دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا

1007

’’ایک عام سی عورت اور وکیل مرد کی گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئیں، حادثہ اتنا زور دار تھا کہ دونوں کی گاڑیاں تقریباً تباہ ہو گئیں لیکن حیرت انگیز طور پر دونوں بچ گئے۔ باہر نکل کر وکیل نے عورت سے کہا، یقین نہیں آتا کہ ہم دونوں کی گاڑیاں تباہ ہو گئی ہیں اور ہم دونوں بالکل خیریت سے ہیں ایسا لگتا ہے کہ شاید قدرت کو ہماری ملاقات مقصود تھی کہ ہم دونوں دوست بن جائیں۔ مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ شاید قدرت ہمیں ملانا چاہتی تھی، عورت نے جواب دیا۔ وکیل نے کہا کہ ایک اور معجزہ دیکھو کہ میری گاڑی تو تباہ ہو گئی ہے لیکن اس میں رکھی شمپیئن کی بوتل بالکل محفوظ ہے۔ چلو مل کر اس حادثاتی ملاقات کو انجوائے کرتے ہیں، وکیل نے بوتل عورت کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔ عورت نے بوتل کھولی اور غٹا غٹ کر کے آدھی پی گئی اور پھر نشیلی آنکھوں سے وکیل کا جائزہ لیتے ہوئے بوتل واپس وکیل کے حوالے کر دی، وکیل نے بوتل کا ڈھکن بند کیا اور بوتل عورت کی گاڑی کی ڈگی میں رکھ دی، عورت نے حیرت سے پوچھا کیا تم نہیں پیو گے؟۔ نہیں، میں پولیس کا انتظار کر رہا ہوں کہ آ کر دیکھے کہ نشے میں گاڑی کون چلا رہا تھا، وکیل نے کندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا‘‘۔
میں اپنی ساتویں جماعت کے ایک کلاس ٹیچر کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ وہ کچھ طرح مارتے کہ ان سے پٹنے والے طالب علم کو ایک لحظہ پہلے تک اس بات کا علم نہیں ہو پاتا تھا کہ کچھ ہی لمحوں بعد ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے گال کی سکائی کرنے والا ہے۔ وہ پہلے بہت پیار سے بچے کو اپنے گلے لگاتے، اس کی کمر تھپتھپاتے، اس کی تعریفوں کے پل باندھتے جس سے بچے کے بدن کا سارا تناؤ ختم ہوجاتا، اتنا کچھ کرنے کے بعد وہ بہت آہستگی سے الگ ہوتے اور نہایت چابک دستی سے چہرے پر ایسا زوردار تھپڑ رسید کرتے کہ پانچوں کی پانچوں انگلیاں ثبت ہو جایا کرتیں۔
بظاہر اوپر کی منقول تحریر اور نیچے کی واردات کا کوئی تعلق بنتا نظر نہیں آتا لیکن پاکستان کی سیاست کا بغور جائزہ لیا جائے تو کچھ ایسی ہی صورتِ حال ہم گزشتہ سات سے بھی زائد دھائیوں سے دیکھتے آ رہے۔ بقول انور مقصود، ’’کوئی تو ہے جو نظامِ ملکی چلا رہا ہے وہ باجوہ ہے‘‘۔ دونوں تحریروں میں جو بات مشترک ہے وہ یہی ہے کہ نادیدہ ہستیاں پہلے دوست بناتی ہیں، قربت کا اتنا احساس دلاتی ہیں کہ ہر فرد کے دل کا خوف دور ہوجاتا ہے، اس کے بعد پیار بھرے لب و لہجے سے ہر قریب آ جانے والے کو اپنے دامِ فریب میں ایسا پھنساتی ہیں کہ اسے ان نادیدہ ہستیوں سے اتنا پیار ہو جاتا ہے کہ اگر کوئی احساس بھی دلائے کہ آپ کے ساتھ کھیل کھیلا جانے والا ہے تو وہ نہ صرف یقین کرنے سے انکار کر دیتا ہے بلکہ سمجھانے والا اسے اپنا جانی دشمن نظر آنے لگتا ہے۔ پاکستان کی وہ کون سی سیاسی پارٹی ہے، وہ کون سا مذہبی گروہ ہے، وہ کون سا وڈیرہ، ملک، چودھری، سردار، سرمایہ دار، کارخانے دار یا زمیندار ہے جو ایسی ہستیوں کا ڈسا ہوا نہ ہو لیکن اس کے باوجود بھی حیرت انگیز بات یہ ہے ان ہستیوں کی آوازوں، اشارہ ابروؤں اور نگاہوں میں کیا جادو بھرا ہے کہ ہزار بار ڈسے ہوئے انسان کی جانب بھی یہ جس وقت اپنی آنکھیں پھیرلیتے ہیں وہ پالتو جانوروں کی طرح کچھ یوں اس کے پیچھے پیچھے دوڑتا چلا آتا ہے جیسے ہٹلر کا وہ مرغا جس کے سارے پر ہٹلر نے اسمبلی ہال میں اس کے جسم سے نوچ نوچ کے الگ کر دیے تھے اور جب اس کو اسمبلی کے فلور پر چھوڑا اور دانے ڈالتا ہوا اسمبلی سے باہر جانے لگا تو وہ مرغا اس کے پیچھے پیچھے اس طرح دوڑا چلا گیا جیسے اس نے اس پر ظلم نہیں احسانات کی بارش کی ہو۔
ان نادیدہ ہستیوں کا کام اس سے زیادہ کبھی نہیں رہا کہ وہ ایک ایک رہنما، سیاسی جماعتوں اور مذہبی گروہوں کو صرف اس وقت تک گھاس ڈالتی رہتی ہیں جب تک ان کو لائے جانے کا مقصد پورا نہیں ہو جاتا۔ ادھر مقصد پورا ہوا اُدھر ان کو دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا۔ نہ ان پر کسی کی چیخوں کا کچھ اثر ہوتا ہے نہ آہیں رحم کا جذبہ ابھارتی ہیں۔ جو بات نہیں مانتے وہ زمین میں چھے چھے فٹ نیچے اتار دیے جاتے ہیں اور جو مانتے ہیں وہ اسی وقت تک تخت و تاج پر بیٹھنے کے مجاز ہوتے ہیں جب تک وہ مانتے رہیں۔ اگر ان کو دھتکار بھی دیا جائے تب بھی وہ بجائے بغاوت پر اترنے کے، غلاموں کی طرح سر جھکائے ان کے در پر اس آسرے پر بیٹھے رہتے ہیں کہ شاید ان کو دوبارہ، سہ بارہ یا چوبارہ موقع عنایت کر دیا جائے۔
مشرقی پاکستان میں، پاکستان اور اسلام کے نام پر وطن (پاکستان) پرستی اور اسلام دوستی کے نام پر اپنے ساتھ ملانے والوں کا حشر کسی کو نہیں بھولنا چاہیے، پاکستان میں چلنے والی ماضی کی ساری بغاوتیں میں تقریباً وہی جماعتیں بار بار اسی فریب کا شکار ہوتی رہیں، پاکستان بچانے کے نام پر کیا مسلم لیگ ن، کیا پی پی پی، کیا ایم کیو ایم، اور کیا آج کل پی ڈی ایم، بار بار ڈسے جانے کے باوجود پھر ان ہی ہستیوں کے فریب میں آکر ان ہی کے بوٹوں کی چٹائی میں مصروف دکھائی دیتی ہیں۔ خود وہ پی ٹی آئی جو اقتدار میں آنے سے پہلے یہ کہتی تھی کہ اگر پانچ ہزار لوگ بھی جنرلوں کے خلاف باہر نکل آئیں تو ان کی پتلونیں گیلی ہو جائیں، اقتدار میں آکر ان کے چرنوں میں بیٹھ کر ان کو مائی باپ کہتی دکھائی دیتی تھی لیکن ان کو بھی شمپیئن پلاکر ان ہی کی کار کی ڈگی میں شمپیئن کی بولیں رکھ کر سارے حادثے اور کاروں کی تباہی کا الزام ان کے سر ڈالنے میں سر گرم دکھائی دے رہی ہیں۔ غالباً فراز نے اسی صورتِ حال کو سامنے رکھ کر کہا تھا کہ
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا