ہمارے ایک ممدوح کالم نگار نے ائمہ وخطباء کی شکایات درج کی ہیں، مِن جملہ شکایات میں سے ایک واقعتا درست ہے کہ اکثر مساجد میں نمازِ جمعہ اور نمازِ عیدین اعلان کردہ وقت پر کھڑی نہیں کی جاتیں۔ اگرچہ شریعت میں ہر نماز کے وقت میں توسُّع ہے، کافی گنجائش رہتی ہے، ماضی میں جب لوگوں کے پاس گھڑیاں نہیں تھیں تو اندازے سے جماعت کھڑی کردیا کرتے تھے یا نمازیوں کی مناسب تعداد کو پیش ِ نظر رکھتے یا وقت کی گنجائش اور شریعت کی حدود کے اندر رہتے ہوئے نمازیوں کی سہولت کو سامنے رکھتے تھے۔ مگر جب سے ہر شخص کے پاس گھڑی موجود ہے، مساجد میں ایک سے زیادہ گھڑیاں آویزاں ہوتی ہیں، بلکہ آج کل تو اس کے لیے الیکٹرونک بورڈ آویزاں ہوتے ہیں، ہر نماز کی جماعت کے قیام کا وقت متعین ہوتا ہے، پس لازم ہے کہ جماعت صحیح وقت پر کھڑی کی جائے، خطابت کے شوق میں لوگوں کو شکایت کا موقع نہ دیا جائے، کیونکہ ائمہ وخطباء کے قول وفعل میں تضاد کی وجہ سے لوگ مجموعی طور پر دین پر طعن شروع کردیتے ہیں، حدیث پاک میں ہے: ’’سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں: نبیؐ نے فرمایا: معراج کی شب میرا گزر ایسے لوگوں سے ہوا، جن کے ہونٹوں کو کاٹا جارہا تھا، میں نے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں، جبریل امین نے کہا: یہ آپ کی امت کے خطباء ہیں اور میرا گمان ہے یہ بھی کہا: یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے کچھ ہیں،کرتے کچھ ہیں‘‘۔ (مسند البزار)
اسی طرح ہماری فقہی کتب میں درج ہے: ’’جن فرائض کے بعد سنتیں ہوں، اُن کے بعد طویل دعا نہیں کرنی چاہیے اور عام نمازوں میں بھی دعائوں، قرأت اور رکوع وسجود میں اتنی طوالت نہیں ہونی چاہیے کہ لوگوں پر گراں گزرے اور اُن کی حضوریِ قلب میں فرق آئے‘‘، نیز لوگوں کی جائز شکایات کا ازالہ ہونا چاہیے۔
محترم کالم نگار نے عقل ِ عام یعنی Common Sense اور مذہب میں تعلق کی بات کی ہے، اس کی بابت ہماری گزارش ہے: دین ومذہب اور عقل ِ عام میں کوئی تضاد (Contradiction) نہیں ہے، مگر عقل ِ سلیم کا ہونا شرط ہے، عقل ِ عیّار اور عقل ِ آوارہ کی بات الگ ہے۔ اسلام کو تو دین ِ فطرت سے تعبیر کیا جاتا ہے، اسلام کی کوئی بات عقل سے ماورا تو ہوسکتی ہے کہ ہماری ناقص عقل کو دین کی کسی بات کی حکمت سمجھ میں نہ آئے، لیکن ضدِّعقل نہیں ہوسکتی۔ رہا یہ سوال کہ صحت اور اصابت (Righteousness) کے لیے معیار کیا ہے، تو ہماری سوچ یہ ہے کہ معیار ’وحی ِ ربّانی‘ ہے، امین ِ وحی ِ ربانی سیدنا محمد رسول اللہؐ کے اقوال، افعال اور احوالِ مبارکہ ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے: سرسید احمد خان نے رسول اللہؐ کی معراجِ جسمانی کو ردّ کرنے کے لیے قانونِ فطرت (Law of Nature) کو معیار ومدار بنایا اور یہاں تک کہا: اگر نبیؐ کی جسمانی معراج کی بابت احادیث جرح وتعدیل کے معیار پر صحیح بھی ہوں، تو ہم کہیں گے: صحابی کو سمجھنے میں غلطی ہوگئی، کیونکہ قوانین ِ فطرت ناقابل ِ تغیّر اور غیر متبدّل ہیں، اُن کے برخلاف کوئی چیز وقوع پزیر نہیں ہوسکتی، جیسے: پتھر بلندی کی طرف پھینکا جائے اور اُسے کسی مادّی طاقت یا میکنزم کے ذریعے فضا میں معلق نہ کیا جائے تو وہ لازماً واپس زمین کی طرف آئے گا، کیونکہ یہ قانونِ فطرت ہے۔ اسی طرح کوئی شخص اپنے جسم کے ساتھ مادّی اسباب کے بغیر بلندیوں کی طرف پرواز نہیں کرسکتا، لہٰذا جسمانی معراج کے دعوے کو قانونِ فطرت کے خلاف ہونے کے سبب معاذ اللہ ردّکردیا جائے گا۔
