…اس حمام میں

718

وفاقی حکومت نے توشہ خانے سے متعلق 21سالہ ریکارڈ سرکاری ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا ہے تو یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ توشہ خانے کی بہتی گنگا میں حکمرانوں اور اعلیٰ سرکاری حکام میں سے کم وبیش سب ہی نے ہاتھ دھوئے ہیں۔ گویا یہ توشہ خانہ وہ حمام ہے جس میں یہ سب ایک ہی حالت میں نظر آتے ہیں۔ توشہ خانہ سے تحائف وصول کرنے والوں میں سابق صدور پرویز مشرف و آصف علی زرداری اور سابق وزرائے اعظم شوکت عزیز، یوسف رضا گیلانی، نواز شریف، راجا پرویز اشرف اور عمران خان خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ویب سائٹ پر موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف اور صدر عارف علوی کا توشہ خانہ ریکارڈ بھی اپلوڈ کیا گیا ہے۔ مرسڈیز گاڑیوں اور بیش قیمت گھڑیوں سے لے کر کف لنکس اور گلدان جیسی اشیاء تک اس فہرست میں شامل ہیں جو مختلف حکمرانوں اور اعلیٰ افسروں نے معمولی قیمت ادا کرکے یا کوئی قیمت ادا کیے بغیر اپنے استعمال کے لیے رکھ لیں۔ موجودہ وزیرعظم شہباز شریف نے متعدد تحائف کوئی قیمت ادا کیے بغیر رکھ لیے۔
توشہ خانے کا معاملہ موجودہ دور میں جس وجہ سے زیر بحث آیا وہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے بطور ہدیہ ملنے والی انتہائی نادر اور بیش بہا گھڑی اور دیگر تحائف کا مبینہ طور پر بیرون ملک فروخت کیا جانا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ سعودی ولی عہد کو جب اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے تحفے کی ناقدری کا بہت برا منایا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں سابق وزیر اعظم کے خلاف ریفرنس میں الزامات ان پر ثابت ہوگئے جس کی بناپر انہیں پارلیمان کی رکنیت کے لیے نااہل قرار دینے کے علاوہ فوجداری قانون کے تحت مقدمہ قائم کرنے کا حکم بھی دیا گیا اور اب یہ معاملہ اسلام آباد کی ضلعی عدالت میں زیرسماعت ہے۔
توشہ خانے کا ماضی کا تمام ریکارڈ لاہور ہائی کورٹ نے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا تاہم وفاقی کابینہ نے اسے ویب سائٹ پر بھی لاکر شفافیت کے فروغ کا مستحسن اقدام کیا ہے۔ اصولی طور پر سرکاری مناصب کی وجہ سے ملنے والے تحائف ریاست کی ملکیت ہوتے ہیں اور اسی لیے دنیا کے اکثر مہذب ملکوں میں انہیں سرکاری میوزیم میں رکھا جاتا ہے جبکہ اسلامی تعلیمات کی رو سے تو سرکاری منصب کی وجہ سے ملنے والا ہدیہ کسی بھی صورت متعلقہ شخص کی ملکیت قرار نہیں پاسکتا۔ بخاری کی ایک حدیث کے مطابق زکوٰۃ کی وصولی پر مامور ایک صحابیؓ نبی کریمؐ کے پاس وصول کردہ زکوٰۃ کا مال لائے اور ساتھ ہی کچھ تحائف بھی جن کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ صدقات کے علاوہ لوگوں نے یہ تحائف مجھے ذاتی طور پر دیے ہیں جس پر نبی کریمؐ نے انہیں متنبہ کیا کہ یہ تحائف تمہیں نہیں تمہارے منصب کو ملے ہیں لہٰذا تمہارا کوئی حصہ ان میں نہیں، یہ سب سرکاری خزانے میں جمع ہوںگے۔ اس بنا پر پارلیمان کو قانون سازی کرکے توشہ خانے کو مکمل طور پر سرکاری خزانے کا حصہ قرار دینا چاہیے اور ان تحائف کو قیمتاً بھی گھر لے جانے کا راستہ مکمل طور پر بند کردینا چاہیے نیز جن لوگوں نے بلاقیمت یا کم قیمت دے کر تحائف لیے ہیں انہیں ان کی پوری رقم قومی خزانے میں جمع کرانی چاہیے یا تحائف واپس کرنے چاہئیں۔
اس اکیس سالہ ریکارڈ کے منظر عام پر آنے کے بعد حکمران طبقے کے افراد کو چاہیے کہ ایک دوسرے کو توشہ خانہ کا طعنہ دینا بند کر دیں کیونکہ 2002ء سے رواں سال تک کے حکمرانوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کا نام 466 صفحات کی اس دستاویز کے مطابق توشہ خانہ سے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل نہیں۔ جس طرح ہمارے رہنمائوں کو باہر سے تحفے ملتے ہیں اسی طرح ہمارے ہاں آنے والی شخصیات کو بھی حسب ِ مراتب تحائف دیے جاتے ہیں۔ مگر یہ تحائف کسی شخص کے لیے نہیں اس کے عہدے کے لیے اور جس ریاست کی وہ نمائندگی کرتا ہے اس کے لیے ہوتے ہیں؛ چنانچہ یہ ماننے میں کوئی قباحت نہیں کہ یہ تحائف ہر لحاظ سے قومی دولت کا حصہ ہیں اس لیے یہ خزانہ حکمرانوں اور ان کے قریبی اعزاہ و اقربا کے رحم و کرم پر چھوڑ نے کے بجائے ضروری ہے کہ اس معاملے میں معقول اور شفافیت کے اصولوں کے مطابق طریقہ کار وضع کیا جائے۔ اب تک جو اصول رائج ہے بادی النظر میں یہ شفافیت کے تقاضے پورے نہیں کرتا اور اس قومی دولت کی بندر بانٹ کی راہ ہموار کرتا ہے جس سے پیدا ہونے والے اسکینڈلز ملک اور سیاسی قائدین کے تشخص کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس صورتحال سے بچنے کا یہی ایک طریقہ ہے کہ توشہ خانے کے قواعد و ضوابط کو تبدیل کیا جائے اور ہر تحفے کی کھلی نیلامی کا اصول لاگو کیا جائے۔ اس مد میں حاصل ہونے والی رقم پاکستان کی جانب سے دیے جانے والے تحائف میں کام آ سکتی ہے۔ توشہ خانے کے ریکارڈ کو عوامی پہنچ سے دور رکھنا بھی ہرگز قومی مفاد کا تقاضا نہیں۔ قومی مفاد شفافیت کو یقینی بنانے میں ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ عوام کی نظریں ان معاملات پر رہیں۔ قومی مفاد کے نام پر حساس معلومات قرار دے کر ان تفصیلات کو عوام کے لیے ناقابل ِ رسائی بنادینے کا مطلب تو یہ ہے کہ حکمران طبقے کو اپنی مرضی سے قومی دولت کے اس حصے کے حصے بخرے کرنے کی اجازت دی جائے۔ اس کا نتیجہ یہی ہو سکتا ہے جو ہم نے 466 صفحات کی اس دستاویز میں دیکھ لیا ہے۔ اگر چہ یہ ایک نامکمل رپورٹ ہے مگر اسے مشتے نمونہ از خروارے سمجھا جائے۔ حیرت ہے کہ ہمارے حکمران اور ان کے اقربا بیرونِ ملک سے ملنے والے بیش قیمت تحائف کے حصول میں کس قدر جلد باز واقع ہوئے ہیں۔