ایک روز ایک شوہر جب اپنے گھر میں داخل ہوا، تو دیکھتا ہے کہ اس کی بیوی زار و قطار رو رہی ہے رونے کا جب سبب دریافت کیا، تو بیوی کہنے لگی، ہمارے گھر کے پیڑ پر بیٹھنے والے پرندے بسا اوقات مجھے غیر شرعی حجاب میں دیکھتے ہیں تو مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں اس میں اللہ کی معصیت اور گناہ کا ارتکاب نہ ہوتا ہو جس کا اگر مجھے ایک دن اللہ کے سامنے حساب دینا پڑ گیا تو کیا ہوگا، بس یہی سوچ کر اور اسی خوف سے میں رو رہی ہوں۔ بیوی کا یہ جواب سن کر شوہر بہت خوش ہوا اور اسی وقت کلہاڑی لے کر گھر کے پیڑ کو کاٹ کر باہر پھینک دیا۔ اس واقعہ کے کچھ ہی دن بعد شوہر اپنے کام سے جلدی فارغ ہو کر اپنے معمول سے کچھ پہلے ہی گھر آ گیا تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کی بیوی اپنے عاشق کی بانہوں میں لپٹی ہوئی سو رہی ہے۔
یہ دلخراش منظر دیکھ کر اس نے مزید کچھ نہیں سوچا بس گھر سے اپنی بعض ضروریات کا سامان لیا، اور اپنا گھر اور بستی چھوڑ کر نکل پڑا۔ چلتے چلتے ایک دوسرے شہر تک پہنچ گیا جو بادشاہ وقت کا اپنا شہر تھا۔ وہاں دیکھا کہ امیر شہر کے محل کے ارد گرد کافی لوگ جمع ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر جب اس نے اس بھیڑ کا سبب پوچھا تو لوگوں نے بتایا کہ بادشاہ سلامت کی تجوری چوری ہو گئی ہے۔ اسی دوران اس بھیڑ سے ایک ایسے شخص کا گزر ہوا جو پورے پیر کے بجائے صرف اپنے پیروں کی انگلیوں کے بل بہت سنبھل سنبھل چل رہا تھا۔ اس نے جب اس شخص کے بارے میں پوچھا کہ یہ صاحب کون ہیں، تو لوگوں نے بتایا کہ اس شہر کے دینی گرو، مذہبی پیشوا اور شیخ صاحب ہیں، جو اپنی انگلیوں کے بل محض اس لیے چلتے ہیں تاکہ ان کے پاؤں کے نیچے کوئی چیونٹی آکر دب نہ جائے اور اس طرح وہ نا حق قتل کے مرتکب نہ ٹھیرائے جائیں۔
شیخ صاحب کے متعلق لوگوں کا یہ جواب سن کر اس نے کہا، مجھے اسی وقت بادشاہ کے پاس لے چلو، بادشاہ کے پاس پہنچ کر ابتدائی حال چال کے بعد اس نے عرض کیا، بادشاہ سلامت، آپ کی تجوری کا چور کوئی اور نہیں، بلکہ آپ کے اس شہر کے دینی گرو اور مذہبی پیشوا شیخ صاحب ہی ہیں، یہ سن کر بادشاہ کو سخت حیرت وتعجب ہوا، جس پر اس نے مزید یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ اگر مجھے اس الزام میں جھوٹا پایا جائے تو میرا خون معاف اور اگر اس الزام کے بدلے میری گردن بھی اڑا دی جائے تو بھی میں اس کے لیے مکمل طور پر تیار ہوں۔ بادشاہ نے اس کا اتنا پختہ جواب سن کر شیخ صاحب کو فوراً دربار میں حاضر کرنے کا حکم دے دیا، انہیں دربار میں لایا گیا، پوچھ گچھ اور تحقیق کے بعد آخر کار شیخ صاحب نے اپنا جرم قبول کر لیا۔ شیخ کے اقرار جرم کے بعد بادشاہ اس شخص سے کہنے لگا، تم یہ بتائو کہ آخر تم کو کیسے پتا چلا کہ چور یہی شیخ صاحب ہیں جب کہ وہ اپنی ظاہری شکل وصورت اور وضع قطع سے انتہائی نیک، صالح، اور پارسا دکھائی دیتے ہیں۔ بادشاہ کے اس سوال کا جو قیمتی جواب اس آدمی نے اپنے سابقہ تجربات کی روشنی میں دیا وہ یہ تھا کہ جب بھی اظہار پارسائی میں حد سے زیادہ غلو پایا جائے وہاں کسی نہ کسی بڑے جرم کو چھپانے کی کوشش ہو رہی ہوتی ہے۔
