قومی اتفاق رائے کیسے ہو؟

1117

حکومت اپوزیشن اور عدلیہ کے درمیان فاصلوں نے ملک کو آئینی اور سیاسی بحران میں دھکیل دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کے انتخابات کو اکتوبر تک ملتوی کرنے کے فیصلے کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے پنجاب اسمبلی کے انتخابات 14 مئی کو کرانے کا حکم دیا۔ پہلے حکومت کو اور پھر اسٹیٹ بینک کو الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے کے فنڈز فراہم کرنے اور صوبائی حکومت کو انتخابات کے لیے سیکورٹی فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔ عدالت عظمیٰ کے مذکررہ فیصلے نے آئین کو تو برقرار رکھا ہے تاہم اْس کے اختیار کردہ طریقہ کار نے تنازع اور تنقید کو جنم دیا ہے عوامی حلقوں اور وکلا برادری نے عدالت عظمیٰ کی اندرونی تقسیم پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ حکومت اور پارلیمنٹ کی جانب سے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی تعمیل نہ کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی ریاست کے تینوں ستون باہم تصادم کی راہ پر گامزن ہیں۔ جس سے ملک میں ہمہ جہتی سیاسی افراتفری اور ادارہ جاتی تصادم بڑھتا جا رہا ہے۔ حکومت اور صدر مملکت کے درمیان، عدالت عظمیٰ اور الیکشن کمیشن کے درمیان اور اب عدلیہ کا حکومت اور مقننہ دونوں کے درمیان جھگڑا جاری ہے۔ یہ سب پی ڈی ایم /پی پی پی اور عمران خان کے درمیان اقتدار کی شدید کشمکش کا شاخسانہ ہے۔ اس محاذ آرائی نے نہ صرف اداروں کو سیاسی میدان جنگ میں تبدیل کر دیا ہے بلکہ سیاسی جھگڑے قانونی لڑائیوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ انتخابات کی تاریخ سمیت وہ مسائل جنہیں سیاسی رہنماؤں کے درمیان بات چیت اور باہمی رضامندی سے حل ہونا چاہیے تھا، عدالتوں میں پہنچے اور عدالتوں نے بھی سیاسی مسائل کو ہاتھوں ہاتھ لے لیا۔ اور جب عدالتوں نے فیصلے سنائے تو کسی نہ کسی فریق نے اْن پر تعصب اور جانبداری کا الزام لگادیا۔
پاکستان کی جمہوریت کے لیے عدالتی و سیاسی تعطل اور سیاست کی خرابی المیہ ہے جب سیاسی تنازعات کو سیاسی طریقوں سے حل نہ کیا جائے۔ جمہوریت کو غیر فعال حالت میں چھوڑ دیا جائے تو پھر سیاسی جماعتوں کو جمہوریت کا راگ الاپنے کی کیا ضرورت ہے۔ جمہوریت کو کام کرنے کے لیے دو اور لو، سمجھوتا اور اتفاق رائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جب سیاسی تقسیم اتفاق رائے کو ممکن نہیں بناتی تو جمہوریت کو نقصان پہنچتا ہے۔ موجودہ زہریلی سیاست اور انتہائی عدم برداشت نے جمہوریت کے خلاف ایسا ماحول پیدا کیا ہے جو جمہوری ثقافت کی ہر علامت کو ختم کر رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے اپنے قانون سازوں کے قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کے غیر دانش مندانہ فیصلے کے بعد پارلیمنٹ ایک ایسی گاڑی بن گئی ہے جسے حکومت عدلیہ کے خلاف استعمال کررہی ہے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو مسترد کرنے کی قرارداد اور اسمبلی میں اس کی مذمت میں جارحانہ تقاریر اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ چیف جسٹس کے فل کورٹ کی تشکیل سے احتراز نے بھی عدالتی فیصلوں پر سوالیہ نشان کھڑا کیا ہے۔ جس نے جمہوریت میں پارلیمنٹ اور عدلیہ کے حقیقی کردار کو گہنا دیا ہے۔ جمہوریت کا جوہر مضبوط اداروں میں پنہاں ہے جن کی آزادی اور فیصلوں کا تمام سیاسی رہنما احترام کرتے ہیں۔ لیکن آج ریاستی اداروں کے ساتھ بڑھتے ہوئے سیاسی تصادم کے بھنور میں عدالت عظمیٰ کی داخلی تقسیم سے عدالتی فیصلوں کا تجزیہ کیا جا رہا ہے کیونکہ عدالت عظمیٰ کے ججوں کے درمیان اختلافات اس کی ساکھ پر دیرپا اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔
