چین‘ امریکا سرد جنگ کی حقیقت

728

میرے خیال میں ہم ایک نئی سرد جنگ کے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ امریکا کی دونوں سیاسی جماعتوں کے لیڈر چین کے خلاف سخت گیر موقف اپنائے ہوئے ہیں۔ تائیوان کے مسئلے پر ممکنہ جنگ کا بھی خدشہ ہے۔ چین کے صدر شی جن پنگ پُرعزم ہیں کہ یہ صدی چین کی صدی ہو گی۔ میرے پاس حیران ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ یہ سرد جنگ کیا شکل اختیار کرے گی‘ کیا پچھلی سرد جنگ کی طرح یہ بھی امریکی سوسائٹی کو تبدیل کر سکے گی؟ اس سرد جنگ کے حوالے سے میں نے ایک بات نوٹ کی ہے وہ یہ کہ اس نے اسلحے اور معیشت کی دوڑ سے ہوا نکال دی ہے۔ اس کشیدگی میں اب تک سب سے زیادہ فوکس مائیکرو چپس پر رہا ہے جو امریکا کی کار اور فون انڈسٹری کو چلانے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے لیکن یہ میزائل کو بھی گائیڈ کرتی ہے جبکہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس سسٹم کو ٹریننگ دینے کے لیے بھی یہ ضروری ہے۔ مستقبل میں جسے مائیکرو چپس کی مینو فیکچرنگ پر بالادستی حاصل ہو گی‘ وہی مارکیٹ اور میدانِ جنگ میں غالب رہے گا۔
دوم یہ کہ اب جیو پالیٹکس یکسر مختلف ہو گئی ہے۔ جیسا کہ کرس ملر نے اپنی کتاب ’’چپ وار‘‘ میں لکھا ہے کہ مائیکرو چپ کے شعبے پر چند انتہائی کامیاب بزنسز کی بالا دستی قائم ہے۔ نوے فی صد سے زائد جدید ترین مائیکرو چپس تائیوان کی ایک کمپنی بنا رہی ہے۔ ہالینڈ کی ایک کمپنی تمام لیتھو گرافی مشینیں بنا رہی ہے جو انتہائی جدید معیار کی چپس بنانے میں استعمال ہو رہی ہیں۔ سانٹا کلارا کیلی فورنیا کی دو کمپنیوں کی گرافک پروسیسنگ یونٹس ڈیزائن کرنے پر اجارہ داری ہے جو ڈیٹا سینٹرز میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی ایپلی کیشنز چلانے کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ یہ چوک پوائنٹس چین کے لیے ناقابل ِ برداشت صورت حال کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگر مغرب چین کی انتہائی جدید ٹیکنالوجی تک رسائی کا راستہ بلاک کر سکتا ہے تو یہ چین کا راستہ بھی روک سکتا ہے؛ چنانچہ چین کی کوشش ہے کہ وہ چپس کی مینوفیکچرنگ میں خود کفالت کا مرحلہ طے کر لے۔ امریکا کی نیت یہ ہے کہ وہ چپس کی موجودہ استعداد کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ خودکفیل ہو جائے اور چپس کا ایک ایسا عالمی اتحاد قائم کرے جس میں چین شامل نہ ہو۔ امریکا کی خارجہ پالیسی میں انہی خطوط پر بڑی تیزی سے رد و بدل کیا جا رہا ہے۔ دو سابقہ حکومتوں کے ادوار میں امریکا نے انتہائی جارحانہ انداز میں وہ سافٹ ویئر ٹیکنالوجی اور آلات حاصل کرنے کا چین کا راستہ روکنے کی کوشش کی ہے جن کی اسے جدید چپس بنانے کے لیے لازمی ضرورت ہے۔ جوبائیڈن حکومت نہ صرف چین کی ملٹری کمپنیوں بلکہ تمام چینی کمپنیوں پر پابندی لگا چکی ہے۔
میں یہ دیکھ کر اور بھی حیران ہوں کہ یہ سرد جنگ داخلی سیاست کو کس طرح ایک نئے قالب میں ڈھال رہی ہے۔ اگر 1791ء میں الیگزینڈر ہیملٹن کی رپورٹ آن مینوفیکچرز کا سہارا لیا جائے تو ہمیشہ ایسے امریکی موجود رہے ہیں جو صنعتی پالیسی کو سپورٹ کرتے رہے اور اس مقصد کے لیے حکومت کو استعمال کرکے نجی معاشی شعبے کو مضبوط کرتے رہے۔ مگر گورننگ کی یہ اپروچ محض ایک حد تک ہی استعمال ہوتی ہے۔ جب بات گرین ٹیکنالوجی اور چپس کی ہو تو اسے امریکی سیاست میں ایک مرکزی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ گزشتہ سال کانگرس نے چپس ایکٹ کو پاس کیا تھا اور گرانٹس، ٹیکس کریڈٹس اور دیگر سبسڈیز کے لیے باون ارب ڈالرز رکھے گئے تھے تاکہ امریکی چپس کی پیداوار کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔
آنے والے برسوں اور عشروں کے دوران چین خود اپنی صنعتی پالیسی پروگراموں میں بھاری رقوم کی سرمایہ کاری کرنے والا ہے جس میں جدید ٹیکنالوجی کی وسیع رینج شامل ہے۔ سینٹر فار اسٹرٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ایک تجزیہ کار کے تخمینے کے مطابق چین پہلے ہی امریکا کے مقابلے میں اپنی جی ڈی پی کے تناسب سے بارہ گنا زیادہ وسائل اپنے صنعتی پروگراموں پر خرچ کر رہا ہے۔ آنے والے برسوں میں امریکی رہنمائوں کو یہ تجزیہ کرنا پڑے گا کہ ان کی یہ سرمایہ کاری کس قدر موثر ہے اور اس پر کیسا ردِعمل ظاہر کرنا ہے۔ یہاں تک کہ پچھلی سرد جنگ کے مقابلے میں اس سرد جنگ کا آغاز ٹیکنالوجی کی اشرافیہ کرے گی۔ غالباً دونوں ممالک اپنے مالی وسائل کا ایک بھاری حصہ اپنے سب سے زیادہ تعلیم یافتہ شہریوں پر خرچ کرنے والے ہیں جو غصے اور اشتعال انگیزی کے دورمیں انتہائی خطرناک صورت حال ہے۔ آپ پہلے ہی سیاسی دراڑوں کا ایک نیا سلسلہ دیکھنا شروع کر دیں گے۔ اس سینٹر میں آپ کو نیو ہیملٹونین افراد بھی مل جائیں گے جنہوںنے چپ ایکٹ کو سپورٹ کیا تھا۔ ان میں بائیڈن حکومت اور 17 ٹرمپ مخالف ریپبلکنز بھی شامل ہیں، جنہوں نے ڈیموکریٹس کے ساتھ مل کر سینیٹ میں چپ ایکٹ کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ دائیں بازو میں ایسی مقبول سیاسی شخصیات شامل ہیں جو چین کے معاملے میں انتہائی سخت گیر اندازِ فکر کی حامل ہیں خاص طور پر اس وقت جب کوئی معاملہ ملٹری سے متعلق ہو مگر وہ صنعتی پالیسی پر یقین نہیں رکھتیں۔
ہمیں اتنی بھاری رقم صرف اشرافیہ پر ہی کیوں خرچ کرنی چاہیے؟ آپ کس بنا پر سمجھتے ہیں کہ حکومت مارکیٹ کے مقابلے میں زیادہ اسمارٹ اور چالاک ہے؟ بائیں بازو میں وہ عناصر ہیں جو صنعتی پالیسی کو اپنے ترقی پسندانہ اہداف کے حصول کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ بائیڈن حکومت نے ان کمپنیوں کے لیے کئی احکامات جاری کر رکھے ہیں جنہیں چپس ایکٹ کی سپورٹ دستیاب ہے۔ یہ تمام احکامات بزنسز کو مجبور کر دیں گے کہ وہ ایک ایسا طرزِ عمل اپنائیں جس کے ذریعے بہت سی ترقی پسندانہ ترجیحات کا تعین ہو سکے، مثلاً چائلڈ کیئر پالیسی، یونین سازی میں اضافہ، ماحولیاتی اہداف، نسلی عدل و انصاف وغیرہ۔ بجائے اس کے کہ پورے پروگرا م کا مقصد صرف چپس کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہو، ہر چیز فوری اور بیک وقت ہونی چاہیے۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ جوں جوں سرد جنگ کی شدت میں اضافہ ہو گا ہماری سیاست میں بھی زیادہ سنجیدگی کا عنصر بڑھتا جائے گا۔ جب پچھلی سرد جنگ کے دوران امریکی شہری الیکشن میں ووٹ ڈالنے گئے تھے تو انہیں یہ احساس ہوا کہ ان کا یہ ووٹ ان کے لیے زندگی اور موت کا معاملہ بھی ہو سکتا ہے۔ کچھ اس سے ملتا جلتا احساس دوبارہ بھی جنم لے سکتا ہے۔ اس عہد میں حکومت چلانے کے لیے ہمیں تجربہ کار سیاست کا ایک غیرمعمولی معیار درکار ہوگا تاکہ صنعتی پروگرام کو چلایا جا سکے۔ خاص طور پر تجارتی جنگیں شروع کیے بغیر معیشت کو ڈی گلوبلائز کیا جا سکے تاکہ چین کی تضحیک کیے بغیر اسے مقابلے سے آئوٹ کیا جا سکے۔
(بشکریہ: نیویارک ٹائمز و دنیا، مترجم: زاہد رامے)