اسلام آباد: پبلک اکاوٴنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے عمران خان کی وزارت عظمی کے دور میں مختلف افراد اور کمپنیوں کو بلاسود 3 ارب ڈالر قرض دینے کے معاملے کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔
سینیٹ کی کمیٹی نے اسٹیٹ بینک سے ریکارڈ اور قرضے حاصل کرنے والوں کے ناموں کی تفصیلات طلب کرلی ہیں۔ چیئرمین کمیٹی نور عالم نے متنبہ کیا ہے کہ اگر ہمیں دستاویزات فراہم نہ کی گئیں تو میں معلومات فراہم نہ کرنے والے وزرات خزانہ اور اسٹیٹ بینک کے افسران کیخلاف ایف آئی آر درج کرواں گا۔
چیئرمین نور عالم خان کی زیر صدارت پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس ہواجس میں ایف آئی اے سے عید کے بعد رپورٹ طلب کرلی گئی۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ پی ٹی آئی دور میں 600 افراد کو 3 ارب ڈالر کے قرضے دیے گئے، اسٹیٹ بینک صفر شرح سود پر قرض لینے پر افراد کی مکمل فہرست دے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق کمیٹی چیئرمین نورعالم خان کا کہنا تھا کہ حیسکول نامی کمپنی کو بھی ایک ارب ڈالر فراہم کیے گئے لیکن فنڈز لینے والی یہ کمپنی بعد میں دیوالیہ ہوگئی، ملکی معیشت تباہ ہے اور یہاں لوٹ مچی ہوئی ہے۔ پراپرٹی، زمین، بینک بیلنس اور گاڑیوں سمیت سب سرکاری تحویل میں لیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ پی اے سی میں حیسکول کی انتظامیہ کو گرفتار کرکے اثاثے سرکاری تحویل میں لینے کی سفارش کی ہے۔ اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ کا جو افسر تعاون نہ کرے مقدمہ درج کیا جائے۔ نور عالم خان نے کہا کہ سابق وزیراعظم یا وزیر خزانہ جو کوئی بھی ملوث ہے رپورٹ دی جائے۔
برجیس طاہر کا کہنا تھا کہ سابق دور میں 850 ارب روپے کے مساوی قرضے دیے گئے، جس طرح ملک کو لوٹا گیا، لوگوں کا پتہ چلنا چاہیے، جس وقت فنڈز دیے گئے ڈالر ریٹ 162 روپے تھا، اب ڈالر 280 سے 290 روپے تک پہنچ چکا ہے۔
نورعالم کا کہنا تھا کہ قرض رضا باقر اور تب کے وزیر خزانہ کے دور میں دیے گئے، پی اے سی کی بائیکو کمپنی سے بھی 44 ارب روہے ریکور کرنے کی ہدایت کر دی گئی۔
اس موقع پر رکن پی اے سی رامیش کمار کا کہنا تھا کہ فنڈز کورونا وباء کے دوران انڈسٹری لگانے کے لیے دیے گئے تھے، فنڈز دینے کا مقصد برآمدات کو فروغ دینا تھا۔