جہاں تک الیکشن کمیشن کا تعلق ہے۔ اس کے کردار نے بھی اسے عوامی تنازع کا نشانہ بنا یا ہے۔ اگر ادارے جمہوریت کے بنیادی ڈھانچے کے طور پر کام کرتے ہیں تو ان کی تقسیم اور ہم آہنگی کا فقدان کسی نہ کسی طرح جمہوریت کو کمزور کر دیتا ہے۔ پولرائزیشن اور سیاسی انتشار ملکی اداروں پر اثر انداز ہو رہا ہے اور انہیں ٹوٹ پھوٹ کے خطرے سے دوچار کر رہا ہے۔ اسی طرح حکومت کا بھی عدالت عظمیٰ کے اختیار اور قانونی حیثیت کو کمزور کرنے، اس کے فیصلے کی پاسداری سے انکار اور اپنے حامیوں کو قانونی برادری کے درمیان متحرک کرنا قانون کی حکمرانی کو کمزور کرتا ہے۔ قانون اور آئین کی خلاف ورزی ملک کو بدامنی اور افراتفری کے راستے پر دھکیل دے گی اور بالآخر پی ڈی ایم کی پارٹیوں اور پی ٹی آئی کو اس کی سیاسی قیمت چْکانا پڑے گی۔
ریاست کے ستونوں کے درمیان بگڑتے ماحول میں مہنگائی کے بحران کا شکار عوام کو ایک واضح اشارہ ملتا ہے کہ سیاسی قیادت کو عوامی فلاح سے زیادہ اپنی طاقت کی فکر ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اشرافیہ کی جماعتوں کے درمیان زبردست مقابلہ ہے۔ اس کا عوامی ضروریات یا عوامی فلاح و بہبود سے کوئی تعلق نہیں۔ سروے کے مطابق موجودہ صورتحال پر بڑھتی ہوئی عوامی بے چینی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ 70 فی صد سے زیادہ جواب دہندگان کو لگتا ہے کہ ملک غلط سمت میں جا رہا ہے۔
پولرائزیشن کی ذمے دار ماضی کی تینوں حکومتیں اور اسٹیبلشمنٹ ہے جس کے بدلتے وقتی اشتراک نے سیاست اور معاشرت کو تقسیم در تقسیم کر دیا ہے۔ موجودہ خراب صورتحال کو بحال کرنے کا واحد حل ایک ہی دن فوری انتخابات ہیں جس کے لیے پی ڈی ایم اور پی پی پی کی وفاقی اور صوبائی حکومتیں مستعفی ہو کر ملک کو آئینی، سیاسی اور اقتصادی بحران سے نکلنے کا راستہ دیں اور سیاسی معاملات کو عدالت کے بجائے سیاسی پلیٹ فارم پر حل کریں۔ جماعت اسلامی کی کوششوں کا مرکزی خیال یہ ہے کہ جلد از جلد ایک ہی دن قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات کو ممکن بنانے کے لیے تمام سیاسی جماعتیں یک نکاتی ایجنڈے پرمذاکرات کریں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے ایک ہی دن میں وزیراعظم شہباز شریف اور پھر سابق وزیراعظم عمران خان سے ملاقاتیں کرکے سیاسی ڈائیلاگ کا آغاز کرلیا ہے۔ اب پی ڈی ایم /پی پی پی اور پی ٹی آئی کو چاہیے کہ وہ ملک کے مستقبل روشن کے لیے ’’جیو اور جینے دو‘‘ کی پالیسی پر عمل کریں اور مذاکرات کے لیے سازگار ماحول مہیا کریں اور اعتماد سازی کے لیے اقدامات (CBMs) اْٹھائیں تاکہ مذاکرات کامیاب ہوں۔
مسلم لیگ ن، پی پی پی اور پی ٹی آئی نے مذاکراتی کمیٹیوں کا اعلان کردیا ہے لہٰذا مذاکرات کو سبوتاژ ہونے سے بچانے کے لیے حکومتی جماعتوں اور پی ٹی آئی ایک دوسرے کے خلاف تیز ترین بیان بازی، جارحانہ اور پْر تشدد سیاست بند کریں۔ سوشل میڈیا پر اپنے اپنے کارکنوں کو سیاسی رواداری اور برداشت کی تلقین کریں۔ اعلیٰ عدلیہ مذاکرات اور مکالمہ کی کامیابی تک سیاسی اور آئینی مقدمات پر تحمل کا مظاہرہ کرے اور سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھنے کا موقع دے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں سیاسی کارکنوں کو رہا کرے اور سیاسی مقدمات کے اندراج سے اجتناب کرے۔ اسٹیبلشمنٹ بھی اپنے وعدے کے مطابق نیوٹرل رہے اور نیوٹرل اور غیر سیاسی نظر آئے۔ عدالت عظمیٰ کے تمام ججز آپس کے افتراق کے خاتمہ کے لیے بند کمرہ اجلاس کریں اور یکجہتی اور افہام و تفہیم پیدا ہونے تک نشست جاری رکھیں اور قومی اتفاق کے لیے مذاکرات کے دوران مفاہمت کی فضا بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔
آئین کی بالادستی کا مطلب بااختیار پارلیمنٹ، عدلیہ کے آزادانہ منصفانہ فیصلے، قانون کی عملداری اور گڈ گورننس ہے جبکہ جمہوریت کا مطلب بلا شرکت ِ غیرے اقتدار نہی بلکہ اشتراکِ اقتدار ہے، اس اصول کو تمام سیاسی جماعتوں کو سمجھنا ہوگا اور اس پر عمل بھی کرنا ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کو پاور گیم میں پڑنے کے بجائے قومی اتحاد، قومی ترقی اور روشن مستقبل کے لیے ایک دوسرے کا احترام اور تعاون حاصل کرنا ہوگا۔ سراج الحق سیاسی جماعتوں میں ایک قومی میثاق (National Charter) پر دستخط کروانے میں کامیاب ہو گئے تو یہ اسلامی جمہوری پاکستان کے مستقبل کے لیے ایک بہت بڑا بریک تھرو ہوگا۔