وطن عزیز پاکستان مستقل نئی نئی مشکلات اور بحرانوں میں گھرا جارہا ہے، پھر جو حل پیش کیا جاتا ہے وہ مزید مسائل پیدا کرتا ہے۔ یہ ایسا ہے جیسے قرضہ لیکر ادائیگی کے لیے مزید قرضہ لے لیا جائے۔ صوبہ سندھ کے کسانوں کے ساتھ دہائیوں سے جاری نا انصافی، ظلم اور زیادتی نے ترقی،خوشحالی اور آسودگی تو دور کی بات زندہ رہنا بھی مشکل کر دیا ہے۔ زراعت کسی بھی خطہ میں غذائی ضروریات کو پورا کرنے کی وجہ سے نمایاں اہمیت رکھتی ہے اور اس سے ہی خطہ کی معیشت با آسانی چلتی ہے۔ سرمایہ دارانہ جدیدیت نے انسانوں کو جس تباہی سے دوچار کیا ہے اس میں زراعت کی تباہی کا ایجنڈا بھی شامل ہے۔ بھارت کے لاکھوں کسانوں کی خودکشیاں اس کی اہم مثال ہیں۔ اکنامک سروے آف پاکستان (21- 2020) کے مطابق زراعت نے ملکی جی ڈی پی میں 20فی صد حصہ ڈالا۔ آج بھی سندھ کا بڑا حصہ سیلابی پانی میں ڈوبا ہوا ہے، عوام وبائی امراض کا شکار ہیں، صاف پانی میسر نہیں، غذائی بحران فاقوں تک پہنچ چکا ہے، جبکہ حکومتوں نے اقوام متحدہ کے وعدوں پر یعنی صاف پانی، غربت کا خاتمہ، صفر فاقہ کشی، بہترین صحت کی سہولتوں کے وعدے پر دستخط اور خوب فنڈز بھی اڑائے ہوئے ہیں، حاصل کچھ نہیں کیا جا رہا۔ سندھ میں 15سال سے پیپلز پارٹی وژن 2025 کے تحت شہری اور دیہی سندھ میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکی۔
جماعت اسلامی سندھ نے اس بحرانی صورتحال میں زراعت پر توجہ دینے کا فیصلہ کیا۔ سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کے وائس چانسلر، سینئر اساتذہ سمیت ماہرین سے مشاورت کی گئی، صورتحال کا پوری طرح جائزہ لیا گیا اور اس سلسلے میں جامع اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملاقاتیں کی گئیں اور سفارشات مرتب کی گئیں۔ حال ہی میں حیدر آباد کے مقامی ہوٹل میں ’’سندھ زراعت کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔ اس سلسلے میں امیر جماعت اسلامی سندھ محمد حسین محنتی، حافظ طاہر مجید، احمد شاہین نے وفد کی صورت میں سندھ بھر کے آبادگار، کاشت کار، زرعی ماہرین سمیت نمائندہ تنظیموں کو دعوت بھی دی اور موضوع سے متعلق مشاورتی رابطے بھی کیے۔ نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ نے اس کانفرنس کی صدارت کی۔ اس سلسلے میں سندھ میںکاشت کاروں، زراعت کے اہم مسائل بھی سامنے آئے اْن کے حل کی جانب قدم بھی بڑھانے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ جماعت اسلامی سندھ کی جانب سے اس ضمن میں درج ذیل اقدامات کو بطور فوری حل پیش کیا جا رہا ہے جو سندھ میں زراعت کی بحالی کے لیے مددگار ثابت ہوں گی۔
1: وزارت ِ زراعت، خوراک اور صحت کی ایک مشترکہ با اختیار جوائنٹ ایکشن کمیٹی بنائی جائے، جس میں ماہرین بھی شامل ہوں۔ زرعی پیداوار صوبہ کے عوام کی غذائی ضرورت کے مطابق ہیں یا نہیں، اس کا مشترکہ جائزہ ضروری ہے۔ اس کے لیے فصلوں کو درکار غذائی اشیاء کی فراہمی کی ٹیسٹنگ کا نظام بنایا جائے۔ شعبہ زراعت، خوراک اور صحت مکمل باہمی تعاون اور مشاورت کے ساتھ کام کرے، مشترکہ اہداف طے کرے اور ان کے حصول سے متعلق کارکردگی عوامی سطح پر پیش کرے۔
2: حکومت سندھ سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے متاثر ہونے والی گندم کی کاشت کے حوالے سے اعدادو شمار سامنے لائے جائیں۔ آبادی کے تناسب سے ملز اور چکیوں کو گندم کا کوٹا الاٹ کرے۔ اعدادو شمار ماہانہ بنیاد پر وزارت زراعت اور خوراک کی آفیشل ویب سائیٹس پر شائع کی جائیں۔
3: وزارت خوراک کی فوڈ اتھارٹی اور فوڈ ڈیپارٹمنٹ عوام کو معیاری و صاف غذا کی فراہمی کے لیے عملی اقدامات کریں۔ غذائی اجناس کی ذخیرہ اندوزی کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے جائیں۔
4: گندم کی تقسیم من مانے کوٹا سسٹم کے تحت بند کی جائے، قیمت مشتہر کی جائے اور روٹی کی قیمت 10 روپے پر لائی جائے۔
