’’راشن کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچنے سے 2 افراد ہلاک، کہیں دس کہیں بارہ افراد ہلاک‘‘ آج کل سوشل، پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں یہ عام سی خبر بن کر رہ گئی ہے، بڑی بڑی تصاویر میں حصول راشن کی لمبی قطاریں، ایک آٹے کے پیالے کو جھولی میں بھر لینے کے لیے غریب اپنے دریدہ دامن کو وا کیے بڑی حسرت و یاس سے آٹا تقسیم کرنے والوں کو دیکھ رہا ہے، بزرگ، بچے، خواتین سب کے سب اس طرح قطاریں توڑ تاڑ کے ہاتھ پھیلائے کھڑے ہوئے ہیں کہ جیسے آج نہ ملا تو گویا زندگی رک جائے گی وقت ختم ہو جائے گا مہلت عمل ہی راشن اور آٹے سے جڑی ہوئی ہے جو نہ ملا تو ختم۔ غربت، بھوک، افلاس فاقے کوئی ایسی نئی اور انہونی بات تو نہیں کہ جس کے لیے کہا جائے کہ ایک نئی شے ایجاد ہوئی ہے جس کا نام ’’غربت‘‘ ہے، یا بھوک سے بے حال ہونا، مفلسی کا شکار ہونا ہی کچھ عجیب سا ہے؟ بھوک، پیاس، فقر و فاقہ، تنگی، ترشی، بدحالی، نارسائی و بے کسی یہ تمام کیفیات تو ازل سے ہیں اور ابد تک رہیں گی یہ سب تو کیفیات کے نام ہیں جیسے سردی گرمی، نرمی، سختی، غصہ، افسردگی، پیار، محبت کہ جو کبھی ایک جیسی نہیں رہتیں ہمیشہ ان کیفیات میں ردو بدل ہوتا رہا ہے اس کی پیمائش کے کے کوئی پیمانے بھی نہیں ہیں شعب ابی طالب کی گھاٹی میں یہ بھوک چمڑے کے ٹکڑے اور درختوں کے پتے چبا کر بھی مٹتی نظر آتی ہے مگر فائیو اسٹار ہوٹل کے باہر لگی قطار کے فقیروں کی بھوک پیپسی کے کین اور برگر، پیزا، ڈونٹ، اور لزانیہ کی خیرات سے بھی نہیں مٹتی بلکہ امریکی ڈیمانڈ کی طرح ڈو مور کا مطالبہ بن کر دینے والی اشرافیہ کے گریبانوں تک کو کھسوٹ ڈالنا چاہتی ہے۔ یہ بھوک وقت کے پیغمبر اور ان کے جگری صحابہ کو تین چار وقت سے غذا کے ایک ذرے تک کو نہ پاکر لگے تو حجروں سے باہر نکل کر روٹی کے ایک ٹکڑے ٹکڑے کی تلاش میں روٹی مل جانے پر اس ٹکڑے کا بھی آدھا ٹکڑا نبی کریمؐ کی بیٹی فاطمہ کو پہنچا دیا جاتا ہے کہ وہ تین دن کے فاقے سے ہے یہ وہی بھوک اور فاقہ ہے جس میں مبتلا ہونے کا دعویٰ کرنے والے صبر و شکر کا دامن چھوڑ ہوس میں مبتلا ہو کر اس بھوک کے عفریت تلے کچلے جا رہے ہیں۔
وہ بھوک جو کل غزوہ خندق درپیش آنے پر کئی وقت کے فاقوں کے بعد کمریں دہری ہو جانے کے باوجود ایمان بیچ ڈالنے کے بجائے پیٹ پر دو دو اور ایک ایک پتھر باندھنا پسند کرتی تھی؟ بدر و احد کے میدان کی وہ صبر کی مثال کہ لب مرگ بھی چھینا جھپٹی تو دور کی بات اپنی پیاس پر دوسرے کی پیاس کو ترجیح دیتے ہوئے جام شہادت نوش کر جائے۔ کیا وجہ ہے کہ کل جو بھوک پیاس و معاشی ضروریات و حاجات ایثار و قربانی کے قریب کر دیا کرتی تھی روزے کے مقاصد میں دوسروں کے لیے ایثار و قربانی کرنا شامل تھا بلکہ وہ روزہ ایثار و قربانی ہی سکھاتا تھا اور یہ تیس دن کی ٹریننگ بقیہ تین سو پینتیس دنوں پر محیط ہو جاتی تھی ماہ صیام سے مومنین تقویٰ کشید کرکے دوسرے کی بھوک کا احساس طاری کیا کرتے تھے کہ جو دوسرے کی ضرورت کو اپنی ضروریات پر ترجیح دینے میں معاون ثابت ہوا کرتی تھی مگر آج صورتحال یہ ہے کہ مفت تقسیم راشن کی دوڑ میں راشن کے تین چار پیکٹوں کو گھروں میں ’’ذخیرہ‘‘ کرلینے کے بعد مزید کے لیے قطار میں لگ کر زندگی کی بازیاں ہاری جا رہی ہیں جہاں امراء برانڈڈ اشیاء کی نام نہاد سیل پر ایک دوسرے کو دھکیل کر سب کچھ خود پا لینا چاہتے ہیں تو غرباء راشن کی مفت تقسیم پر زیادہ سے زیادہ کی ہوس میں جان سے جا رہے ہیں۔ جہاں کامیابی اور اطمینان اپنا سب کچھ دان کرکے اللہ اور اس کے نبیؐ کو اپنے لیے کافی سمجھنے میں تھی کہ ربّ العالمین نے بہت لاڈ سے اس کامیاب فرد سے پوچھا ’’بتا تیری رضا کیا ہے‘‘ آج کامیابی ’’لوٹ سیل‘‘ میں پنہاں سمجھی جارہی ہے۔
ابھی کل ہی ہمارے گھر کام کے لیے آنے والی ماسی ہنس ہنس کر بتارہی تھی ’’باجی میرے ساتھ ہی کام کرنے والی کی تو اس رمضان ڈھیر کمائی ہوئی جہاں وہ کام کرتی ہے وہاں سے بھی راشن ملے پھر روڈ پر، گلی میں جتنی بار راشن کی تقسیم کے لیے گاڑیاں آئیں وہ اور اس کے بچے سب سے پہلے الگ الگ راشن لے لیتے ہیں اس نے اپنے بچوں کو زبردست ’’ٹرین‘‘ کیا ہوا ہے ایک بار میں اس کے ساتھ گئی مجھے آگے بڑھ کر مانگنا ہی نہیں آیا میں دوپٹے کا پلو منہ میں ڈال کر دیکھتی رہی کہ ابھی مجھے بھی کوئی تھیلا دے دے گا مگر وہاں سب نے اس طرح گاڑی والے کو ’’جھلا‘‘ (پاگل) بنایا کہ سب خود ہی خود بٹ گیا کسی کو بانٹنا ہی نہیں پڑا اور میں خالی ہاتھ گھر واپس آ گئی توبہ توبہ باجی بس گھروں میں جہاں کام کرتے ہیں وہیں سے عزت کے ساتھ مل جاتا ہے تو بہت ہوجاتا ہے مجھ سے نہیں ہوتی یہ چھینا جھپٹی‘‘۔ وہ کانوں کو ہاتھ لگا کر بولی۔
اسی طرح ایک متوسط گھرانے کی خاتون سے بات ہوئی کہ جن کے مالی حالات زکوٰۃ دینے والے تو نہیں تھے تاہم انہیں بھی اس ماہِ مبارک میں صدقہ و خیرات دے کر نیکیاں کمانی ہوتی ہیں ایک بار کی بات بتاتی ہیں کہ اپنے رمضان المبارک کے راشن کپڑے اور دیگر ضروریات کو کم کرکے کوشش ہوتی ہے کہ سارا سال تو اچھا کھاتے ہی ہیں رمضان المبارک میں بچت کر کے کسی غریب کو بھی ان نعمتوں میں حصہ دار بنا لیں میرے بچے عام گھرانوں کی طرح افطاری میں شربت، جوس، دہی بڑے، فروٹ چاٹ مانگتے تھے انہیں پیار سے سمجھا کر آمادہ کیا کہ ہم سارا سال یہ سب کھا ہی لیتے ہیں صرف رمضان المبارک میں ایثار کر کے یہ سب غریبوں کے لیے مختص کر دو۔ بچے مان گئے اور تب سے ہم سادہ سحری اور افطاری کرتے ہیں مگر ایک اچھی سحری اور افطاری کی اشیاء پیکٹ بنا بنا بانٹ دیا کرتے ہیں اسی طرح ایک غریب ماسی کے گھر میں یہ پیکٹس دینے کے لیے گئے تو وہ خود گھر میں موجود نہ تھی مگر اس کے بچے تھے ہم گھر کے اندر چلے گئے کہ وہ آتی ہے تو اس سے مل کر چلے جائیں گے گھر میں داخل ہو کر معلوم ہوا کہ گویا ایک چھوٹی سی پرچون کی دکان میں آ گئے ہیں جگہ جگہ راشن کے تھیلے اور شربت کی بوتلیں لائن سے لگی ہوئی تھیں معلوم کرنے پر پتا چلا یہ سب کام کرنے کی جگہوں سے بھی ملا اور جگہ جگہ آنے والے راشن ٹرکوں اور گاڑیوں کے پیچھے ’’محنت‘‘ کرکے بھی حاصل کیا گیا ہے۔ یہ مشاہدہ صرف میرا ہی نہیں آپ سب بھی اپنی یاد داشت کے خزانے کھنگالیں تو ایسے بہت سے کردار آپ کو بھی یاد آ جائیں گے۔
(جاری ہے)