پس ہماری گزارش ہے: اس سوچ سے ہم متفق نہیں ہوسکتے، ہمارا نظریہ یہ ہے: قوانین ِ فطرت عالَمِ اسباب میں کارفرما ہیں اور حاکم ہیں۔ سنّت ِ الٰہیہ یہ ہے کہ نظامِ کائنات اُن قوانین کے مطابق چل رہا ہے، لیکن یہ قوانین فاطِر اور خالِق پر حاکم نہیں ہیں، وہ جب چاہے انہیں پلٹ سکتا ہے، مثلاً: عام قانونِ فطرت یہ ہے کہ مرد وزن اور مادہ ونر کے اختلاط سے افزائش ِ نسل ہوتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے عیسیٰؑ کو باپ کے واسطے کے بغیر، اماں حواؑ کو عورت کے واسطے کے بغیر، سیدنا آدمؑ کو دونوں واسطوں کے بغیر پیدا کرکے بتادیا کہ اُس کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے، وہ ان اسباب کا خالق ہے، ان پر حاکم ہے، معاذ اللہ! ان کا تابع یا پابند نہیں ہے۔
فقہی مسئلہ یہ ہے: جنابت، یعنی جن صورتوں میں غسل واجب ہوتا ہے، کی معنوی نجاست انسان کے پورے جسم ِ ظاہری پر اثرانداز ہوتی ہے اور غسل ِ طہارت کرتے وقت جب تک ایک ایک روئیں کی جڑ تک پانی نہ پہنچ جائے، طہارتِ شرعی حاصل نہیں ہوتی، حدیث پاک میں ہے: ’’سیدنا علیؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: جس نے جنابت کے ازالے کے لیے (غسل ِ طہارت کرتے ہوئے) ایک بال کی جگہ بھی چھوڑ دی اور اُسے نہ دھویا تو اُس کے ساتھ آگ میں یہ یہ سلوک کیا جائے گا (یعنی رسول اللہؐ نے عذاب کی وعید فرمائی)، سیدنا علیؓ نے تین مرتبہ فرمایا: اسی باعث میں نے اپنے سر (کے بالوں) سے دشمنی اختیار کرلی ہے، لہٰذا آپ اپنے بالوں کو مونڈا کرتے تھے (تاکہ کہیں غسل کے وقت بے احتیاطی میں کسی بال کی جڑ تک پانی پہنچ نہ پائے)‘‘۔ (ابوداوٗد) عقلاً کوئی یہ سوال کرسکتا ہے کہ جنابت کی ناپاکی حسّی نہیں، بلکہ معنوی ہیں، تو وہ ہر بال کی جڑ تک کیسے سرایت کرجاتی ہے، یہ بات ہمیں شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تعلیم فرمائی ہے، اسی پر ہمارا ایمان ہے اور اسی پر ہم عمل پیرا ہیں۔
اسی طرح فقہی مسئلہ ہے: ’’حالت ِ اقامت میں ایک دن اور حالت ِ سفر میں تین دن تک وضو کرتے وقت پائوں دھونے کے بجائے موزوں پر مسح کرنے کی رخصت ہے اور یہ مسح پائوں کی پشت پر کیا جاتا ہے، اس کی بابت سیدنا علیؓ فرماتے ہیں: ’’اگر دین کے فیصلے رائے (اور عقل ِ عام) پر ہوتے تو پائوں کی پشت کے بجائے پائوں کے تلووں پر مسح کرنا بہتر ہوتا (کیونکہ چلتے وقت زمین سے پائوں کے تلوے ٹکراتے ہیں نہ کہ پشت)، چونکہ میں نے رسول اللہؐ کو پائوں کی پشت پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے، (اس لیے میں اپنی عقلی اُپج کے برعکس اتباعِ رسول کو ترجیح دیتا ہوں)‘‘، (ابوداوٗد) اقبال نے کہا ہے:
گزر جا عقل سے آگے، کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے، منزل نہیں ہے
پس عقل کو ہم اُس وقت تک ہادی مانتے ہیں، جب اُس کی رہنمائی شریعت کے صریح احکام سے متصادم نہ ہو اور جہاں متصادم ہوجائے گی تو عقل کی سوچ کو قربان کر کے وحی ِ ربانی کو اپنا ہادی بنائیں گے، کیونکہ ہادیِ مطلق اللہ کی ذات ہے اور اُس کے فیضان سے رسول اللہؐ کی ذاتِ گرامی ہے۔ مغرب میں LGBT+ قانونی شکل اختیار کرچکی ہے، یہ اہل ِ مغرب کی اجتماعی یا اکثری دانش کا مظہر ہے، حتیٰ کہ ہمارے ہاں بھی یہ تحریک لبرل اور آزادمَنِش لوگ چلارہے ہیں، تو کیا اس کے مقابل ہمیں شریعت کے احکام کو ردّکردینا چاہیے۔
