چین کا مشورہ یا طمانچہ

905

چینی وزیر خارجہ نے پاکستانی سیاسی جماعتوں کو مشورہ دیا ہے کہ تمام سیاسی قوتیں مل بیٹھ کرملک میں استحکام لانے کی کوشش کریں۔ انہوں نے پاکستان پر عالمی اقتصادی دبائو کم کرنے کے لیے پاکستان کی مدد کا وعدہ بھی کیا- اور سی پیک کے تمام شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے اور کام کی رفتار تیز کرنے پر بھی اتفاق کیا، اس کے جواب میں پاکستانی وزیر خارجہ بلاول زرداری نے کہا کہ افغانستان سے دہشت گردی ہمارے لیے ریڈ لائن ہے ۔ البتہ انہوں نے روس کو بھی سی پیک کے فوائد پہنچانے پر زور دیا۔ کچھ عرصہ قبل جب پاکستانی حکمران جنرل باجوہ کی قیادت میں سی پیک کے سہارے امریکا سے اپنا قبلہ تبدیل کرنے کی جانب چلے تھے اس وقت یہ نشاندہی کردی گئی تھی کہ پاکستان کے لیے مستقبل کا امریکا عوامی جمہوریہ چین بننے جا رہا ہے – یعنی چین اس کی جگہ لے کر ہدایات، احکامات دے گا اور اب اس کی ابتدا ہوگئی ہے – چینی وزیر خارجہ نے ابھی تو سیاسی استحکام لانے کے لیے سیاسی پارٹیوں کو ملٍ بیٹھنے کا مشورہ دیا ہے ۔ یہ بظاہر بہت سادہ سی بات ہے ایک دوست ملک کو پاکستان کے حالات پر تشویش ہے اور وہ یہاں سیاسی استحکام چاہتا ہے ، لیکن یہی مشورہ بھارتی وزیر خارجہ نے دیا ہوتا تو پورا پاکستان سیخ پا ہو جاتااور بھارت کو یہی مشورہ دیا جاتا کہ اپنے حالات کو تو دیکھو۔یہ بات درست ہے کہ چین کے مشورے کو مخلصانہ ہی سمجھا جانا چاہیے لیکن اصل بات یہ ہے کہ کسی کے گھر کے معاملات میں بھی اگر کوئی پڑوسی اچھا پڑوسی بھی سمجھا جاتا ہو اگر یہ کہہ دے کہ اپنے گھر کے معاملات ٹھیک کر لیں تو مذکورہ گھر والے ناراض ہو جاتے ہیں کہ ہمارے گھر کے معاملات میں مداخلت نہ کریں ۔ آج کل آزاد خود مختار ملکوں کا دور ہے اور ہر ملک اپنی آزادی اور خود مختاری کے معاملے میں بہت حساس ہے۔ یہ پاکستان ہی کے نصیب میں کیوں ہے کہ کبھی امریکا ہمیں شہری آزادایوں، سیاسی نظام ، نظام عدل مالی معاملات حتیٰ کہ مذہبی معاملات میں بھی ہدایات و احکامات دیتا رہا اور دھمکیاں بھی دیتا رہا اور اب چین نے پہلا طمانچہ لگایا ہے ۔ یہ طمانچہ اس اعتبار سے ہے کہ پاکستانی سیاستدان اس قابل نہیں رہ گئے کہ اپنے معاملات خود طے کر سکیں ۔ یہ کبھی جی ایچ کیو کی طرف دیکھتے ہیں کبھی عدلیہ کی طرف اور کبھی خفیہ اداروںکی طرف اور کبھی امریکا کی طرف اور ان اداروں سے جب معاملات طے کرائے جاتے ہیں تو ان کی شرائط اور خیالات بھی ان فیصلوں میں نظر آتے ہیں ۔ لیکن چین کا معاملہ محض دوست ملک کا نہیں ہے ۔ چین نے پاکستان کے راستے سی پیک پر اربوں ڈالر سرمایہ کاری کی ہے ۔ وہ پاکستان کا دوست بھی ہے اس لیے بھی وہ پاکستان کی مدد بھی کرے گا ۔ اور اپنے اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کاتحفظ بھی چاہے گا ۔ اس لیے چین کے مشورے کو دونوں تناظر میں دیکھا جائے لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمارے متحارب سیاسی گروپوں نے ملک کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ دوسرے ملکوں کو سیاسی استحکام کے لیے بھی پاکستانی سیاسی جماعتوں کو مشورہ دینا پڑے ۔ یہ طمانچہ ہے تو ان سیاسی گروپوں کے منہ پر لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ انہوں نے یہ طمانچہ بالکل محسوس نہیںکیا بلکہ اس کی حدت پاکستانی قوم نے محسوس کی ہے ۔ یہ لوگ مذاکرات کا ڈھونگ بھی رچا رہے ہیں اور زہریلے بیانات بھی دے رہے ہیں ۔ مذاکرات میں ایک میز پر بیٹھنے کو بھی تیار نہیں ہیں ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کو راضی نہیں ہیں پورے تین چار سال سے پاکستانی سیاست کو تماشا بنا رکھا ہے ۔ سیاسی اختلاف کس ملک میں نہیں ہوتا لیکن اس کے لیے باہر سے مشورے دیے جائیں تو یہ ان سیاسی گروپوں کے لیے شرم کا باعث ہونا چاہیے ۔چین جس قدر سرمایہ کاری کر رہا ہے اس کی روشنی میں اس بات کا خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں مشورے ، ہدایات اور ہدایات، احکامات میں تبدیل ہونے لگیں گے اور پھر امریکی پابندیوںکی طرح چینی پابندیوں کا خدشہ بھی مسلط رہنے لگے گا۔ سی پیک کو گیم چینجر تو کہا جاتا ہے لیکن پاکستانی قوم سے اس کی شرائط کیوں مخفی رکھی جا رہی ہیں۔ قوم کو معلوم ہونا چاہیے کہ سی پیک سے پاکستان کا کیا فائدہ ہے اور چین کا کتنا ہے ۔ کچھ سڑکیں ، کچھ منصوبے اور کچھ بجلی ہی قوم کی ضرورت نہیں ۔ قومی خود مختاری اصل چیز ہے ۔ بالکل اسی طرح آئی ایم ایف سے معاہدے کے وقت ہر شرط مان لی جاتی ہے تاکہ ڈالر ملیں لیکن شرائط پوری نہ کرنے کی صورت میں جوجرمانہ ہونے والا ہوتا ہے قوم کو اس سے لا علم رکھا جاتا ہے ۔ اسی لیے پاکستان دوستی کرے، قومی خود مختاری کو گروی نہ رکھے ۔ کم از کم امریکا کے تجربے سے تو سیکھ لینا چاہیے ۔ کبھی سیاستداں روس اور چین کے کیمپ میںجانے کو بے چین رہتے تھے لیکن جب سے امریکا کے سامنے پورے قومی اداروں اور سیاسی قیادت نے اجتماعی سجدہ کیا تو روس اور چین کے ہمنوا امریکی کیمپ میں جا بیٹھے ۔