کشمیر کے ایک نامور روزنامے کا کہنا ہے کہ ’انڈیا ہمارے سینے پر گولی مارتا رہا ہے اور ہم ہر بار زخم پر مرہم رکھ کر مزاحمت کرتے رہے ہیں مگر پاکستان نے ہمیشہ ہماری پیٹھ پر چھْرا گھونپا۔ کبھی سنبھلنے کا موقع بھی نہیں دیا، جنرل باجوہ مودی کی میزبانی کی تیاری میں مصروف تھے اور ہم نادان کشمیری سمجھ رہے تھے کہ پاکستان ہمارے لیے سینہ سپر ہے۔ بلاول انڈیا آئے یا خود فوجی سربراہ، شاید ہی کوئی کشمیری بچا ہے جو اس ملک یا اس کے حکمرانوں پر اب بھروسا کرسکتا ہے‘۔ یہ الفاظ اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ پر ہمارے حکمرانوں نے منوں مٹی ڈال دی ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ نے 4 مئی 2023ء سے بھارت میں شروع ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کی کانفرنس میں جب وزیر خارجہ بلاول زرداری کی شرکت کی تصدیق کی تو جہاں بھارتی میڈیا نے اپنی حکومت کے اس موقف کے بارے میں آگاہ کرنا شروع کر دیا ہے کہ پاکستان نے کشمیر کی غیر متنازع حیثیت کو اب تسلیم کرلیا ہے۔ ابھی چند دن قبل بھارت میں پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’’بھارت میں بہت بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام شروع ہو نے والا ہے۔ جس کے فوری بعد ہی وزارت خارجہ نے بلاول کی بھارت جانے کا اعلان کیا۔ اس سلسلے میں یہ بات بتاتا چلوں کہ 5اگست 2019 میں کو آرٹیکل 370 میں ترمیم کی جو ریاست جموں و کشمیر کو انڈین یونین میں خصوصی نیم خودمختار حیثیت دیتا تھا۔ بی جے پی کی حکومت کی جانب سے لائی جانے والی اس تبدیلی کے نتیجے میں اب جموں و کشمیر کو ایک ریاست کا درجہ حاصل نہیں رہا۔ اس کے فوری بعد پاکستان نے یہ فیصلہ کیا تھا جب تک یہ ترمیم واپس نہیں ہوگی بھارت سے مذاکرات نہیں ہوں اور کسی بھی طرح کا بھارت دورہ کشمیریوں کے خون سے
غداری ہو گی۔
کشمیریوں کے خون سے غداری کو بھاپنتے ہوئے بھارتی میڈیا نے ایک مرتبہ پھر یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ آخر کار پاکستان نے 5اگست 2019ء کے کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کے فیصلے کو من و عن تسلیم کر لیا ہے۔ پاکستانی حکومت ابھی چند دن قبل ہی اس بات پر شور کرتی رہی ہے G-20 ممالک کے حکمران کشمیر میں منعقدہ کانفرنس میں شرکت نہ کریں لیکن آج وہی پاکستان سرکاری سطح پر بھارت میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کی کانفرنس میں شرکت کرکے ایک مرتبہ پھر یہی بتا رہی ہے کہ: اے کشمیریوں! تم جس پاکستان کو ایک مضبوط سہارا تصور کرتے آ رہے تھے اْس نے اپنے مفادات کی خاطر تم کو پھر ایک بار پھر قربانی کا بکرا بنا دیا۔ دوسری جانب کشمیر کے ہر گھر میں حکومت پاکستان کی غداری پر کہا جارہا ہے کتنی آسانی سے دوبارہ ان کی سات دہائیوں پر محیط جدوجہد کو ایک معمولی دورے کے لیے دفن کرکے کشمیریوں کے نئے کفن کی تیاری کے احکامات جاری کر دیے گئے۔ ابھی یہ حیران کن بات ہے کہ بلاول زرداری کا بھارت آنے کا ابھی اعلان ہی ہوا تھا کہ بھارت نے ایک اور پلومہ کی تیاری شروع کر دی ہے۔ بھارتی ڈرامے کے مطابق جموں کے متصل پونچھ علاقے میں پولیس کے مطابق ایک ’دہشت گرد‘ حملے میں سیکورٹی فورسز کے پانچ سپاہیوں کو زندہ جلانے کی خبر آگئی۔ اس کے بعد بھارتی میڈیا نے فوراً یہ مطالبہ کر دیا کہ مودی سرکار کو پاکستان
کے وزیر خارجہ کو کانفرنس میں شرکت سے روکنا چاہیے۔ بھارت کا یہ دیرینہ موقف رہا ہے کہ پاکستان سے مذاکرات تب تک ممکن نہیں جب تک سرحد پار ’دہشت گردی‘ روکی نہیں جاتی۔ مودی سرکار نے بارہا الزام لگایا کہ جموں و کشمیر میں آئے روز سیکورٹی فورسز پر جو حملے کیے جاتے ہیں جن کی منصوبہ بندی پاکستان میں ہوتی ہے۔ پاکستان ان الزامات کو ہمیشہ رد کرتا آیا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر سے پوچھا گیا کہ کیا وہ پاکستان کے ہم منصب کے ساتھ شنگھائی کانفرنس کے دوران باہمی ملاقات کریں گے تو انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں جواب دیا کہ ایسے پڑوسی سے بات کرنا انتہائی مشکل ہے جو سرحد پار سے ہمارے ملک میں دہشت گردی کے منصوبے بناتا ہے۔ اس اعلان کے بعد کشمیری قوم پر سکتہ طاری ہے۔ وہ پانچ اگست 2019 کے فیصلے کے صدمے سے باہر نہیں آ پا رہی ہے۔ عوام خاموش تو ہیں لیکن انتہائی بے چین اور پریشان۔ کوئی سہارا ہے اور نہ کسی ملک کی جانب سے ہمدردی کے دو الفاظ کا اظہار ہے۔ اس پر ستم یہ کہ پاکستان کا جو خود اس تنازعے کا ایک فریق رہا ہے طرز عمل انتہائی تکلیف دہ ثابت ہو رہا ہے۔ پاکستان نے گزشتہ چار برسوں سے نہ صرف ایک معنی خیز خاموشی اختیار کر رکھی ہے بلکہ میڈیا رپورٹوں کے مطابق سابق متنازع فوجی سربراہ نے انڈیا کے ساتھ باہمی مشورے کے بعد کشمیر کو سرد خانے میں ڈالنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ سابق سربراہ نے ان خبروں کی تردید یا تائید ابھی تک نہیں کی ہے۔ آزادی پسندوں یا قوم پرست کشمیریوں نے پہلے ہی بھارت پاکستان دونوں ملکوں سے علٰیحدگی اختیار کرنے کا علم بلند کیا ہے لیکن جموں و کشمیر میں پاکستان نوازوں کا ایک مضبوط حلقہ موجود ہے جو سات دہائیوں سے انڈیا کے زیر عتاب رہا ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے الحاق پاکستان کی رسی کو ہمیشہ تھامے رکھا۔ رائٹرز کا کہنا ہے کہ بلاول کی بھارت میں آمد کشمیر کے متنازع خطے میں بی جے پی کی جیت عالمی سطح پر اس علاقے میں انڈیا کے دعوے کو مضبوط کر سکتی ہے۔
پاکستان کے حکمران طبقے نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر کو دبانے کی کوشش کی ہے۔ کارِ بد میں سول اور فوجی دونوں برابر کے حصے دار ہیں۔ جموں و کشمیر کی پاکستان نواز آبادی کو پہلا دھچکا جنرل ایوب نے ساٹھ کی دہائی میں اس وقت دیا جب انہوں نے سندھ تاس معاہدے کے عوض کشمیر کو پس پشت ڈالا دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 71کی جنگ کے مبینہ ’90 ہزار‘ جنگی قیدیوں کی رہائی کے بدلے میں کشمیر مسئلے کو عالمی سے باہمی مسئلہ بنا دیا۔ جنرل مشرف نے اس باہمی مسئلے کو چار نکات پر محدود کرکے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مسلح تنظیموں کے تمام دفاتر بند کر دیے تھے۔
ماہنامہ ترجمان القرآن کا شمارہ جون 2022 کے مطابق آخری دھچکا جنرل باجوہ نے دیا جب انہوں نے بھارت کے پانچ اگست 2019 کے فیصلے پر خاموشی اختیار کر کے کنٹرول لائن پر جنگ بندی کرا دی اور مسئلہ کشمیر کو سرد خانے میں ڈالنے کے مودی سرکار کے فیصلے کی بظاہر حمایت کر دی۔ پاکستان کی پانچ اگست 2019 کے بعد خاموشی، خفیہ ملاقاتیں اور اس مسئلے کو بند ڈبے میں رکھنے کے جو حالیہ انکشافات ہوئے اس سے کشمیری قوم سے زیادہ خود پاکستان کی عزت خاک میں ملا دی گئی ہے۔
پاکستان کا بھارت سے رابطوں سے پہلے اس کی اخلاقی ذمے داری نہیں بنتی کہ وہ لاکھوں کشمیری سوگوار خاندانوں سے پہلے معافی مانگتا یا پھر سیاسی و معاشی دیوالیہ پن کی طرح پاکستان اب اخلاقی دیوالیہ پن کا بھی شکار ہوچکا ہے؟