اک حرفِ دعا امر ہو جائے۔۔۔

706

آدھی رات کو آنکھ کھلی تو کچن سے کولڈرنک کا گلاس بھرا (عید کی وجہ سے لائی گئی تھی ورنہ ممنوع کر دی گئی ہے) کرسی پر بیٹھ کر پاؤں بیڈ کے کنارے پر دھرے کھلی ہوئی کھڑکی سے آتی ہوئی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کو محسوس کرتے ہوئے گھونٹ گھونٹ زندگی کے اس رنگ کو اپنے اندر اتارتے ہوئے یک لخت بہت سے احساسات دل سے ٹکرائے جن میں سب سے مضبوط تر احساس تھا ’’تشکر‘‘ کا اس سے قبل یہ فرصت، یہ موسم، اس پر پسندیدہ مشروب (جس کے پینے پر پابندی بھی لگی ہے) اور یہ تنہائی جس میں ایک ہی چھت تلے سوئے ہوئے ان افراد کے ہونے کا خوش کن احساس کہ جنہیں ہم ہمیشہ اپنے قریب ترین دیکھنا چاہتے ہیں، سکون فراغت، سر خوشی ایسے دجالی دور میں کہ جہاں اکثریت بے اماں ہے، ہر طرف غم و اندوہ کا طوفاں ہے قحط الرجالی اور معاشی قحط سالی ہے خوشی کا احساس تک مفقود ہے ایسے میں آپ کے قلوب میں سکینت بھرے احساسات جاگزیں ہوا کریں تو ایسے میں دو نفل ادا کرنے میں کبھی دیر نہ کیا کریں کہ آج بھی بہت سے لوگوں کی دسترس میں بہت کچھ کیا کچھ بھی نہیں ہے مگر پھر بھی وہ زندگی کے دن پورے کرنے پرمجبور ہیں۔
ایتھوپیا اور صومالیہ کی بھوک ہو یا شام و مصر کے عوام وخواص کی بے امانی، سونامی اور ترکیہ زلزلے کے اثرات ہوں یا دیگر آفات زمینی اور فضائی کے علاوہ آفات عمرانی، ہر دو جگہ خیالات و احساسات پر اک نادیدہ بوجھ بوجھل کیے دیتا ہے لیکن ان سب کے ہوتے ہوئے بھی آپ کے قلب و نظر اور آس پاس کے ماحول پر سکینت طاری ہے تو شکریہ تو بنتا ہے ناں اور ان تشکر بھرے لمحات کی وہ مسنون دعا کہ ’’رب اعنی علی ذکرک و شکرک وحسن عبادتک‘‘۔ ترجمہ: ’’اے اللہ! اپنے ذکر، شکر اور اپنی بہترین عبادت کے سلسلے میں میری مدد فرما‘‘۔
اس دعا کو حرزِ جاں بنا لیجیے کہ اس دور دجل میں ایک پر سکون سانس، ایک پر سکون لمحہ، ایک پر سکون خوشی، ایک پر سکون لقمہ اور ایک پرسکون گھونٹ ہر کسی کو میسر نہیں سو قطرہ قطرہ زندگی بھی آج کوئی جی رہا ہے ناں تو اس ایک قطرے کی موجودگی پر بھی اپنے ربّ العزت کا ڈھیروں شکر ادا کیجیے تاکہ نعمتوں اور خوشیوں بھرے یہ پرسکون قطرے سمندر میں ڈھل جائیں انہیں دوام ہو، استحکام ہو ایسی ہمیشگی ہو کہ آپ کو تاقیامت رضائے الٰہی کی سر خوشی میں ڈھانپے رکھیں۔ ربّ العالمین ہمیشہ شاد و آباد رکھے آپ سب کو آج لکھنے کے لیے محض شکر ہی تھا سو لکھ کر ہواؤں کے سپرد کر دیا جہاں جہاں پہنچے شکر کے دو سجدوں کے ساتھ مقبول ہو جائے اک ایسا حرفِ دعا لکھوں کہ امر ہو جائے۔