1857 کی جنگ آزادی کے بعد برطانوی سامراج نے اپنی ذلت و شکست کا بدلہ لینے کے لیے مسلم زعماء پر عرصہ حیات تنگ کردیا خصوصاً ان علماء مشائخ کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جو برصغیر کے مختلف علاقوں میں انگریزی فوج کے خلاف برسرپیکار تھے علماء کو کالے پانی کی بدنام زمانہ جیل میں بھیجا دریائے شور عبور کروایا کر جزائر انڈومان میں قید کردیا اور مسلمانوں میں فرقہ واریت بھڑکانے کے لیے اپنے جاسوسوں کو تیار کیا انگریز کے ان پالتو جاسوسوں میں سب سے زیادہ فعال مرزا غلام احمد قادیانی تھا جس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور جہاد کی منسوخی کا اعلان کیا کیونکہ ہندوستان کے تمام علاقوں کے مسلم نوجوان انگریزی افواج کے خلاف یاغستاں میں جمع ہورہے تھے مختلف علماء پر انگریز نے مالوہ، راج عمل انبالہ اور پٹنہ میں مقدمات قائم کرکے مسلمانوں کو ڈرانے اور دھمکانے کے لیے انگریز نے بھرپور کوششیں جاری رکھی ہوئی تھیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے انیسویں صدی کے آخری برسوں میں پہلے دعویٰ نبوت اور پھر جہاد کی منسوخی کا اعلان کیا مرزا کی سازشوں کی بیخ کنی اور جھوٹے دعوئوں کے تارپور بکھیرنے کے لیے علماء حق میدان میں آگئے اور انہوں نے ہر محاذ پر مرزا غلام احمد قادیانی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا مرزا نے انگریزی حکومت کی آشیرباد اور بے پناہ مالی مراعات کے بل بوتے پر علماء حق کو مناظروں کا چیلنج دینا شروع کردیے۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری کی جوانی کا دور تھا ا ور وہ حاضر جوابی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے ان کی وفات پر عظیم صحافی مولانا ظفر علی خان نے کہا تھا مولانا ثناء اللہ کی وفات کے ساتھ دنیا سے حاضر جوابی ختم ہوگئی۔ سید سلمان ندوی نے فرمایا اسلام اور پیغمبر اسلام کیخلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں کے خلاف مولانا ثناء اللہ کی زبان اور قلم شمشیر بے نیام
ہوتے تھے۔ مولانا ثناء اللہ نے مختلف اوقات میں مرزا غلام احمد قادیانی کے خلاف ایک سو سے زائد کتابیں لکھیںاور مرقع قادیانی کے نام سے ایک ماہوار رسالہ جاری کیا جس میں مرزا کی ہرزہ سرائیوں اور خلاف اسلام جھوٹی دلیلوں کے جوابات دیے جاتے تھے۔ مولانا ثناء اللہ نے 50سال سے زائد عرصے تک قادیانیوں کا تعاقب جاری رکھا ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی آپ کی تحریروں سے تنگ آگیا اور اس نے آپ کے ساتھ تحریری مباہلے کا اعلان کردیا اسی سلسلے میں مرزا غلام احمد قادیانی نے ایک اشتہار شائع کیا جو سبز اشتہار کے نام سے مشہور ہوا اس میں مرزا غلام احمد قادیانی رقم طراز ہے مولانا ثناء اللہ کے ساتھ آخری فیصلہ
بخدمت جناب مولوی ثناء اللہ صاحب السلام علی من اتبع الھدیٰ
بہت عرصے سے آپ کے پرچہ اہلحدیث میں میری تکذیب اور تفسیق کا سلسلہ جاری ہے ہمیشہ آپ مجھے اپنے اس پرچے میں مردود، کذاب، دجال اور مفسد کے نام سے منسوب کرتے ہیںاور دنیا میں میری نسبت شہرت دیتے ہیں کہ یہ شخص کذاب مفتری اور دجال ہے اور اس شخص کا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا سراسر افتراء ہے میں نے آپ سے بہت دکھ اٹھایا اور صبر کرتا رہا ہے مگر چونکہ میں حق پھیلانے کے لیے مامور ہوں اور آپ بہت سے افتراء میرے پر کرکے دنیا کو میری طرف آنے سے روکتے ہیں اور مجھے ان گالیوں اور تہمتوں سے یاد کرتے ہیں جن سے بڑھ کر کوئی لفظ سخت نہیں ہوسکتا اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ آپ اکثر اوقات اپنے پرچے میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہلاک ہوجائوں اور اگر میں مفتری اور کذاب نہیں ہوں اور خدا کے مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیح موعود ہوں تو میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ سنت اللہ کے موافق آپ مکذبین کی سزا سے نہیں بچ سکیں گے اور میں خدا سے دعا کرتاہوں کہ اے مالک تقریر و تحریر جو علیم و خبیر ہے جو میرے دل کے حالات سے واقف ہے اگر یہ دعویٰ مسیح موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افتراء ہے اور میں تیری نظر میں مفسد و کذاب ہوں تو اے میرے پیارے مالک میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتاہوں کہ مولوی ثناء اللہ کی زندگی میں ہلاک کر اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کردے آمین۔ مگر اے میرے کامل اور صادق خدا اگر مولوی ثناء اللہ ان تہمتوں میں جو مجھ پر لگاتا ہے حق پر نہیں تو میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی میں ان کو نابود کر مگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون اور ہیضہ اور وغیرہ مہلک امراض سے اے میرے آقا اور میرے بھیجنے والے اب میں تیرے ہی تقدس اور رحمت کا دامن پکڑ کر تیری جناب میں ملتجی ہوں مجھ میں اور مولوی ثناء اللہ میں سچا فیصلہ فرما اورجو تیری نگاہ میں حقیقی مفسد و کذاب ہے اس کو صادق کی زندگی میں دنیا سے اٹھا لے یا کسی اور آفت میں جو موت کے برابر ہو مبتلا کر اس اشتہار کی اشاعت کے ٹھیک ایک سال ایک ماہ 12 دن بعد مرزا غلام احمد قادیانی اپنی بد دعا اور مباہلہ میں نامزد کردہ ایک مہلک بیماری ہیضہ سے انتقال کرگیا۔
مرزا جی کے بیٹے کے مطابق مرزا کی اہلیہ کا بیان ہے کہ 25 مئی کو شام کے وقت مرزا جی پر ان کی قدیمی بیماری کا شدید حملہ ہوا جس سے اسہال کا سلسلہ شروع ہوا ایک دست آیا دوبارہ دست آیا تو مرزا جی اتنے نڈھال ہوچکے تھے کہ بڑی مشکل سے پاخانے تک پہنچنے اسی دوران نبض بند ہوگئی ڈاکٹروں اور طبیبوں نے آپ کی حالت معمول پر لانے کی سرتوڑ کوشش کی مگر گیارہ گھنٹے موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد مرزا صاحب 26 مئی کو دنیائے فانی چھوڑ گئے۔ (بحوالہ سیر المھدی) مولانا ثناء اللہ امرتسری نے اس کے بعد بھی قادیانیوں کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھی اور مرزا کی اس موت پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا نے فرمایا خاص وقت تھا جب یہ بددعا ان کے منہ سے نکلی اور قبولیت اسے لینے آئی آج قادیان کی بستی میں ادھر ادھر دیکھو تو رونق بہت ہے مگر ایسی کہ دیکھنے والا اہل قادیان کو خطاب کرکے داغ مرحوم کا یہ شعر سنائے گا۔
آپ کی بزم میں سب کچھ ہے مگر داغ نہیں
آج وہ خانہ خراب ہم کو بہت یاد آیا
مرزا غلام احمد قادیانی کی تمام پیش گوئیوں اور جھوٹے دعوئوں کی قلعی کھولنے کے لیے مولانا کے تین رسالے اہلحدیث، مسلمان اور مرقہ قادیانی ہر وقت تیار رہتے تھے۔ مرزا کی طرف سے نبوت محمدی اور ختم نبوت پر کیے جانے والے اعتراضات کے مدلل جوابات دیے جاتے مرزائیت کے علاوہ بھی تمام باطل فرقوں آریہ سماج ہندو ازم بہائیت بابیت اور عیسائیت تمام باطل فرقوں کی خلاف بڑے طمطراق کے ساتھ صف آراء رہے اور مناظروں مباحثوں میں آپ کی کامیابی کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ ہندوستان کے مشہور اخبار ندائے مدینہ نے لکھا اگر پوری دنیائے اسلام کے اکابر علماء کسی ایک مجلس علمی میں جمع ہوں اور بیک وقت عیسائیوں، آریوں سناتن دھرموں ملحدوں، نیچریوں قادیانیوں، منکرین حدیث کے ساتھ بیک وقت کئی کئی گھنٹے مناظروں کی نوبت پیش آئے تو عالم اسلام کی طرف سے کون کون سی ہستیاں پیش ہوں گی مجھے نہیں معلوم مگر پاکستان، ہندوستان، برما، سری لنکا و سماٹرا کی طرف سے مولانا ثناء اللہ کی ایک ہی ہستی تھی جو پیش ہوسکتی تھی۔
ان کی رحلت کے بعد برصغیر کی یہ سربلندی باقی نہ ہی مولانا کی رحلت سے بازار علمی کی یہ صدر نشینی بھی ختم ہوگئی ہے۔ مولانا نے ایک مرتبہ اپنے رسالے ہفتہ روزہ اہلحدیث میں کانگریس کی ہندوانہ سوچ کی مذمت کرتے ہوئے لکھا مسلمان کفار کے کسی جھانسے میں نہ آئیں اور اپنے آپ کو اس طرح متحد و منظم کریں کہ دنیا بھر میں ان کی عظمت شوکت عزت اور حشمت قائم ہو اور ان کی اعلیٰ سیاسی بصیرت کے سامنے ہندو گھٹنے ٹیک دیں۔
قیام پاکستان میں کے بعد مولانا امرتسر سے ہجرت کرکے پاکستان کے شہر گوجوانوالا پھر سرگودھا میں آباد ہوئے دوران ہجرت سکھوں نے مولانا کی املاک کو نذرآتش کردیا اور آپ کے جواں سال صاحبزادے مولوی عطاء اللہ کو 13اگست 1947 کو امرتسر میں شہید کردیا جس وقت وہ مسلم خاندانوں کی حفاظت پر مامور تھے مولانا کے تقویٰ پرہیز گاری کا یہ عالم تھاکہ پاکستان میں کوئی کلیم داخل نہیں کیا سادگی اور غربت کی زندگی گزاری آخر کار آپ چند روز بیمار رہ کر15مارچ 1948 کو صبح کے وقت اس دار فانی سے ہمیشہ کے لیے عالم بقاء کی طرف کوچ کرگئے پاکستان کے مشہور صحافی شورش کاشمیری نے اپنی تصنیف ختم نبوت میں آپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا جن علماء اہلحدیث نے مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کی امت کو زیر کیا ان میں سرفہرست مولانا ثناء اللہ امرتسری تھے جن کو فاتح قادیان کا لقب ملا انہوں نے مرزا اور اس کی امت کو لوہے کے چنے چبوا دیے اپنی زندگی ان کے تعاقب میں گزاردی ان کی بدولت قادیانیت کا پھیلائو رک گیا مرزا نے تنگ آکر مباہلہ کا اشتہار شائع کیا جس کے نتیجے میں وہ واصل جہنم ہوا دارالمصنفین اعظم گڑھ کے مولانا ابواعلیٰ اثری نے لکھا مناظروں میں مولانا کا کوئی حریف نہیں تھا انہوں نے آریوں سے جتنے مناظرے کیے فتح کا سہرا ان کے سر رہا آریوں کے ساتھ ہونے والے مناظروں میں مسلسل کامیابی کی وجہ سے ان کو شیر پنجاب کا پر ہیبت لقب دیا گیا (تذکرہ ابوالدہ)
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا