گوا کانفرنس اور بھارتی ہٹ دھرمی

736

بھارتی شہرگوا میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ اجلاس میں پاکستانی وزیر خارجہ بلاول زرداری کی شرکت چونکہ بھارتی نیتائوں کی توقعات کے برعکس تھی اس لیے بھارت نہ صرف اس اہم علاقائی کانفرنس میں پاکستانی وزیر خارجہ کی شرکت اور ان کے لب ولہجے سے پریشان نظر آئے بلکہ بھارتی وزیر خارجہ نے اس موقع پر تمام تر سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک غیرسیاسی اقتصادی فورم کے ماحول کو اپنی عادت اور ظرف کے مطابق گندا کرنے میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کو پاکستان پردہشت گردی کے فروغ کے سنگین اور بلاجواز الزام عائد کرتے ہوئے نہ تو پاکستان میں دہشت گردی کے نیٹ ورک چلانے والے بھارتی نیوی کے افسر کلبھوشن یادیو کی کارستانیاں یاد رہیں اور نہ ہی پاکستان پر الزامات عائد کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو دنیا کا سب سے بڑا عقوبت خانہ بنانے کے سیاہ بھارتی اقدامات کا کچھ خیال آیا۔ جے شنکر نے اپنی جھنجلاہٹ چھپانے کے لیے جہاں بلاول زرداری کے ساتھ ملاقات کرنا گوارہ نہیں کیا وہاں مشرقی آداب میزبانی سے یکسر انحراف کرتے ہوئے ان سے مصافحہ بھی کچھ ایسے انداز میں کیا جس سے ان کی رعونت کے ساتھ ساتھ ان کے دل میں چھپے چور کو بھی ان کی بدنی بولی کے ذریعے ہرکسی نے دیکھا اور محسوس کیا۔
ہمارے ہاں کے بعض تجزیہ کار بلاول زرداری کی اس اجلاس میں شرکت پر تنقید کر رہے ہیں حالانکہ بلاول کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے اختلاف کے باوجود ان کی بھارت یاترا اور ایس سی او اجلاس میں شرکت سے جہاں دنیا پر پاکستان کا موقف واضح ہوا ہے وہاں اس حکمت عملی سے بھارت کا مکروہ اور متعصبانہ چہرہ بھی دنیا پر آشکار ہوا ہے بالفاظ دیگر بلاول کی اس کانفرنس میں شریک سے دنیا پر یہ بات واضح کرنے میں مدد ملی ہے کہ پاکستان اپنے پڑوسی ملک کے ساتھ اس کی زیادتیوں اور کشمیر میں ڈھائے جانے والے مظالم کے باوجود نہ صرف بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے بلکہ وہ بھارت کے پاکستان کو دنیا سے الگ تھلگ کرنے کے مذموم عزائم کو بھانپتا بھی ہے اور وہ ان منفی عزائم کو ناکام بنانے کا گر بھی جانتا ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ اس بات کا امکان بہت کم تھا کہ پاکستان اور بھارت دوطرفہ مسائل بالخصوص کشمیر پر اپنے اپنے موقف سے دستبردار ہوں گے لیکن زیادہ پر امید مبصرین یہ امید کر رہے تھے کہ دونوں ریاستوں کے اعلیٰ سفارت کاروں کے درمیان بات چیت کم از کم برف کو پگھلانے کا باعث بنے گی اور اس سے مستقبل میں بات چیت کی راہ ہموار ہو گی حالانکہ ایساکچھ بھی نہیں ہوا کیونکہ بھارت میں برسراقتدار ہندو انتہا پسند ٹولے نے پاکستان کے خلاف جو موقف اپنا رکھا ہے یہی وہ چورن ہے جسے بیچ کر مودی سرکار بھارتی عوام کو دوسری بار بے وقوف بنانے میں کامیاب ہوئی ہے لہٰذا جن کا خیال ہے کہ مودی سرکار اپنے اس روایتی پاکستان دشمن پالیسی سے پیچھے ہٹنے پر تیار ہوجائے گی وہ یا تو خوش فہمی کے شکار ہیں اور یا پھر ان پر ابھی تک بی جے پی کے اکھنڈ بھارت کا بھیانک چہرہ آشکار نہیں ہوا ہے۔
بھارت اس حقیقت کو بخوبی سمجھتا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم باہمی تنازعات کو حل کرنے والی تنظیم نہیں ہے لیکن اس فورم پر ہندوستانی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کی جانب سے سرحد پار دہشت گردی پر قابو پانے کی ضرورت جیسے غیر سفارتی ریمارکس کو نہ تو دیگر رکن ممالک نے پسند کیا ہے اور نہ ہی ایس سی او کے بانی چین کو یہ طرز عمل پسند آیا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ چینی وزیر خارجہ نے اس فورم پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی بے پناہ قربانیوں اور کامیابیوں کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ اس حوالے سے پاکستان کی تعریف کرتے ہوئے پاکستان کو تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی۔ بلاول زرداری نے اس اہم فورم پر بھارتی سرزمین پربیٹھ کر روس اور چین سمیت اپنے دیگر ہم منصبوں سے دو طرفہ ملاقاتوں کے ذریعے بھی اگر ایک طرف بھارتی زخموں پر خوب نمک پاشی کی تو دوسری جانب وہ مسٹر جے شنکر سے ملاقات کی بھیک نہ مانگ کر بھی پاکستان کا سر بلند کرنے میں سرخرو ہوئے۔ پاکستانی وزیر خارجہ اس حقیقت کو دہرانے میں بھی درست ثابت ہوئے کہ دہشت گردی کو سفارتی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے بطور ہتھیار استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
ایس سی او فورم پر تقریر کے علاوہ بھارتی وزیر خارجہ کے پاکستان اور اس کے اعلیٰ سفارت کار کے حوالے سے میڈیا کو دیے گئے تبصروں کو بھی غیر جانبدار ذرائع نے پزیرائی نہیں بخشی، ان کے طرز عمل اور گفتگو سے یوں لگ رہا تھا جیسے مسٹر جے شنکر ہندوستانی حکومت کے بجائے انتہا پسند بی جے پی کے ترجمان کے طور پر بول رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کو اس موقع سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے تھا کیونکہ چار سال سے سرد مہری کے شکار دوطرفہ تعلقات کو بہتر کرنے کا یہ ایک اچھا اور فطری موقع تھا جسے بھارت نے اپنی روایتی ہٹ دھرمی سے ضائع کردیا۔ زمینی حقائق اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اگر بھارت بڑا ملک ہونے کے ناتے واقعتا گزشتہ سات دہائیوں کے تلخ تعلقات سے آگے بڑھنا چاہتا ہے تو اسے بغیر کسی پیشگی شرائط کے مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہ اجلاس بھی چونکہ اس سال جولائی میں بھارت میں ہونے والا ہے تو بھارت کے ساتھ حالیہ وزراء خارجہ اجلاس کے دوران روا رکھے جانے والے نازیبا رویے سے رجوع کا یہ ایک اچھا موقع ہوگا لہٰذا توقع ہے کہ اس تقریب میں بھارت دو طرفہ امن کو فروغ دینے کے لیے کچھ ٹھوس اقدامات اٹھانے پرکچھ نہ کچھ توجہ ضرور دے گا۔