے تمام اسی حمام میں ننگے ہیں جس میں متذکرہ افراد۔ بولیں تو خود ان کا پیٹ کھلنے لگتا ہے اور رہے عام لوگ، ان کو اپنی روز کی روٹی کی فکر کچھ اور سوچنے ہی نہیں دیتی اس لیے زمین پر محلات ہیں کہ بڑے سے بڑے بنتے چلے جا رہے ہیں اور قیمتی قیمتی موٹر کاروں کا اس بری طرح اضافہ ہوتا جارہا ہے کہ کچھ عرصے بعد پیدل چلنے کی جگہ شاید ہی میسر آ سکے۔
میں اسی سوچ میں تھا کہ آخر ایسا کیوں اور کیسے ہے۔ کیا پاکستانی سائنسدانوں نے ایسے پیڑ، پودے اور درخت ایجاد کر لیے ہیں جن میں ڈالرز، پونڈز اور یورو اگنا شروع ہو گئے ہیں لیکن میں پاکستان کے طول و عرض میں ایسا کوئی باغ یا کھیت تلاش کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اچانک میری نظر ایک تحریر پر پڑی جس کو پڑھنے کے بعد مجھے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آ گئی کہ حلال اور حرام میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ ایک ایماندار آدمی پوری زندگی میں کیا کچھ کر سکتا ہے اور غلط راستوں سے کمانے والا پوری دنیا کو کس طرح حیران کر کے رکھ سکتا ہے۔ ذیل میں اس تحریر کو درج کرنے کے بعد میں ایک لفظ کا بھی اپنی جانب سے اضافہ کیے بغیر سب کچھ قارئین پر چھوڑ دوں گا کہ وہ جو چاہیں نتیجہ اخذ کریں۔
’’کسی بڑے بینک کا سی ای او ایک بوٹ پالیشیے سے اپنے جوتے پالش کرایا کرتا تھا۔ ایک دن اس موچی نے سی ای او سے کہا کہ صاحب اسٹاک مارکیٹ میں آج کل کیا چل رہا ہے تو سی ای او نے اس سے کہا کہ تمہارا اسٹاک مارکیٹ سے کیا لینا دینا۔ اس نے کہا کہ آپ کے بینک میں میرے اکاؤنٹ میں 200 کروڑ روپے پڑے ہیں اور میں انہیں تصرف میں لانا چاہتا ہوں۔ سی ای او طنزیہ ہنسی کے ساتھ اپنے جوتے پالش کرا کے اٹھ گیا۔ اگلے دن اسے خیال آیا تو اس نے اپنے اکاؤنٹنٹ کو طلب کر کے موچی کا نام بتانے کے بعد کہا کہ دیکھو اس نام سے ہمارے بینک میں کوئی اکاؤنٹ ہے۔ اس نے تھوڑی دیر میں تصدیق کردی کہ جی سر بالکل ہے اور 200 کروڑ روپوں سے زیادہ پڑے ہیں۔ یہ جان کر وہ محاورتاً نہیں حقیقتاً اچھل پڑا۔ چند دنوں بعد بورڈ میٹنگ تھی۔ اس نے موچی کو اس میں شرکت کی دعوت دی تاکہ وہ بورڈ کے سامنے اپنی کہانی سنا کر یہ بتائے کہ وہ ایک موچی ہونے کے باوجود کروڑوں روپوں کا مالک کیسے بنا۔ موچی نے دعوت قبول کی اور بورڈ کو بتایا کہ وہ نہایت مفلس اور غریب انسان تھا۔ بھوک سے پریشان وہ سڑکوں پر مارا مارا پھر رہا تھا۔ اچانک اس کی نظر سڑک پر پڑے چند سکوں پر پڑی۔ میں نے وہ سکے اٹھالیے اور فوری طور پر شکم سیری کے بجائے اس سے کچھ سیب خرید لیے اور انہیں فرخت کرنے لگا۔ چند کلو سیب سے جو نفع حاصل ہوا وہ شامل کرکے پھر فروخت کرنے لگا اس طرح میرے پاس کافی رقم جمع ہوتی چلی گئی۔ پھر میں نے پالش اور برش خرید لیے اور یوں میری آمدنی میں اضافہ ہوتا گیا۔ بیس پچیس برس کی انتھک محنت اور کفایت شعاری کی وجہ سے میں ایک کھوکھا خریدنے میں کامیاب ہو سکا۔ میرا بھائی کچھ بھی کام نہ کرتا تھا سوائے اس کے کہ دن بھر منشیات بیچا کرتا تھا اور یہ کام اتنی ہوشیاری سے کرتا تھا کہ زندگی بھر قانون اس پر ہاتھ نہ ڈال سکا۔ اچانک شدید بیمار ہوا۔ جب مرنے کے قریب پہنچا تو اس نے مجھے بلا کر ایک بہت بڑی بوری پکڑاتے ہوئے کہا کہ بھائی اس میں پورے دو سو کروڑ روپے ہیں‘‘۔