آج سے تقریباً آٹھ سو برس پہلے عالَمِ اسلام میں ایک فرقہ پیدا ہوا تھا، اسے فرقۂ باطنیہ اور قرامطہ کہتے تھے، اس فرقے کا ایک مشہور رہنما عبیداللہ بن حسن قیروانی ہے، اس نے اپنے پیروکاروں کے نام ایک خط لکھا اور اس میں زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دیں، اس خط کے آخر میں وہ لکھتا ہے: ’’میری سمجھ میں یہ بے عقلی کی بات نہیں آتی کہ لوگوں کے پاس اپنے گھر میں ایک بڑی خوبصورت سلیقہ شعار لڑکی بہن کی صورت میں موجود ہے، وہ بھائی کے مزاج کو بھی سمجھتی ہے، اس کی نفسیات سے بھی واقف ہے، لیکن یہ بے عقل انسان اُس بہن کا ہاتھ ایسے اجنبی شخص کو پکڑا دیتا ہے، جس کے بارے میں اُسے معلوم نہیں کہ اس کی بہن کا اُس سے نباہ ہوسکتا ہے یا نہیں، جبکہ وہ اُس کے مزاج سے واقف بھی نہیں ہے، خود اپنے لیے بعض اوقات ایسی لڑکی لے آتے ہیں جو حسن وجمال، سلیقہ شعاری اور مزاج شناسی کے اعتبار سے اس کی بہن کے ہم پلہ نہیں ہوتی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا: اس بے عقلی کا کیا جواز ہے کہ اپنے گھر کی دولت کو دوسرے کے حوالے کردیا جائے اور اپنے لیے ایک ایسی چیز لے آئے جو اُسے پوری طرح سے راحت وآرام نہ دے سکے، یہ بے عقلی ہے، عقل کے خلاف ہے، میں اپنے پیروکاروں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس بے عقلی سے اجتناب کریں اور اپنے گھر کی دولت کو گھر ہی میں رکھیں اور اُس سے فائدہ اٹھائیں‘‘۔ (اَلْفَرقُ بَیْنَ الْفِرَق) سو کبھی کبھی عقل پر مبنی سوچ شریعت سے ٹکراتی ہے، لہٰذا ہم عقل کو ’’ہادیِ مطلق‘‘ یا ’’ہادیِ کامل‘‘ کبھی بھی تسلیم نہیں کرسکتے، البتہ شریعت میں مباحات کا دائرہ بڑا وسیع ہے اور اُن امور میں جو شریعت سے متصادم نہیں ہیں، دانش ِ کُلّی یا دانش ِ اکثری سے فیصلہ کریں گے،
اسی طرح انفرادی معاملات میں آج بھی لوگ اپنی عقل سے فیصلہ کرتے ہیں اور کسی نے اس پر قدغن نہیں لگائی، بس اس قدر احتیاط لازم ہے کہ شریعت کو عقل کے تابع نہیں کرسکتے۔
امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت فرماتے ہیں: ’’اگر میں (سنّت کی) نصوص کو چھوڑتا اور اپنی رائے پر عمل کرتا توکہتا: پیشاب کرنے سے غسل واجب ہوجاتا ہے اور منی نکلنے سے محض وضو واجب ہوتا ہے، سبب یہ ہے کہ پیشاب کے نجس ہونے پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے، جبکہ منی کے نجس ہونے میں ائمہ کا اختلاف ہے، اسی طرح میں وراثت میں مرد کو عورت کا نصف حصہ دینے کا حکم دیتا، کیونکہ عورت کمزور ہوتی ہے اور کمزور کا حق زیادہ ہوتا ہے، نیز ارکانِ اسلام کی ترتیب کے اعتبار سے توحید ورسالت کی شہادت کے بعد نماز سب سے اہم رکن ہے، اگر میں عقل سے فیصلہ کرتا تو کہتا: ایامِ مخصوص میں عورت کی جو نمازیں چھوٹ جاتی ہیں، اُن کی قضا ہونی چاہیے، جبکہ میں اس کا قائل نہیں ہوں، اس کے برعکس روزے چھوٹ جائیں تو اُس کی قضا کا قائل ہوں، کیونکہ میں وحی کو عقل پر ترجیح دیتا ہوں‘‘۔
قرآنِ کریم میں صریح آیات ہیں، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (۱) ’’اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو قائم کریں گے‘‘، (الانبیاء: 47) (۲) ’’آج کے دن (اعمال کا) وزن حق ہے‘‘۔ (الاعراف: 8) (جاری ہے)