رمضان جنت کے حصول کا ذریعہ

937

رسول کریمؐ نے ایک خطبے میں ارشاد فرمایا: ’’لوگو تم پر ایک ایسا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے، جس کی ابتداء رحمت، جس کا وسط مغفرت اور جس کا اختتام نار جہنم سے آزادی کا ضامن ہے‘‘۔ رحمت، مغفرت اور نیکیوں کے فروغ اور حصول سعادت کے موسم بہار یعنی رمضانْ المقدّس ہم پر سایہ فگن ہونے والا ہے۔ حقیقت میں خوش نصیب ہے وہ جسے ماہِ مقدس کی مبارک ساعتیں میسر ہوں۔
نبی کریمؐ ماہِ شعبان بلکہ رجب ہی سے رمضان کے اِستِقبال کے ساتھ اس کے برکات و حسنات حاصل کرنے کے لیے تیار ہو جاتے اور شدت سے اس کی آمد کا انتظار فرماتے۔ اِستِقبالِ رمضان حدیث سے ثابت ہے اور اس کی حکمت بھی سمجھ میں آتی ہے کہ رمضان المبارک کی برکات کو اپنے دامن ِ ایمان و عمل میں سمیٹنے کا ایک مزاج اور ماحول پیدا ہو۔
لفظ رمضان یہ رمض یا رمضاء سے مشتق ہے، رمض کے معنی جلنے کے ہیں اور رمضاء کے معنی موسم خریف کی بارش۔ اس مہینہ میں انسان کے گناہ اور اس کی کثافتیں جل جاتی ہیں اور رحمتوں کی ایسی بارش ہوتی ہے کہ دل کا گرد و غبار دھل جاتا ہے اور دنیا و آخرت کی کھیتیاں پک جاتی ہیں۔ ماہِ رمضانْ مبارک حقیقت میں انسانی زندگی میں تبدیلی اور انقلاب کا ایک بہترین وسیلہ ہے اور یہ مہینہ اپنے دامن میں انسان کی کردار سازی کا پورا نظام لیکر آتا ہے لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اس عظیم مہینہ کا اِستِقبال بہترین تیاری کے ساتھ کریں تاکہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں محسوس تبدیلی کو برپا کرسکیں۔ ماہِ رمضان کے فلسفہ کو مومنانہ فراست اور فہم و ادراک کی نگاہوں سے دیکھا جائے تبھی ہم اس ماہ کا پرتپاک اور والہانہ اِستِقبال کرسکتے ہیں۔ قرآن مقدس کا نزول اسی پاک مہینے میں ہوا۔ مسلمانوں کے لیے یہ روحانی تجدید، مہربانی و رجوع، غریبوں کے لیے دردمندی اور متنوع معاشروں میں ہم آہنگی پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع ہے۔ یہ ماہِ رمضان انفرادی اور اجتماعی زندگی میں تزکیہ ٔ نفس حاصل کرنے کا درس دیتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ نفس اور روح کی پاکیزگی کا مہینہ ہے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا صلہ جنت ہے۔ ’’جو شخص بحالت ِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں‘‘۔ (بخاری)
اس ماہِ مبارک میں تلاوتِ قرآن پاک اور ذکر کی کثرت ہوتی ہے، دل خوف خدا سے لرزتے ہیں اور رحمت کی اْمید لے کر اللہ ربّ العالمین! کی جناب میں رجوع ہوتے ہے۔ یہ مہینہ آتا ہے تو دل و روح کی دنیا میں انقلاب آجاتا ہے، نوافل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب 70 گنا درجہ بڑھ جاتا ہے۔ اس ماہ میں ہر مسلمان مرد و زن کو تراویح کا اہتمام اور قیام اللیل و تہجد کی عادت ڈالنا چاہیے۔ ابھی سے اپنے روزوں کی فکر کیجیے اور مذکورہ مسائل کے متعلق معلومات حاصل کریں: روزہ کس پر فرض ہے؟ سحر و افطار کے دْرْست اوقات کیا ہیں؟ روزے کی نیّت کے متعلق کیا مسائل ہیں؟ رمضان میں انفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت کیا ہے؟ ماہِ صیام میں جہاد فی سبیل اللہ کی بشارتیں کیا ہیں؟ کن چیزوں سے روزہ ٹوٹتا، کن کاموں سے مکروہ ہوتا اور کن مجبوریوں کی وجہ سے روزہ چھوڑا جاسکتا ہے؟ روزے میں عبادتوں کا معمول مرتب کریں۔ ماہِ رمضان سے بھرپور استفادہ کے لیے اپنا روزانہ کا معمول ترتیب دیں۔ روزوں کے متعلق ضَروری دِینی علم حاصل کریں۔ سحری و افطار، قیام لیل کی دعائیں و اذکار مسنونہ کو یاد کرلیں۔ تلاوتِ قرآنِ مجید پر خصوصی توجہ دیں۔ قیام اللیل کا اہتمام کریں۔
