امریکا دنیا کا سب سے زیادہ طاقتور ملک ہے اس کی فوجی طاقت کئی کئی ممالک کے مقابلے میں بیک وقت ایک ملک کی فوجی طاقت زیادہ ہے۔ امریکا کا مقابلہ روس اور چین کی فوجی قوتوں سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل امریکا کے زیر سایہ پل رہا ہے لیکن اس کی فوجی طاقت کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ وہ اکیلا بھی کئی عرب ممالک پر بھاری ہے۔ اسرائیل کو چیلنجز سرحدوں پر اور اندر بھی ہیں۔ عرب ممالک کو بھی یہی صورت حال درپیش ہے۔ پاکستان اور ہندوستان ان معاملے میں ایک ہی پوزیشن میں ہیں اگر دنیا میں کوئی ملک اس معاملے میں الگ ہے تو وہ امریکا ہے اور امریکا مسلسل دفاعی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس پر حملہ آور کون ہے اس کا دشمن کون ہے۔ اس کے خلاف فوجی کارروائیاں کون کررہا ہے۔ اس سوال کا جواب امریکا کے کسی رہنما، سربراہ، پینٹاگان، کانگریس، سینیٹ اور امریکی دانشوروں میں سے کسی کے پاس نہیں ہے۔ ظاہر ہے اس کا جواب ہے ہی نہیں۔ یہ تو وہی پرانا طریقہ کار ہے جس میں بچوں کو ایک فرضی بھوت سے ڈرایا جاتا ہے، مغرب اور خصوصاً امریکا میں اسے مانسٹر کہا جاتا ہے اور مشرق میں اللہ بابا کہتے ہیں۔ مشرق میں تو بچوں کو شرارت سے باز رکھنے کے لیے ہی یہ اصطلاح استعمال ہوتی تھی لیکن ہماری ریاست کو چونکہ ماں کا درجہ ملا ہوا ہے اس لیے اس نے پوری قوم کو بچہ سمجھ کر اس اللہ بابا سے ڈرانے کا کام سنبھالا ہوا ہے تا کہ پوری قوم میں کوئی شرارتی شخص حد سے تجاوز نہ کرسکے۔ اب اس اللہ بابا یا مغرب کے مانسٹر کا نام امریکا نے ٹیررسٹ رکھا ہے تو ہماری ریاست نے بھی دہشت گردوں کے کئی گروپوں کو نشانہ بنایا ہوا ہے۔ یہ دہشت گرد عام طور پر کسی کو نظر نہیں آتے۔ اس کے کارندے بھی کہیں چلتے پھرتے دکھائی نہیں دیتے لیکن یہ صرف دہشت گردی کے واقعات کے بعد سامنے لائے جاتے ہیں۔ پہلا کام ان کی جانب سے کسی نامعلوم ذریعہ سے دہشت گردی کے واقعے کی ذمے داری قبول کرنے کا ہوتا ہے۔ مغرب خصوصاً امریکا کے زیر سایہ جہاں جہاں پیس کیپنگ (امن قائم رکھنے والی) فورسز کام کررہی ہیں وہاں وہاں ایسے دہشت گرد بکثرت پائے جاتے ہیں۔
نامعلوم اور کسی پتے کے بغیر دہشت گردی کا سلسلہ 9/11 سے بھی بہت پہلے سے جاری ہے۔ جب بھی نوسربازوں کے ٹولے کو سادہ لوح لوگوں کو لوٹنا ہوتا تھا تو مغرب خصوصاً امریکا میں کسی ایک گھر پر الزام لگادیا جاتا تھا کہ یہاں رہنے والے لوگ چڑیل بناتے ہیں اور اس کے بعد اس زمانے کا سی این این اور بی بی سی اور دوسرے ذرائع ابلاغ اس الزام کو اتنا دہراتے اتنا پیٹتے کہ لوگوں کو یقین آجاتا کہ یہ لوگ چڑیل بناتے ہیں اور پھر اس گھر کو مسمار اور گھر والوں کو سنگسار سمیت موت کی کوئی بھی سزا دے دی جاتی تھی۔ کوئی پلٹ کر آواز نہیں اٹھاتا تھا کہ یہ تو اچھے لوگ تھے۔ یہی کام امریکا نے جدید دور میں کیا پہلے نامعلوم دشمن کا نام لیا پھر القاعدہ کا نام لیا پھر اس کا ٹھکانہ افغانستان قرار دے دیا اور ذرائع ابلاغ امریکی قوالی کے پیچھے تالیاں پیٹتے رہے۔ لیکن کسی نے کسی آزاد ذریعے سے تصدیق نہیں کی اور افغانستان کا تورا بورا کردیا گیا۔ یہی کچھ عراق میں کیا گیا کہ صدام کے پاس ڈبلیو ایم ڈی ہیں۔ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں لہٰذا اس پر حملہ ضروری ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ امریکا پر حملہ کرے، امریکا اس پر حملہ کردے۔ اور کردیا گیا۔ پھر 20 سال بعد کہا گیا کہ سی آئی اے کی رپورٹ غلط تھی۔ اگرچہ کووڈ 19 کسی ملک کے خلاف جنگ نہیں تھی لیکن اس کے بارے میں مبالغہ آرائی اور میڈیا کے ذریعے خوف اس قدر پھیلایا گیا کہ پوری دنیا کی معیشت تباہ ہوگئی اور بعد میں اقوام متحدہ نے اسے عالمی وبا قرار دینے کے فیصلے سے معذرت کرلی۔ لیکن ان دیکھے دشمن سے جنگ میں امریکا سرفہرست ہے۔ جو ملک ساری دنیا سے زمینی طور پر کٹا ہوا ہے۔ اسے پوری دنیا میں سب سے زیادہ اپنی سرزمین پر حملوں کا خوف ہے۔ نہیں خوف نہیں ہے بلکہ اس نے یہ خوف اپنے عوام کے ذہنوں پر مسلط کر رکھا ہے۔ یہ امریکا ہی ہے جس کی سرحدیں کسی ملک سے نہیں ملتیں لیکن اس نے دنیا کے درجن بھر سے زائد ممالک میں دفاعی جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ گزشتہ سال کے امریکی دفاعی بجٹ میں بھاری اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ حال ہی میں امریکا نے تاریخ کا سب سے بڑا دفاعی بجٹ منظور کیا ہے جو 840 ارب ڈالر کے زیادہ کا ہے۔ اس سے قبل 2021ء میں امریکا نے778 ارب ڈالر کا دفاعی بجٹ منظور کیا تھا۔ ٹرمپ نے 740 ارب ڈالر کا بجٹ پیش کیا۔ معاملہ صرف امریکا کا نہیں ہے بلکہ چین بھی خطرات کے پیش نظر دفاعی بجٹ میں اضافہ کردیا ہے اور بھارت بھی اور روس تو دفاعی بجٹ کو اب جارحانہ بجٹ بھی کہہ سکتا ہے کیونکہ اس نے یوکرین پر حملہ بھی رکھا ہے۔ امریکا تو ہر جگہ دفاعی جنگ لڑ رہا ہے بس احتیاطاً پہلے حملہ کردیتا ہے۔
یہ دفاعی جنگ دنیا کو کہاں لے جارہی ہے اس کے نتیجے میں انسانی وسائل، انسانی جانیں، آبی ذخائر، جنگلات، زراعت، آبادیاں ہی تباہ ہورہی ہیں۔ ایک بیماری سے لوگوں کی اموات کے خدشے پر پیٹ میں مروڑ رکھتا رہا اور امریکا و روس دنیا بھر میں انسانی جانیں لے رہے ہیں اس پر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی اور ماتھے بل بھی نہیں آتا۔ اسی قسم کی جنگ پاکستان میں بھی خیالی یا ہوائی دشمن سے لڑی جارہی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور سے اب تک دہشت گردوں کا کئی مرتبہ صفایا ہوچکا کئی مرتبہ ان کی کمر توڑی جاچکی لیکن وہ دہشت گرد ہر چند ماہ بعد ایسی کارروائیاں کرتے ہیں کہ ان کا وجود ثابت ہوجائے پھر باقی کام اعترافی پیغامات اور مذمتی بیانات کے ذریعے ہوتا ہے۔ نہیں چھوڑیں گے۔ معاف نہیں کریں گے، وغیرہ کی تکرار ہوتی ہے۔ ان خیالی دشمنوں سے جنگ ختم کرکے اصل ازلی دشمن کو للکارنے کی ضرورت ہے۔ کشمیر کی جانب توجہ کی ضرورت ہے۔ ملک کے اندر بدعنوانی، جھوتی سیاست، دھوکے اور فریب کے خاتمے کی جنگ کی ضرورت ہے۔ یہ ان دیکھے دشمن والی جنگ تو ملک کو مزید کمزور کررہی ہے۔