پاکستان: برین ڈرین کا ہوّا اور حقائق

1173

پاکستان سے لوگوں کی بڑی تعداد نقل مکانی کررہی ہے۔ اسے برین ڈرین کہا جارہا ہے اور ذرائع ابلاغ کو ایسی خبریں تھمادی جاتی ہیں جس کے بعد سیاسی مخالفین ان اعداد وشمار کو اپنے مخالفوں کو زچ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ چناں چہ گزشتہ دنوں اخبارات میں خبر شائع ہوئی کہ 8 لاکھ سے زائد پاکستانی 2022ء میں ملک سے باہر چلے گئے ہیں اس کے بعد سارا ملبہ موجودہ حکومت پر ڈال دیا گیا کہ اس کی وجہ سے لوگ ملک چھوڑ کر جارہے ہیں۔ بات ہے بھی تشویشناک کہ ملک سے 8 لاکھ افراد سالانہ نقل مکانی کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ چوری چھپے جانے والوں کے اعداد و شمار تو کشتی ڈوبنے ہی سے سامنے آتے ہیں۔ اس تشویشناک خبر کے بعد ہی سے ہم نے تلاش شروع کردی کہ ہو کیا رہا ہے۔ لیکن جو اعداد و شمار سامنے آئے جو معلومات ملیں اس نے ہمارے دونمبری سیاستدانوں کے چہروں کو مزید واضح کردیا کہ ان کے پاس معلومات بھی نہیں اور کوئی ذہنی و فکری صلاحیت بھی نہیں ہے۔ یہ ہی ہر وقت ایک دوسرے کو نشانہ بنانے کے لیے تاک میں رہتے ہیں۔ تلاش بھی کیا تھوڑی کوشش کے بعد جو نتائج سامنے آئے وہ کچھ یوں ہیں۔ 2023ء میں منفی صفر اشاریہ 874 لوگ فی ہزار ملک سے چلے گئے۔ یہ تعداد 2022ء کے مقابلے میں 5 اعشاریہ ایک فی صد کم ہے۔ جبکہ تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ اب لوگ زیادہ جارہے ہیں۔ 2022ء میں منفی صفر اعشاریہ 921 فی ہزار کے حساب لوگ بیرون ملک گئے تھے۔ اور یہ تعداد 2021ء کے مقابلے میں 4 اعشاریہ 86 فی صد کم تھی۔ اس وقت یہ شرح منفی صفر اعشاریہ 968 فی ہزار تھی۔ جو 2020ء سے 4 اعشاریہ 72 فی صد کم تھی۔ مزید حقائق جاننے کی کوشش کی گئی تو یہ سامنے آیا کہ لوگوںکے بیرون ملک جانے کی شرح 2012-13 سے بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی فی ہزار آبادی میں مسلسل کم ہورہی ہے۔ عمران خان کے دور میں بھی یہ شرح پہلے سے کم ہوتی رہی اور اب بھی یہ کم ہورہی ہے لیکن اس ذہنیت کا کیا علاج کیا جاسکتا ہے کہ ہر خرابی مخالف پر ڈالی جائے اور ہر اچھائی اپنے کھاتے میں۔
اس مسئلے پر مزید تلاش کی گئی تو مزید باتیں سامنے آئیں کہ پاکستان سے ملازمت کے لیے بیرون ملک جانے والے 8 لاکھ افراد میں سے 50 فی صد لوگ ملک کے 22 اضلاع سے گئے ہیں اور 25 فی صد کا تعلق چھے اضلاع سے ہے اور ملک کے 12 اضلاع ایسے ہیں جس سے 50 سے بھی کم لوگ بیرون ملک ملازمت کے لیے گئے ہیں۔ ملک کے چھے اضلاع ایسے بھی ہیں جہاں سے ایک ورکر بھی ملازمت کے لیے بیرون ملک نہیں گیا۔ پنجاب سے 4 لاکھ 60 ہزار افراد بیرون ملک گئے۔ جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے چھے ہزار افراد بیرون ملک گئے۔ یہ اعداد و شمار اور علاقے بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ برین ڈرین کا جو ہوا کھڑا کیا جارہا ہے اس میں سچ جھوٹ اور مبالغے کو لوگ خود تلاش کرلیں۔ اس عرصے میں پورے سندھ سے 60 ہزار کے لگ بھگ لوگ اور خیبر پختون خوا سے 2 لاکھ 20 ہزار لوگ بیرون ملک ملازمت کے لیے گئے جبکہ بلوچستان سے صرف ساڑھے سات ہزار لوگ گئے۔ اس طرح آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور فاٹا وغیرہ سے بھی لوگ بیرون ملک گئے۔ لیکن ذرا برین ڈرین اور ورکر میں فرق کرنا ہو تو مزید تفصیل میں جائیں۔ پنجاب کے صرف ایک ضلع سیالکوٹ سے 40 ہزار سے زیادہ ورکرز بیرون ملک گئے۔ اس کے بعد ضلع ڈیرہ غازی خان سے 34 ہزار افراد نے بیرون ملک سفر کیا، اسی طرح سوات سے بھی 31 ہزار ورکرز بیرون ملک گئے، لوئر دیر اور فیصل آباد سے بھی 24,24 ہزار لوگ اور راولپنڈی سے 22 ہزار اور لاہور سے 21 ہزار ورکرز بیرون ملک گئے۔ مردان، نارووال، گجرات، ملتان، رحیم یار خان، سرگودھا اور منڈی بہاالدین، بہاولپور، مظفرگڑھ وغیرہ ملا کر مجموعی تعداد کے نصف کے برابر ہے۔ جن علاقوں کا ذکر کیا ہے ان میں لاہور اور اسلام آباد کو کہا جاسکتا ہے کہ یہاں سے برین ڈرین ہوا ہوگا لیکن وہ برین اتنا نہیں جتنا ہوا کھڑا کیا گیا ہے۔ باقی سارے اضلاع سے لیبر اور ورکرز ہنر مند مزدور وغیرہ جاتے ہیں۔ 154 اضلاع میں سے چھے میں سے کوئی بھی بیرون ملک نہیں گیا۔
اگر برین ڈرین کا جائزہ لینا ہے تو 1971ء سے لیں جب سے اب تک پاکستانی برین ڈرین میں کراچی کا ضلع وسطی سرفہرست ہے جہاں سے اب تک ساڑھے پانچ لاکھ لوگ بیرون ملک گئے ہیں ان میں برین زیادہ اور ورکرز کم ہیں۔ اسی طرح تعداد کے اعتبار سے 1971ء سے اب تک سیالکوٹ دوسرے نمبر پر ہے لیکن اصل برین ڈرین کے اعتبار سے لاہور تیسرے نمبر پر ہونے کے باوجود دوسرے نمبر پر ہی قرار پاتا ہے۔ سیالکوٹ پانچ لاکھ 40 ہزار اور لاہور چار لاکھ 40 ہزار کے ساتھ ہے۔ پاکستان سے برین ڈرین کا بڑا حصہ 1971ء کے بعد سے 90ء کے عشرے تک ہوا اب زیادہ تر ورکرز جاتے ہیں اور برین بھی بلاشبہ جارہا ہے۔ لیکن حقیقتاً پاکستان کے اصل برین کو ہمارا حکمران طبقہ اسی ملک میں ڈرین آئوٹ کرکے سڑا رہا ہے۔ جیسا دماغ حکمرانوں کا ہے اسی قسم کا وہ اپنے ہمنوائوں کا بھی بنارہے ہیں۔ اگر قومی سیاسی جماعتوں اور ان کے پیروئوں کا تجزیہ کیا جائے تو نہ جماعتوں میں برین ہے نہ ان کے اکثر پیروئوں میں۔ سب ڈرین ہوچکا ہے، جذباتی وابستگی، جذباتی تعلق، جذباتی اختلاف۔ اپنے لیڈر اور پارٹی کا ہرحال میں دفاع کرنا، صحیح اور غلط کی تمیز ختم ہونا۔ ڈالر مہنگا ہے تو عمران خان کی حکومت میں اس کی وجہ سے۔ شہباز کی حکومت میں اس کی وجہ سے۔ پٹرول اور دیگر مہنگائی عمران خان کے دور میں اس کی وجہ سے اور شہباز کے دور میں اس کی وجہ سے۔ حالاں کہ نہ یہ پالیسی بناسکتے ہیں نہ بنانا آتی ہے، ایک تسلسل ہے تنزل کا جس کو یہ سب لے کر چل رہے ہیں۔ اس برین ڈرین پر بھی توجہ دی جائے۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ جن علاقوں سے لوگ بیرون ملک جاتے ہیں وہاں بھی غربت اور آمدنی میں کمی کا سامنا ہے۔ لوگ تھوڑا بہت پڑھ کر بڑے شہروں میں ملازمت کو ترجیح دیتے ہیں تا کہ ملک ہی میں رہ کر گھر والوں کا ہاتھ بٹاسکیں۔ یہ لوگ ویزے وغیرہ کے لیے بھی رقم مہیا نہیں کرسکتے۔ پڑھا لکھا فرد ملازمت کے ذریعے یا اپنے وسائل سے ویزے وغیرہ حاصل کرلیتا ہے لیکن شہروں میں خصوصاً کراچی میں آبادی بڑھنے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ بیرون ملک نہیں جاسکتے تو وہ بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ وڈیرے، سرمایہ دار، جاگیردار اور اعلیٰ طبقے کے سیاستدانوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ اپنا مال نکالیں، صنعتیں اور فنی تعلیم کے ادارے قائم کریں، ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قائم کریں اور یہاں برین کیئر کے فرائض انجام دیں۔ دولت جمع کرنا ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