ذرا سا جھڑک دینے پر کتے کے بہتے آنسوؤں پر دل کے پسیج جانے کا ذکر، شوہر کا کل لباس صرف دو جوڑے اور ان میں بھی موریاں جیسی کہانیاں اگر کہانیاں نہیں تھیں تو اور کیا تھا۔ دو جوڑے اور موریاں تو اتنی صاف دکھائی دے رہی تھیں کہ ان کی خستہ حالی سنانے والی آنکھیں تک بھر آئیں لیکن سیکڑوں ایکڑ پر بنی محل نما عمارت، پھیلے ہوئے باغیچے اور لان، پلے ہوئے اعلیٰ نسل کے کتے، سیکڑوں ملازمین اور محافظوں کے دستوں کا نظر نہ آنا کتنا غیر منصفانہ امتزاج تھا۔ ایک جانب ایاک نعبد و ایاک نستعین کا ورد اور دوسری جانب خواتین کی بیہودہ اچھل کود آخر کیوں نہیں دکھائی دی۔
ہر ہفتے دو ہفتے یا مہینے بعد مسلسل اس بات کا دہرا یا جانا کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ ہماری سوچ کا وزن کسی بھی سیاسی پارٹی کے پلڑے میں نہیں ڈالا جاتا۔ ہم جو کچھ کرتے ہیں وہ حکومت کے تحت کرتے ہیں اور جو ’’حکم‘‘ حکومتی سربراہ کی جانب سے دیا جاتا ہے اس کی اطاعت میں سر تسلیم خم کر دیتے ہیں جیسے بیانات کیا حد سے زیادہ پار سائی کا اظہار نہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ سیاستدان ہوں، پیر ہوں، علمائے کرام ہوں یا ہمارے عسکری ادارے، مبالغہ آرائیوں کی انتہاؤں پر ہیں۔ مہنگائی کے سارے جنوں کو بوتلوں میں بند کر دینے کے دعوے، دودھ اور شہر کی نہروں کو بہا دینے کی باتیں، اولادوں پر اولادیں دینے کی یقین دہانیاں، اسلام کے نظامِ انصاف کو رائج کرنے کے پختہ ارادوں کا اظہار، ختم نبوت پر مر مٹ جانے کا عزم اور سیاست سے بالکل لا تعلقی کا بار بار اظہار کرنے کے باوجود پوری اسمبلی سے ایک ماہ کے اندر اندر اپنے مطابق قانون سازی کراکے نوے نوے دن کے لیے بندے اٹھا کر ہزار ہزار دن کے بعد لاشوں کی صورت میں واپس کرنا، سیاسی پارٹیوں میں توڑ پھوڑ مچانے اور ملک کے آئین کو قدموں تلے کچل کر خود کرسی اقتدار پر براجمان ہوتے رہنے کے بعد بھی یہ کہنا کہ ہمارا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ایسا ہی ہے جیسے پرندوں کے سامنے بے حجاب ہونے کے خوف سے رونے دھونے کا ناٹک، کتے کی آنکھوں میں آنسوں دیکھ کر دل پسیجنا یا پیروں کی انگلیوں کے بل سنبھل سنبھل کر قدم رکھنا۔ بہتر یہی ہے کہ یہ سارے مصنوعی چہرے اب اُتار کر اپنی اپنی خطاؤں کا اعتراف کیا جائے کیونکہ دنیا میں چربِ زبانی نے بچا بھی لیا تو آخرت میں بچ جانے کا ذرہ برابر بھی امکان نہیں۔ بقولِ خود
جہاں میں چربِ زبانی کے فن نے گر تم کو
بچا لیا تو قیامت میں مارے جاؤ گے