تائیوان خوف کے باوجود چین کا مقابلہ کر رہا ہے

925

کہا یہی جاتا ہے کہ چین تائیوان کی جنگ جب بھی ہوگی یکطرفہ ہوگی لیکن گزشتہ برس اگست میں جب امریکی ایوان ِ نما ئندگان کی اسپیکر میکارتھی کی پیش رو نینسی پیلوسی نے تائیوان جزیرے کا دورہ کیا تھا تو اس کے رد عمل میں چین نے تائیوان کے ارد گرد اپنی سب سے بڑی فضائی اور بحری مشقیں شروع کی تھیں۔ اس وقت چین نے تائیوان کے آس پاس کے پانیوں اور آسمانوں میں جنگی جہاز، میزائل اور جنگی طیارے تعینات کر دیے تھے۔ لیکن ہوا وہی جو امریکا نے چاہتا تھا وہی ہوا اور نینسی پیلوسی تائیوان جاکر رہیں۔ اگر اس مناسبت سے دیکھا جائے تو میکارتھی کے ساتھ تائیوان کی صدر سائی انگ وین میٹنگ پر چین کا ردعمل بہت کم تھا، لیکن پھر بھی تائیوان ہائی الرٹ پر ہے۔
اس بات میں شاید دو رائے نہیں ہے کہ ’’تائیوان بہت زیادہ خوف کے باوجود چین کا مقابلہ کررہا ہے اور چین اپنی پوری کوشش کے باوجود تائیوان کو کسی بھی کام سے روکنے میں یکسر ناکام نظر آتا ہے‘‘۔ تائیوانی صدر تسائی انگ وین نے اپنے گزشتہ برس کے اختتام پر قوم کے نام اپنے ایک پیغام میں کہا، ’’تائیوان جنگ سے صرف اس صورت میں بچ سکتے ہیں، جب ہم جنگ کے لیے تیار ہوں۔ تائیوان کو اپنے دفاع کی صلاحیتیں بہتر بنانا ہیں‘‘۔ 2024ء سے فوجی سروس کی مدت چار ماہ سے بڑھا کر ایک برس کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگ کوئی نہیں چاہتا، ’’مگر میرے ہم وطنو! امن آسمان سے نہیں اترتا‘‘۔ اس کے لیے خود باہر نکلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تائیوان اسی بہادری سے آج بھی اپنے دفاع میں مصروف ہے۔
تائیوان کی صدر سائی انگ وین نے چند دن قبل لاس اینجلس میں امریکی ایوان نمائندگان کے اسپیکر کیون میکارتھی سے ملاقات کی تھی۔ قبل ازیں چین نے فریقین کے درمیان ملاقات کے حوالے سے کئی بارخبردار کیا تھا کہ اور کہا تھا کہ یہ میٹنگ نہیں ہونی چاہیے لیکن ہو گئی۔ تائیوان کی صدر کی امریکی کانگریس کے اسپیکر سے ملاقات کے بعد چین نے تائیوان کے اطراف سمندروں میں اپنے جنگی جہاز بھیجے ہیں۔ بیجنگ نے اس ملاقات سے پہلے ہی اپنے ’سخت رد عمل‘ کے لیے متنبہ کیا تھا۔ تائیوان کی وزارت دفاع نے چھے اپریل 2023ء کو چین نے کہا تھا کہ تائیوان کے آس پاس پانیوں میں چین کے ایک اینٹی سب میرین ہیلی کاپٹر اور تین مزید جنگی جہازوں کی تعیناتی کا پتا چلا ہے۔ تین روز تک جاری مشقوں میں جوہری صلاحیتوں کے حامل میزائلوں سے لیس بمبار طیاروں، بحری جہازوں نے حصہ لیا۔
چینی فوج کے مطابق مشقوں کے تیسرے روز لڑاکا طیاروں نے تائیوان کے قریب اہداف کو نشانہ بنانے کی مشق کی۔ فوج کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ ایچ 6K لڑاکا طیاروں نے تائیوان آئی لینڈ کے قریب مصنوعی کے بجائے اصل اسلحے کے ساتھ اہداف پر حملہ کرنے کی مشق کی۔ مشقوں کے اختتام پر ترجمان چینی فوج کا کہنا تھا کہ تائیوان کے اردگرد چینی فوج نے کئی اہداف مکمل کیے، مشقوں میں حقیقی جنگی حالات میں متعدد یونٹوں کی صلاحیتوں کا جامع تجربہ کیا گیا۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ چینی فوج تائیوان کی آزادی کی کسی بھی صورت اور غیر ملکی مداخلت کی کوششوں کو شکست دینے کے لیے چوکس رہے گی۔
دوسری جانب تائیوانی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ تیسرے روز بھی تائیوان کے قریب چینی فوج کے 59 لڑاکا طیارے اور 11 جنگی بحری جہاز دیکھے گئے۔واضح رہے کہ امریکی اسپیکر کی تائیوانی صدر سے ملاقات کے بعد چین کی جانب سے آبنائے تائیوان میں فوجی مشقیں شروع کی گئی تھیں جس پر امریکا کی جانب سے چین کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ 8 اپریل سے جاری ان مشقوں کو چین نے جوائنٹ سورڈ کا نام دیا تھا۔ ملاقات سے چند گھنٹے قبل ہی بیجنگ نے تائیوان کے قریب پانیوں میں ایک طیارہ بردار جنگی جہاز تعینات کر دیا تھا۔
تائیوان کی وزارت دفاع کہنا ہے کہ جزیرہ تائیوان کو چین سے الگ کرنے والے پانیوں میں تین اضافی جنگی جہازوں کا پتا چلا ہے۔ بیان کے مطابق صبح چھے بجے کے آس پاس تائیوان کے ارد گرد پی ایل کے ایک ائرکرافٹ اور تین جنگی طیاروں کا بھی پتا چلا ہے۔ تائیوان کی ’’مسلح افواج نے صورت حال پر نظر رکھی ہوئی ہے اور فضائیہ، بحریہ کے جہازوں اور زمین سے استعمال کیے جانے والے میزائل سسٹم کو ان سرگرمیوں کا جواب دینے کا کام بھی سونپا گیا ہے‘‘۔ جزیرہ تائیوان کو چین سے الگ کرنے والے پانیوں میں تین اضافی جنگی جہازوں کا پتا چلا ہے وہ جزیرہ تائیوان کو سرزمین چین سے الگ کرنے والے پانیوں میں گشت بڑھا رہے ہیں، تاہم اس کی مزید تفصیلات فراہم نہیں کی تھیں۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تائیوان کی صدر اور امریکی رہنما کے درمیان کیا باتیں ہوئیں؟ جس کو روکنے کے لیے چین اربوں ڈالر خر چ کر کے اپنی فوجی مشقوں کو مکمل کر رہا ہے۔
ایوان نمائندگان کے ریپبلکن اسپیکر کیون میکارتھی نے لاس اینجلس کے قریب سمی ویلی میں واقع رونالڈ ریگن لائبریری میں صدر سائی انگ وین کا خیر مقدم کیا۔ تائیوان کی صدر لاطینی امریکا کے دورے پر تھیں جس کے بعد یہ محض راستے میں تھوڑی دیر کے لیے رک کر ملاقات کا ایک کا ماحول بنایا گیا تھا۔ ملاقات کے دوران میکارتھی نے تائیوان کی صدر کو ’’امریکا کا عظیم دوست‘‘ بتایا۔ ان کا کہنا تھا، ’’میں پر امید ہوں کہ ہم امریکا اور تائیوان کے لوگوں کے لیے اقتصادی آزادی، جمہوریت، امن اور استحکام کو فروغ دینے کے لیے مل کر کام کرنے کے راستے تلاش کرتے رہیں گے‘‘۔ اسپیکر نے امریکا اور تائیوان کے درمیان ’’دوستی‘‘ کو ’’آزاد دنیا کے لیے گہری اہمیت کا معاملہ‘‘ قرار دیا۔ صدر سائی نے میکارتھی کی مہمان نوازی کو کیلی فورنیا کی دھوپ کی طرح پر جوش بتایا۔ سائی نے کہا، ’’ان کی موجودگی اور غیر متزلزل حمایت تائیوان کے لوگوں کو یقین دلاتی ہے کہ ہم الگ تھلگ نہیں اور تنہا بھی نہیں ہیں‘‘۔
سوال اب بھی یہی ہے کہ چین تائیوان کی جنگ جب بھی ہوگی یکطرفہ ہو گی؟اس سلسلے میں روس کا یوکرین پر حملے کو بھی مثال بنایا جاسکتا ہے۔ اس جنگ میں یوکرین کی مزاحمت نے روس جیسی طاقت ور قوت کو مشکل میں ڈال دیا۔ ابتدا میں یہی کہا جا رہا تھا کہ یوکرین پر روسی حملے کا مطلب یوکرین پر قبضے ہو گا، تاہم نتیجہ اس کے برعکس نکلا۔ یوکرینی فوج کی جانب سے شدید مزاحمت اور ناٹو ممالک کی زبردست امداد نے اس جنگ کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا۔ تائیوانی وزیرخارجہ جوزیف وو کے مطابق، ’’یہ جنگ تائیوانی عوام کے لیے ایک مثال تھی۔ ہم عالمی برادری پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم بھی اپنے ملک کے دفاع کے لیے اتنی ہی بہادری سے لڑ سکتے ہیں‘‘۔ اس بابت بین الاقوامی پیغام بہت اہمیت کا حامل ہے، تائیوان پر چینی حملے کی صورت میں تائیوانی مزاحمت فقط اس صورت میں ممکن ہے، جب بین الاقوامی برادری تائیوان کا ساتھ دے، خصوصاامریکا۔