5: وزارت خوراک سندھ تمام اجناس کی ضمنی پیداوار کو عالمی معیار کے مطابق بنانے کے لیے عملی اقدامات اْٹھائیں۔ گندم کی پسائی کے دوران نشاستہ کو الگ کر کے بیچنے پر پابندی لگائی جائے اور ’’فائن آٹے کے نام پر آٹا نامی پائوڈر بیچنے والوں کا سخت محاسبہ کیا جائے۔
6: عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے خریدی گندم غیر معیاری اسٹوریج کے باعث ضائع ہوتی ہے۔ اجناس کی معیاری و محفوظ اسٹوریج کو یقینی بنانے کے لیے، گوداموں کی خستہ حالت غیر معیاری انتظامی امور، ناکافی عملہ اور غیر تربیت یافتہ عملے جیسے مسائل کو دور کیا جائے۔
7: زرعی پیداوار کی منڈیوں کے کنٹرول اور انتظام کا کنٹرول کْلی طور پر’’مڈل مین سے لیا جائے۔ یہ لوگ پیداوار کی طلب اور رسد میں مصنوعی قلت یا فراوانی پیدا کر کے اپنی مرضی کی قیمتیں نافذ کرکے بے پناہ ناجائز منافع کماتے ہیں۔ فصل اْگانے والاکسان اور کھانے والے عوام دونوں ہی لٹ رہے ہیں اور مستقل بدحالی کا شکار ہیں ۔اس کے لیے باختیار، غیر جانبدار پرائس کنٹرول ٹیمیں بنائی جائیں جو تمام منڈیوں اور ملوں میں حکومت کی جانب سے طے کی گئیں قیمتوں پر خریدو فروخت اور عمل درآمد نہ کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کو یقینی بنائے۔
8: پانی کی غیر منصفانہ تقسیم صدیوں سے سندھ کے کاشت کاروں کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ وزارت زراعت اور وزارت آب پاشی سندھ اس مسئلے کے حل کے لیے ہر ضلع کے نمائندہ کاشت کاروں کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ کمیٹی تشکیل دیں۔ یہ کمیٹی سندھ کے ہر ضلع میں لگنے والی فصلوں کے بجائی سے کٹائی تک کے تمام مراحل میں پانی کی بروقت اور متعلقہ علاقے کی ضرورت کے مطابق فراہمی کا ایک لائحہ عمل ترتیب دیں۔ حکومت وقت اس ضمن میں قانون سازی کے ذریعہ زرعی پانی میں حق تلفی (چوری)کو سنگین جرم قرار دے۔
9: سندھ میں زمینوں کا ایک بڑا حصہ زیر زمین پانی کی سطح کے بلند ہونے کے باعث بے آباد ہے، سیم کا پانی بے شمار پیداوری نقصانات کا باعث ہے۔ نئے سیم نالوں کی تعمیر 60 سال سے نہیں ہو سکی، زمینیں تباہ ہو رہی ہیں، عالمی فنڈنگ کرپشن کی نظر ہو جاتی ہے، اس لیے ایک غیر جانبدار کمیٹی بنا کر پلان کے مطابق حکومت سندھ سیم نالوں کی فوری تعمیر کو یقینی بنائے۔
10: سندھ میں فارم ڈیزائن اور اسٹرکچر کے اصولوں کے مطابق فارمنگ کو فروغ دیا جائے۔ وزرات زراعت اس ضمن میں ہر ممکن مدد، معاونت اور وسائل مہیا کرے۔
11: وزارت زراعت کے زیر سایہ سندھ میں جتنے بھی زرعی تحقیقاتی ادارے ہیں، ان کو عوامی سطح پر تحقیقی اہداف دیکر اور اس کے نتائج کو ہر سہہ ماہی بنیادوں پر پبلک کرے۔ فصلوں کی بیجائی کے مرحلہ اور کٹائی کے موقع پر فارم مشینری کی ہر ایک زمیندار تک رسائی کو یقینی بنایا جائے۔ حکومت سندھ فوری طور پر بیج، کھاد وغیرہ پر سبسڈی اسکیمیں لے کر آئے اور ملک میں جاری بدترین معاشی صورتحال میں کاشت کاروں کو سہارا دے کر خوراکی وسائل کی پیداوار کو متاثر ہونے سے بچائے۔
مرکزی نائب امیرلیاقت بلوچ نے ملک میں زرعی شعبہ کی سنگین صورتحال پر اپنے صدارتی خطاب میں درست فرمایا کہ زراعت سے خود انحصاری کا سفر نہیں طے کیا گیا تو اگلے 15 سال بہت سخت ہوں گے، پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے، زراعت کا تحفظ قومی سلامتی کے لیے بھی ضروری ہے، معاشی خوشحالی کی بنیاد زراعت کی ترقی ہے، سندھ کی خوشحالی اس وقت ممکن ہے جب اس کے وسائل اس کے عوام پر خرچ کیے جائیں۔ سندھ کے گیس پٹرول و دیگر قدرتی وسائل پر پہلا حق سندھ کے عوام کا ہے۔ جماعت اسلامی کے انتخابی منشور میں زراعت کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔ لیاقت بلوچ نے زرعی اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے جماعت اسلامی پر اعتماد کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی کاشت کاروں کے حقیقی مسائل کو ہر فورم پر اٹھائے گی۔ آئی ایم ایف اور سودی نظام سے نجات جماعت اسلامی ہی دلاسکتی ہے۔