چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

842

اسرائیل نے ایک مرتبہ پھر فلسطین کے عوام پر دہشت گردانہ حملہ کرکے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ملک نہیں بلکہ درندوں اور دہشت گردوں کا گڑھ ہے جس کا جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دینا بہت ضروری ہو گیا ہے، بصورتِ دیگر وہ پورے مشرقِ وسطیٰ کے لیے ایک خطرہ بنا رہے گا اور پورے خطے کا امن کسی وقت بھی بہت بڑے فتنے و فساد کا شکار ہو کر رہ جائے گا۔ تمام مسلم ممالک ایک عرصے سے صرف قراردادیں پاس کرنے اور مذمتی بیانات داغنے کے سوا کبھی کچھ کرتے نظر نہیں آئے جس کی وجہ سے ان دہشت گردوں کے حوصلے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے اب اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ یہ عبادت اور نمازوں میں مصرف مسلمانوں کو بھی بخشنے کے لیے تیار نہیں اور جب چاہتے ہیں، جہاں چاہتے ہیں ان کے خون سے ہاتھ رنگنے سے گریز نہیں کرتے۔ حسب سابق اس مرتبہ بھی مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی نے اسرائیل کی غاصبانہ پالیسیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل القدس کے تشخص کو مٹانے کی مذموم کوششوں سے باز رہے۔ العربیہ نیوز کے مطابق اسلامی تعاون تنظیم نے مسجد اقصٰی میں نمازیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل القدس کے تشخص کو مٹانے کی کوشش کر رہا ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ او آئی سی نے دو ٹوک الفاظ میں اسرائیل پر واضح کیا کہ القدس مقبوضہ فلسطینی کا اٹوٹ انگ اور فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہے اور مسجد اقصیٰ اپنے پورے حصے کے ساتھ صرف مسلمانوں کی خالص عبادت گاہ ہے۔ تنظیم کے سیکرٹری جنرل نے اسرائیل کو خبردار کیا کہ مسجد اقصیٰ کی تاریخی اور قانونی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کسی بھی کوشش سے باز رہے۔ جہاں اسرائیل ان دنوں سنگین جرائم اور خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو رہا ہے۔ او آئی سی کے سیکرٹری جنرل نے مزید کہا کہ اسرائیل مقبوضہ فلسطین اور بالخصوص مسجد اقصیٰ میں تشدد اور کشیدگی کو ہوا دے کر خطے کی سلامتی اور استحکام کو داؤ پر لگا رہا ہے۔ خیال رہے یہ بات جدہ میں ہونے والے اسلامی تعاون تنظیم کی اوپن اینڈ ایگزیکٹیو کمیٹی کے ایک غیر معمولی اجلاس کے دوران کی گئی۔ اجلاس میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ اسرائیلی پالیسیاں شہر کے مقدس مقامات کی تاریخی اور قانونی حیثیت کو متاثر کر رہی ہیں جو عالمی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف ہیں۔ آج سے کئی برس قبل محترم نعیم صدیقی (مرحوم) نے اس موقع پر، جب لعینوں نے مسجد ِ اقصیٰ کو آگ لگا دی تھی کہا تھا کہ
لعنت خدا کی گردشِ لیل و نہار پر
اقصیٰ میں آکے آگ لگادی یہود نے
پھر مزید یوں فرمایا تھا کہ
یروشلم یروشلم تو اک حریمِ محترم
ترے ہی سنگِ در پہ آج منہ کے بل گرے ہیں ہم
تجھے دیا ہے ہاتھ سے بزخمِ دل بچشمِ نم
پھر ایک بار آئیں گے یہ جاں نثار آئیں گے
اجل کے دوش پر سوار شہسوار آئیں گے
بصد وقار آئیں گے ترے وقار کی قسم
