حکومت سنجیدہ ہے تو خود اقدام اٹھاتی، مذاکرات کرنے پر عدالت مجبور نہیں کر سکتی، چیف جسٹس

358

 اسلام آباد:ملک کی تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کے معاملے پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو خود اقدام اٹھاتی، مذاکرات کرنے پر عدالت مجبور نہیں کر سکتی،عدالت صرف آئین پر عمل چاہتی ہے تاکہ تنازع کا حل نکلے، عدالت کو کوئی وضاحت نہیں چاہیے، صرف حل بتائیں، مذاکرات کے معاملے میں صبر اور تحمل سے کام لینا ہوگا، عدالت کا کوئی حکم نہیں صرف تجویز ہے، ۔

جمعرات کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور اعوان روسٹرم پر آگئے اور عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ 19 اپریل کو حکومت اور اپوزیشن میں پہلا رابطہ ہوا، 26 اپریل کو ملاقات پر اتفاق ہوا تھا، 25 اپریل کو ایاز صادق اور خواجہ سعد رفیق کی اسد قیصر سے ملاقات ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ اسد قیصر نے بتایا کہ وہ مذاکرات کیلئے با اختیار نہیں ہیں، گزشتہ روز حکومتی اتحاد کی ملاقاتیں ہوئیں، دو جماعتوں کو مذاکرات پر اعتراض تھا لیکن راستہ نکالا گیا، چیئرمین سینیٹ نے ایوان بالا میں حکومت اور اپوزیشن کو خطوط لکھے ہیں۔

 انہوں نے حکومت اور اپوزیشن سے چار 4 نام مانگے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسد قیصر کے بعد کیا کوشش کی گئی کہ کون مذاکرات کے لیے بااختیار ہے؟، جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ منگل کو میڈیا سے معلوم ہوا کہ شاہ محمود قریشی مذاکرات کیلئے با اختیار ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ چیئرمین سینیٹ سے کس حیثیت سے رابطہ کیا گیا؟، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سینیٹ وفاقی کی علامت ہے اس لیے چیئرمین سینیٹ کو کہا گیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ روز 19 اپریل کو چیمبر میں آپ سے ملاقات ہوئی، ہمارے ایک ساتھی کی عدم دستیابی کے باعث 4 بجے سماعت نہیں ہوئی تھی، فاروق ایچ نائیک نے کہا تھا چیئرمین سینیٹ سہولت کاری کریں گے، چیئرمین سینیٹ نہ حکومت کے نمائندے ہیں نہ اپوزیشن کے۔

 دوران سماعت چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو خود اقدام اٹھاتی، مذاکرات کرنے پر عدالت مجبور نہیں کر سکتی، عدالت صرف آئین پر عمل چاہتی ہے تاکہ تنازع کا حل نکلے، عدالت کو کوئی وضاحت نہیں چاہیے، صرف حل بتائیں، چیئرمین سینٹ اجلاس بلائیں گے اس میں بھی وقت لگے گا۔

اس دوران پیپلزپارٹی کی جانب سے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ تمام حکومتی اتحادی جماعتیں پی ٹی آئی سے مذاکرات پر آمادہ ہیں، سینیٹ واحد ادارہ ہے جہاں تمام جماعتوں کی نمائندگی موجود ہے۔

فاروق نائیک نے مزید کہا کہ چیرمین سینیٹ کا کردار صرف سہولت فراہم کرنا ہے، مذاکرات سیاسی جماعتوں کمیٹیوں نے ہی کرنے ہیں، سیاسی ایشو ہے اس لیے سیاسی قائدین کو ہی مسل حل کرنے دیا جائے، سیاست کا مستقبل سیاستدانوں کو ہی طے کرنے دیا جائے۔

عدالت نے ریمارکس دیئےکہ قومی مفاد اور آئین کے تحفظ کے لیے اتفاق نہ ہوا تو جیسا ہے ویسے ہی چلے گا، نام دینے میں کیا سائنس ہے، کیا حکومت نے اپنے 5 نام دیے ہیں، حکومت نے نیک نیتی دکھانے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں، لگتا ہے حکومت صرف پاس پاس کھیل رہی ہے،اگر مذاکرات کے ذریعے حل نہ نکلا تو آئین بھی موجود ہے اور ہمارا فیصلہ بھی موجود ہے، نہ کوئی ہدایت جاری کر رہے ہیں اور نہ ہی کوئی ٹائم لائن جاری کر رہے ہیں، اس کیس کا تحریری فیصلہ جاری کریں گے، عدالت مناسب حکمنامہ جاری کرے گی۔