سابق وزیراعظم عمران خان نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے کہنے پر اسمبلیاں توڑی تھیں۔ ایک ایک کرکے وہ راز کھول رہے ہیں۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ باجوہ نے کہا کہ الیکشن چاہتے ہیں تو اسمبلیاں توڑ دیں۔ تحریک انصاف کے ترجمان نے اس انٹرویو کو غلط قرار دیا ہے لیکن عمران خان کا انٹرویو توڑ مروڑ کر نہیں اصل حالت میں دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں نے دیکھا اور سنا ہے۔ ان تمام دعوئوں کو الگ رکھیں چار سال تک جنرل باجوہ اور عمران خان کا ساتھ رہا اور ایسا ساتھ رہا کہ سب کو مجبور کردیا گیا کہ حکومت پر کوئی تنقید نہ کرے، صحافیوں سے کہا گیا کہ چھے ماہ تک حکومت پر تنقید نہ کریں اور یہ سب کچھ فوج کی جانب سے کھلم کھلا کیا گیا۔ سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کو تنقید کا نشانہ بنانا تو کوئی مشکل کام ہی نہیں ہے۔ عدلیہ اور فوج کا نام لینا بھی جرم تھا، لیکن فوج اور عدلیہ نے سیاست کے دلدل میں گہرا اتر کر سارا کیچڑ اپنے چہرے پر بھی مل لیا۔ اب اگر عمران خان بات بات پر باجوہ باجوہ، فوج فوج کرتے ہیں یا کبھی مسلم لیگ کبھی پی پی پی اور کبھی پی ٹی آئی عدالتی قتل، عدالتی حملے اور عدلیہ کی مداخلت کہتے ہیں۔ اب ججوں کے کیسز سامنے لائے جارہے ہیں، جرنیلوں کے نام لیے جارہے ہیں، اس میں سارا قصور عمران خان جیسے سیاستدانوں کا نہیں بلکہ ان اداروں اور سربراہوں کا بھی ہے۔ اب قوم عمران خان کے اس اعلان کی بھی منتظر ہے کہ باجوہ نے سارے ہی غلط کام مجھ سے کروائے۔ کم از کم ان انکشافات سے یہ بات تو ثابت ہورہی ہے کہ فوج اس کے سربراہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی، آئی ایس پی آر کے سربراہ اور کئی اعلیٰ افسران براہ راست سیاست میں ملوث تھے جس قسم کی سیاست پاکستان میں ہوتی ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے فوج اور عدلیہ کا تقدس تو مجروح ہوچکا یہ ادارے بھی اب ایک سیاسی فریق ہیں جو کیچڑ عام سیاستدانوں پر اچھالتا ہے وہی ان پر بھی آرہا ہے۔ اس میں سیکورٹی یا غداری کیسی؟؟