وہ دن اور آج کا دن، اس قبلہ اول میں کیا کچھ نہیں ہوتا رہا، کس کس طرح یہاں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی رہی، کتنی مرتبہ بمباریاں کرکے معصوم جانوں کو تلف کیا جاتا رہا، کیسے کیسے عذاب شہری علاقوں پر توڑے گئے اور خواتین کی عزتوں کو تار تارکیا گیا لیکن آج تک اسرائیل کے چاروں طرف آباد مسلمان ممالک کے کروڑوں لوگ اور دنیا بھر کے اربوں مسلمان اپنے منہ سے صرف مذمتی بیان پھوڑنے کے علاوہ کبھی کچھ کرتے نظر نہیں آئے۔ بے شک کسی بھی دوست ملک کے اندر جا کر کسی دشمن ملک کے خلاف کارروائیاں کرنا بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے لیکن کیا پوری دنیا میں بین الاقوامی قوانین کی پابندی کرنا مسلمان ممالک پر ہی فرض ہے؟۔ یہ ہے وہ سوال جس کو میں دنیا سے نہیں دنیا کے سارے مسلمان ممالک اور خاص طور سے حکومت پاکستان، پاکستان کے دینی گروہوں اور جماعتوں سے ضرور کروں گا بھی اور ان سے جواب بھی چاہوں گا۔
ہمارے پڑوسی مسلمان ملک افغانستان میں جب روس نے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے افغان سر زمین پر اپنے خونیں پنجے گاڑنے کی کوشش کی تھی تو پوری دنیا کے مسلمانوں کا خون کھول اٹھا تھا اور دنیا کے نہ جانے کتنے مسلم ممالک نے اپنے اپنے جانباز افغانستان محض اس لیے بھیجے تھے تاکہ روس کے مذموم عزائم کو خاک میں ملایا جاسکے۔ پاکستان نے اس وقت وہ کردار ادا کیا جو ایک غیور مسلمان ملک کو ادا کرنا چاہیے تھا۔ اس نے نہ صرف افغانستان میں آنے والے مجاہدین کی مدد کی بلکہ پاکستان میں موجود ایسے جوانوں کے حوصلوں کو بھی بڑھایا جو اپنے مسلمان افغان بھائیوں کی مدد کرنا چاہتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے مسلمان ممالک اور پاکستان کی اس مداخلت پر دنیا کے کسی کونے سے مخالفت میں کوئی آواز بھی نہ اٹھائی گئی جو اس بات کا کھلا ثبوت تھا کہ اگر کوئی ملک بین الاقوامی قوانین کو توڑتے ہوئے کسی دوسرے ملک کے خلاف جارحیت پر اتر آئے تو اس کے خلاف عملاً ردِ عمل کا اظہار جرم نہیں بلکہ قابل ِ ستائش عمل ہے۔ اگر روس کی مداخلت پر افغانستان کے عوام کی مدد کرنا اس وقت جرم نہیں تھا تو پھر دنیا میں جہاں جہاں بھی حکومتیں یا بیرونی طاقتیں کسی ملک کے امن و عمان کو تار تار کرنے پر اتر آئیں تو کسی بھی ملک کی اس جارحیت کے خلاف مداخلت کس قانون کے تحت بین الاقوامی جرم قرار دی جاسکتی ہے۔
لگتا ہے کہ دنیا کے کچھ طاقتور ممالک کے نزدیک کہیں وہی کام، مداخلتیں اور کارروائیاں جائز سمجھی جاتی ہیں اور کہیں ویسی ہی کارروائیاں جرائم کی فہرست میں ڈال دی جاتی ہیں۔
میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ جب تک مسلمان ممالک ایسی طاقتوں سے خوف زدہ ہوتے رہیں گے، خوف زدہ کیا جاتا رہے گا لہٰذا ضروری ہے کی میانمر ہو، فلسطین ہو یا کشمیر، ان پر ہونے والے ظلم کے خلاف کھل کر اور بنا خوف سامنے آیا جائے اور اس کے بعد معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا جائے۔ مرنا صرف ایک ہی بار ہے بار بار نہیں جبکہ دڑتے رہنا زندگی بھر کا روگ بن سکتا ہے۔ تمام مسلم ممالک بشمول پاکستان، ان سب کو اب کھل کر سامنے آنا چاہیے اور جہاں جہاں بھی مسلمان مشکل میں ہیں، ان کی مدد دامے درمے قدمے اور سخنے کرنا اب وقت کی ضرورت ہے ورنہ یاد رکھیں
’’وہ‘‘ آج زد پہ اگر ہیں تو خوش گمان نہ ’’ہوں‘‘
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں