قانون کی بے بسی

899

شہداد پور میں ایک کھلواڑ منظر عام پر آیا کہ سوشل ویلفیئر کی جگہ پر جو قبضہ بتایا گیا اُس کو چھڑانے اسسٹنٹ کمشنر اور ایڈمنسٹریٹر پہنچے تو مبینہ طور پر وکیل شیراز لاکھو کی مزاحمت اور پھر تشدد کی بات سوشل میڈیا پر مٹرگشت کرنے لگی اور شہداد پور بار کی اپیل پر قانون کے رکھوالوں نے شہداد پور تھانے پر دھرنا دیا اور اسسٹنٹ کمشنر، ایڈمنسٹریٹر بلدیہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا جو ایس ایچ او نے ان ہردو کے خلاف اختیار نہ ہونے کا کہہ کر ایف آئی آر کاٹنے سے انکار کیا۔ جس کے بعد وکلا رہنمائوں نے نیشنل ہائی وے کو بلاک کردیا اور یوں اس دھرنے نے ٹریفک جام کرکے ایف آئی آر کا راستہ کشادہ کر ڈالا اور اسسٹنٹ کمشنر، بلدیہ ایڈمنسٹریٹر اور ایڈیشنل ایس ایچ او پر مقدمہ درج ہوگیا۔ یوں ہی سکرنڈ کے ایس ایچ او کو سادہ لباس میں قومی شاہراہ کے ایک ہوٹل پر رات گئے چائے نوشی کرنے والے انڑ برادری کے کچھ لوگوں کو پوچھ گچھ کے لیے تھانے لے جانا پڑا تو وہ مزاحمت پر اتر آئے۔ اُنہوں نے اپنے حمایتیوں کو مدد کے لیے مدعو کرلیا۔ میڈیا سے وابستہ اُس کے عزیز نے یہ کارروائی سوشل میڈیا پر ڈال دی۔ اور یوں پھر تھانے لے جانے والے پسپا ہوگئے۔ دوسرے دن انڑ برادری نے ایک جلوس نکالا، تھانے کے سامنے دھرنا دیا، مذاکرات ڈی ایس پی نے کیے اور معذرت ایس ایچ او سکرنڈ نے کی، یہ معذرت قانون کی تھی اور سرنگوں ہونے کی تھی اور پھر سب نے مل کر اس خوشی میں انڑ کی دعوت میں شرکت کی۔ وکلا اور صحافی کے سامنے قانون کی بے بسی کوئی اچھی خبر تو نہیں؟ اب جائز ناجائز کام کا حل دھرنا ہے جس کے سامنے انتظامیہ، قانون دھرے کا دھرہ رہ جاتا ہے۔ قومی شاہراہ کو بلاک کرکے نقل و حمل کو منقطع کر ڈالا، سب کو کھلی چھوٹ ہے کہ یہ مسافروں پر عذاب توڑ ڈالو۔ ان کی کوئی داد فریاد نہیں اب تو ادارے بھی دھرنے دے کر مقاصد کی تکمیل پر اتر آئے ہیں۔ علما کہلانے والے بھی شاہراہوں کی بندش کی مذمت کو فراموش کرچکے ہیں۔ اب فیصلے دھرنے کرتے ہیں اور نقص امن حکومت، انتظامیہ کی کمزوری ہے۔ ملک کا نظام دھرنوں کی سیاست نے مفلوج کردیا ہے، آئے روز کے دھرنے سندھ میں تو عذاب بن گئے ہیں اور یہ قانون، اخلاق کا منہ چڑا رہے ہیں۔ بھلا افسران بھی دھرنے کے آگے ڈھیر ہوجائیں تو پھر حکومت کس چیز کا نام ہے۔ دھرنا ہی زندہ باد ہے، یہ فرض سیاست سے لے کر ذات برادری تک آگیا ہے اور اس نے کامیابی کا جھنڈا گاڑ دیا ہے۔ اور یہ قانون شکنی پورے نظام کو مفلوج کررہی ہے، کون اس کو روکے گا؟ قانون کی حکمرانی اور حکمرانوں کی رٹ کب بحال ہوگی۔