رمضان کی علمی و فکری تیاری بھی پہلے سے طے شدہ ہونا چاہیے۔ رمضان کے جملہ مسائل سے واقفیت ہونی چاہیے۔ رمضان کے مقاصد ابھی سے ذہن نشین کرلیے جانے چاہیے۔ قرآن مجید کا ترجمے کے ساتھ ساتھ دیگر تفاسیر کی مدد سے مطالعہ لازماً کریں، رمضان اور روزے سے متعلق قرآن و حدیث کی تعلیمات و احکامات پر غور فکر کرکے رمضان کی روح کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
ہمیں رمضان کی فضیلت میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ’’تمام آسمانی کتابیں اسی ماہ میں نازل ہوئی ہیں۔ صحف ِ ابراہیمؑ رمضان کی 3 تاریخ میں، تورات 6 تاریخ میں، انجیل 13 تاریخ میں، زبور 18 تاریخ میں اور قرآن مجید 24 تاریخ میں نازل ہوا‘‘۔ (مسند احمد ابن حنبل) لہٰذا ابھی سے اپنا نظام الاوقات بنائیں اور عبادات و معمولات کی پابندی شروع کردیں تاکہ رمضان المبارک کے مہینے سے بھرپور استفادہ کیا جاسکے۔ اس ماہِ مبارک کو ہم اپنی زندگی کا آخری رمضان سمجھ کر گزاریں گے۔ پتا نہیں پھر یہ سنہری موقع دوبارہ ملے نہ ملے۔ یہ رمضان ہماری زندگی کا فیصلہ کن موڑ ہوگا۔ ہم اس بات کا عزم کریں کہ اس مرتبہ ہم پورے ایک ماہ کی مشق و تربیت کے ذریعہ اپنی زندگی کو بالکل بدل ڈالیں گے۔ آپ ذہن کو رمضانْ المبارک کے لیے یکسو کرلیں۔ جس طرح سالانہ امتحان سے پہلے ہی آپ کے دل و دماغ پر امتحان سوار ہو جاتا ہے رمضان آپ کی توجہ اور سوچ کا محور بن جائے۔ ابھی سے طے کیجیے کہ ماہِ رمضان کی کس طرح بھر پور انداز سے برکتیں سمیٹنی ہیں۔ اس عظیم سالانہ امتحان میں کس طرح انعام کا مستحق خود کو بنانا ہے۔ دیگر مہینوں میں انفاق کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں، مگر رمضان المبارک میں انفاق فی سبیل اللہ کی بڑی فضیلت و اہمیت ہے۔ ابھی سے ہم اپنے بیجا اسرافات نما فاضل اخراجات کم کرلیں تو ان شاء اللہ! رمضان میں زیادہ سے زیادہ انفاق کے مواقع فراہم ہوں گے۔ معمول کے انفاق کے علاوہ کچھ رقم بچا کر رمضان میں انفاق کے لیے خود کو تیار کرنا بھی اِستِقبالِ رمضان میں شامل ہے۔
گزشتہ رمضان کو یاد کرکے اس میں ہونے والی کمیوں اور کوتاہیوں سے بچتے ہوئے موجودہ رمضان کو زندگی کا آخری رمضان سمجھتے ہوئے اسے خوب سے خوب تر اور پہلے سے بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ رمضان کا اِستِقبال اس ارادے سے کریں کہ اب فوری طور پر تمام قسم کے گناہوں اور معصیت کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ رہے ہیں اور اس ارادہ کو سچی توبہ سے مزید تقویت پہنچائیں اور آئندہ تمام چھوٹے بڑے گناہوں سے بچنے کا عزم کریں اس پر ثابت قدمی کے لیے اللہ سے دعا مانگیں۔ اللہ ربّ العزت سے دعا گو ہوں کہ یہ پْر فیض، پْربہار موسم رمضانْ المقدّس امت مسلمہ کے لیے ایک نئی حیات، ایک نیا رخ، ایک نیا حوصلہ اور ایک نیا جذبہ پیدا کرنے کا ذریعہ بن جائے۔