فنڈز کے اجرا کا غیر آئینی کام کرنے کا کہا جا رہا ہے، اسحاق ڈار

600
unconstitutional

اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ ہمیں فنڈز جاری کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے وہ غیر آئینی کام ہے، میں ایوان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس معاملے میں ہماری رہنمائی کرے۔

قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ عام انتخابات 2023 کے لیے رواں سال کے بجٹ میں مختص کی گئی رقم صرف 5 ارب روپے تھی، گزشتہ چھ سات ماہ کے دوران الیکشن کمیشن پاکستان کے ساتھ جو بات چیت ہوئی، اس میں اس نے عام انتخابات کے لیے 54 ارب روپے کی ڈیمانڈ کی۔

اسحٰق ڈار کا کہنا تھاکہ جب وزارت خزانہ کی جانب سے الیکشن کمیشن سے بات کی گئی تو کمی پیشی کے بعد 47.4 ارب کا حتمی فیگر طے ہوا، اس کے بعد پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کردی گئیں، میں اس تفصیل میں نہیں جاتا کہ 63 اے کے تحت آئین کو دوبارہ لکھا گیا، یہ اس کا نتیجہ تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر 63 اے کو ری رائٹ نہ کیا جاتا تو پنجاب میں حکومت چل رہی تھی، وہ اپنی مدت پوری کرتی اور پھر ملک بھر میں ایک ساتھ الیکشن ہوتے، اس پیش رفت سے کافی خرابیاں پیدا ہوئیں، 63 اے کی نئی تشریح پر آج تک دنیا حیران ہے۔دو اسمبلیوں کی تحلیل ملک میں افرا تفری پھیلانے کی کوشش تھی، اس کے بعد الیکشن کمیشن سے پوچھا گیا کہ دو صوبوں میں الگ الیکشن سے کتنے اضافی اخراجات ہوں گے، اس پر انہوں نے بتایا کہ اس کے لیے 14.4 ارب روپے اضافی خرچ ہوں گے۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں جب ایک پٹیشن دائر ہوئی، 4 اپریل کو ایک حکم آیا، اس ایوان نے 6 اپریل کوایک قرار داد پاس کی جس کے مطابق کہا گیا کہ ہم یہ ادائیگی نہیں کریں گے جس کی وجہ سے وفاقی حکومت، وزارت خزانہ پابند ہو گئی کہ ہم یہ ادائیگی نہیں کریں گے۔

ان کا کہناتھاکہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر سوچ بچار کے بعد ہم آئین کے تحت اس کو کابینہ میں لے گئے، کابینہ نے اس کی منظوری دی، پھر ہم اس کو اسمبلی میں آئے، ایوان نے کہا کہ ہم اس کو سپریم کورٹ کا فیصلہ ہی نہیں مانتے، یہ تو چار تین کا فیصلہ ہے، ایوان اس کو نہیں مانتا، اس نے اس منی بل کو مسترد کردیا۔

اسحاق ڈارکا کہناتھا کہ اس کے بعد ایک اور حکم اْیا جس میں کہا گیا کہ آپ یہ ادائیگی کریں، اسٹیٹ بینک یہ ادائیگی کرے، اسٹیٹ بینک پیسے جاری نہیں کرسکتا، اس کا ٹرسٹی اور آپریٹر وزارت خزانہ ہے، اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ اس نے 21 ارب روپے مختص کردیے ہیں، لیکن بینک کے پاس پیسے جاری کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ منی بل مسترد ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وزیراعظم کو ایوان کا اعتماد حاصل نہیں ہے، اس ایوان نے سوچ سمجھ کر فنڈز کے اجرا کو مسترد کیا، ایوان نے ادائیگی کو دوٹوک انداز میں روک دیا، یہ ایوان 3 مرتبہ اپنا فیصلہ سنا چکا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ ملک میں الیکشن 90 روز میں نہی ہو رہے، پہلے بھی الیکشن تارخیر کا شکار ہوچکے ہیں اور ابھی بھی 90 روز کا وقت گزر چکا ہے۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھاکہ میں کبھی کسی غیر آئینی کام کا مشورہ نہیں دوں گا، ہمیں جو کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے وہ غیر آئینی کام ہے، آپ یہ فرض نہیں کرسکتے کہ آپ جائیں، فنڈز جاری کردیں، ایوان میں بیٹھے لوگ کوئی غلام ہیں جو جون میں اس کی منظوری دے دیں گے، میں ایوان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس معاملے میں ہماری رہنمائی کرے۔