…اب چاہے چاند ہو یا نہ ہو

481

دنیا کے خطے پر ابھرنے والا ایک ایسا ملک جس کو صرف اور صرف اللہ کے نام پر حاصل کیا تھا، اپنے وجود کے پہلے روز سے ہی اللہ سے کیے گئے وعدے سے انحراف کے راستے پر ایسا گامزن ہوا کہ 75 سال گزرنے کے باوجود بھی اللہ سے رجوع کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون پر چلنے کے بجائے مسلسل ان ہی کے آئین و قوانین کی پیروی کیے جانا جن سے نجات حاصل کرنے کی پاداش میں 20 لاکھ سے زیادہ انسانی جانیں قربان کرنا پڑیں، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آزادی کے نام پر پہلے سے بھی کہیں بڑھ کر غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈال لینے کی ضرورت ہی کیا تھی۔
کہا جاتا ہے کہ ایک اور ریاست بھی مذہب کے نام پر وجود میں آئی تھی جس کو اسرائیل کہا جاتا ہے۔ بات بے شک غلط بھی نہیں لیکن پاکستان کے قیام اور اسرائیل کی ریاست کے بن جانے میں بنیادی فرق یہ ہے کہ پاکستان ہندوؤں اور فرنگیوں سے لڑ کر اور لاکھوں جانوں کی قربانیاں دے کر حاصل کیا گیا تھا جبکہ یہودیوں کو دنیا کی بڑی طاقتوں نے باقائدہ لاکر بسایا تھا اور یہی نہیں کہ ان کو عربوں کے بیچ بسایا گیا تھا بلکہ ساری طاغوتی طاقتیں آج تک ان کی پشت پناہی بہت کھل کر اور بھرپور انداز میں کر رہی ہیں۔ اسرائیلیوں نے اپنے لیے ایک الگ خطہ زمیں کسی قربانی کے بغیر حاصل کیا تھا اور جس نام پر حاصل کیا تھا اس کے فروغ کے لیے وہ آج دن تک مسلسل کام کر رہے ہیں اور اپنی عبرانی زبان اور اپنے دین کے ابلاغ کے لیے مسلسل جدو جہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
حال یہ ہے 75 برس گزر جانے کے باوجود بھی نہ صرف یہ کہ جن مقاصد کے لیے پاکستان بنایا گیا تھا، ان کے حصول کے لیے کچھ مثبت قدم اٹھائے جاتے، یہاں وہ ماحول بنا کر رکھا گیا کہ دنیا میں صرف پاکستان ہی کے نہیں، دنیا بھر کے مسلمان ایک ہنسی مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔ دنیا اسلام کی جانب راغب ہونے کے بجائے لفظ ِ اسلام ہی سے کراہیت محسوس کرنے لگی ہے۔
پاکستان میں کوئی ایک ایسا طبقہ بھی نہیں بچا جو ہر قسم کی طاغوتی برائیوں کا شکار نہ ہو یہاں تک کہ علمائے کرام تک گلے گلے تک مصلحتوں کی دلدل میں دھنسے ہوئے نظر آتے ہیں اور دن رات اسلام کے فروغ کے بجائے مغرب پرستی کا اس بری طرح شکار ہو چکے ہیں کہ انہیں مغربی جمہورت بھی ’’اسلامی‘‘ دکھائی دینے لگی ہے جس کی وجہ سے وہ جمہوریت کو استحکام دینے کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار و آمادہ رہتے ہیں۔ کارو بار کی بنیاد سود پر ہے، تقریبات کی ہر طرز غیر مسلمانہ ہے، نکاح مساجد میں ادا کرنے کے بعد ہر تقریب میں ہر قسم کا طوفانِ بد تمیزی جائز تصور کیا جاتا ہے، ہر قسم کا میڈیا، بالخصوص الیکٹرونک میڈیا رات دن فحاشی و عریانی پھیلانے میں لگا ہوا ہے، دین کے خلاف کھلم کھلا بکواس ہماری تہذیب کا جزو لاینفک بنتا چلا جا رہا ہے، خواتین کو آزادی ہے کہ وہ جس قسم کے چاہیں بینرز ہاتھوں میں تھام کر، اپنے والدین، شوہروں اور بچوں کے سامنے جس قسم کی چاہیں بیہودہ گوئی کر سکتی ہیں اور اگر کوئی غیرت مند ان کو روکے ٹوکے تو پھر اس کی زندگی کو اس حد تک تلخ بنا کر رکھ دیا جاتا ہے کہ وہ جیتے جی مرجانے سے بھی بری حالت میں پہنچ جاتا ہے۔ اللہ کے احکامات سے بغاوت، ہر قسم کی فحش گوئی کو جائز بنالینا، خواتین کو بے لگام چھوڑ دینا اور میڈیا کو بالکل برہنہ کردینے کا نتیجہ کچھ اس طرح سامنے آنے لگا ہے کہ ہمارے علمائے کرام تک کی آنکھیں دنیوی چمک کے آگے خیرہ ہو کر رہ گئی ہیں جس کی نتیجے میں وہ جرأتوں کے بجائے مصلحتوں کا شکار نظر آنے لگے ہیں۔
رمضان کا چاند ہو یا عید کا، خصوصاً جس کا اعلان مہینے کی 29 تاریخ کو کیا جاتا ہے، شاید ہی کبھی رویت ِ عام کی بنیاد پر کیا جاتا ہو، 99 فی صد ایسا اعلان گواہیوں پر کیا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چاند دیکھنے والی کمیٹی کے ایک ہزار کے قریب عملے کو وہ کون سی سہولت ہے جو چاند دیکھنے کے لیے ممد اور معاون ہو، فراہم نہیں ہوتی۔ پاکستان کے وہ کون کون سے بڑے شہر ایسے نہیں ہیں جہاں اس کمیٹی کے ارکان ہر قسم کی جدید سہولتوں کے ساتھ مناسب ترین مقامات پر نہیں بٹھا دیے جاتے۔ جب اتنی سہولتوں کے ساتھ یہ افراد اپنی آنکھوں سے خود چاند نہیں دیکھ پاتے۔
چاند کی پیدائش کی تصدیق تو محکمہ موسمیات والے بھی کر سکتے ہیں اور پورے سال ہی کے نہیں، تاقیامت ایسے چارٹ بھی بنائے جا سکتے ہیں جس میں درست شمار کے ساتھ چاند کی پیدائش دکھائی جا سکتی ہے۔ چاند ہونے کے باوجود بھی اگر مطلع ابر آلود ہونے یا شدید گرد و غبار کی وجہ سے نظر نہ آ سکے تو نہ ہی رمضان کے روزوں کا آغاز کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی عید منائی جا سکتی ہے۔ جب یہ بنیادی اصول آپؐ کے زمانے سے طے کر دیا گیا ہے تو ہم میں سے کسی کی کیا جرأت ہو سکتی ہے کہ وہ اس کی خلاف ورزی پر کمر بستہ ہو جائے۔ آپؐ کے زمانے میں گواہیوں پر رمضان اور عید منائی بھی گئی ہے اور یہ بھی ہوا ہے کہ گواہی دینے والوں سے فرمایا گیا کہ اگر انہوں نے چاند دیکھ لیا ہے تو وہ روزہ رکھیں یا عید کا چاند دیکھ لیا ہے تو وہ اگلے دن کا روزہ نہ رکھیں۔ لیکن ان کی تصدیق کو تمام مسلمانوں کے لیے فرض قرار نہیں دیا گویا اگر کسی جانب سے شہادت موصول بھی ہوئی ہے تو شہادت دینے والے کی شخصیت کو معیار بنا کر فیصلہ کیا جانا ضروری خیال کیا گیا ہے۔ خدارا اسلام کو مذاق نہ بنایا جائے، علمائے کرام پر نہ تو دباؤ ڈالا جائے اور نہ ہی یہ زیب دیتا ہے کہ علمائے کرام دباؤ میں آکر فیصلہ کریں بلکہ ضروری ہو گیا ہے کہ اپنے اندر سے اسلام سے دوری کو نکال کر، مصلحتوں کا شکار ہوئے بغیر فیصلے کریں۔ اسی میں اللہ کی رضا ہے اور یہی آخرت کے لیے باعث ِ نجات ہے۔