پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے جمعرات کے روز گوادر کا دورہ کیا جس کے دوران انہوں نے بلوچستان کے لیے بعض فلاحی منصوبوں کا اعلان بھی کیا، پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق اس موقع پر انہیں سلامتی کی موجودہ صورت حال، سی پیک منصوبوں کے تحفظ کے لیے فارمیشن کی آپریشنل تیاریوں اور پر امن و محفوظ ماحول کو یقینی بنانے کی کوششوں پر بریفنگ دی گئی، جنرل عاصم منیر نے افسروں اور جوانوں کی کوششوں کو سراہا اور اس بات پر زور دیا کہ بلوچستان کے عوام کے مفاد میں پیشہ ورانہ عزم کے ساتھ کام جاری رکھیں، پاک فوج کے ترجمان کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق جنرل عاصم منیر نے اپنے دورہ میں مقامی معززین، منتخب نمائندوں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے نمایاں افراد سے ملاقاتیں بھی کیں، اس موقع پر انہوں نے کہا کہ مٹھی بھر گمراہ عناصر بلوچستان کے عوام اور مسلح افواج کے امن و خوش حالی کو یقینی بنانے کے عزم کو متزلزل نہیں کر سکتے، انہوں نے علاقے کی سماجی و معاشی ترقی پر خصوصی زور دیا اور تعلیم، سولر سسٹم کی تنصیب، ماہی پروری، پانی، صحت، کھیلوں اور ذرائع معاش کے لیے مختلف فلاحی منصوبوں کا اعلان کیا ۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کا گوادر کا یہ دورہ خوش آئند ہے اور توقع کی جانا چاہئے کہ علاقہ میں امن و امان کی صورت حال اور تعمیر و ترقی کی سرگرمیوں پر اس دورہ کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور گوادر کی پسماندگی کے خاتمہ اور عوام کی فلاح و بہبود کی جانب قابل قدر پیش رفت ہو گی اور مسائل و مصائب سے نجات کے سلسلے میں ٹھوس نتائج بھی سامنے آئیں گے تاہم اس ضمن میں یہ عرض کرنا شاید نامناسب نہیں ہو گا کہ جب فوج خود کو اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں تک محدود رکھنے کا اعلان اور پختہ عزم ظاہر کر رہی ہے تو فلاحی و تعمیراتی منصوبوں کے اعلانات بھی صوبے کی حکومت کے سربراہ یا دوسرے متعلقہ لوگ ہی کریں، بلوچستان کے وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو اس دورہ میں جنرل عاصم منیر کے ہمراہ تھے بہتر ہوتا کہ ترقیاتی منصوبوں کے اعلان کا کام ان ہی کے لیے چھوڑ دیا جاتا۔ اس طرح پاک فوج کے خود کو پیشہ ورانہ سرگرمیوں تک محدود رکھنے کے اعلان پر عملدرآمد کا تاثر بھی مستحکم ہوتا۔
پاک فوج کے سربراہ کے اس دورہ سے متعلق یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انہوں نے مقامی معززین اور منتخب نمائندوں سے ملاقاتیں بھی کیں تاہم شعبہ تعلقات عامہ کی جاری کردہ خبر میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ یہ منتخب نمائندے کون تھے کیوں کہ گوادر کے منتخب قائد مولانا ہدایت الرحمن تو اپنے علاقہ کے بے بس اور بے کس لوگوں کے حقوق کے تحفظ کی خاطر جدوجہد کرنے کے جرم میں اس وقت پس دیوار زنداں ہیں اور ان پر ایسی ایسی دفعات کے تحت مقدمات قائم کئے گئے ہیں کہ بار بار کی کوششوں اور عدالتی چارہ جوئی کے باوجود انہیں ضمانت پر رہائی بھی نہیں مل سکی، حالانکہ مولانا ہدایت الرحمن اور ان کے ساتھ گرفتار کئے جانے والے ان کے ساتھیوں اور منتخب نمائندوں کا قصور اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ وہ اپنے علاقہ کی تعمیر و ترقی اور یہاں کے عوام کے حقوق کی بحالی کے لیے تحریک چلا رہے تھے، جس روز جنرل عاصم منیر گوادر کا دورہ کر رہے تھے، اس روز بھی علاقہ عوام اپنے ہر دلعزیز رہنما اور انتھک قائد مولانا ہدایت الرحمن کی رہائی کے لیے گوادر میں احتجاج کر رہے تھے ممکن ہے خصوصی انتظامات کے تحت جنرل صاحب کو اس احتجاج سے بے خبر رکھ کر کچھ خود ساختہ ’’منتخب عوامی نمائندوں اور معززین‘‘ سے ان کی ملاقاتیں کروا دی گئی ہوں جنہوں نے علاقہ کی حقیقی صورت حال اور عوام کو درپیش مسائل سے انہیں آگاہ کرنے کے بجائے ’’معززین‘‘ کی روایت کے مطابق خوشامد اور ’’سب اچھا‘‘ کا راگ الاپنے ہی میں عافیت سمجھی ہو۔ جنرل عاصم منیر نے اس موقع پر اپنی گفتگو میں یہ بھی کہا کہ گمراہ، عناصر بلوچستان کے عوام کی خدمت اور امن کی خاطر پاک فوج کا عزم متزلزل نہیں کر سکتے، ان کا یہ اعلان نہایت مستحسن اور حوصلہ افزا ہے تاہم اس ضمن میں بھی یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ان کے دورہ گوادر میں ان کے پہلو میں موجود لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور جو آج کل کور کمانڈر کوئٹہ ہیں، جب شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ تھے، تو ’’بڑے وثوق سے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کرتے تھے کہ ’’یہ جو دہشت گردی ہے……‘‘ جیسے گمراہ کن نعرے لگانے والوں کو بیرون ملک سے پاکستان دشمنوں کی سرپرستی حاصل ہے اور ان کی جانب سے ان لوگوں کو فنڈز بھی مل رہے ہیں مگر آج ان میں سے اکثر لوگ ہماری موجودہ حکومت کا حصہ بن چکے ہیں اور پاک فوج کا شعبہ تعلقات عامہ اب ان سے متعلق خاموش ہے جس سے بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں۔ پاک فوج کو اس سلسلے میں اپنی پالیسی کے بارے میں عوام کو اعتماد میں لینے میں تاخیر نہیں کرنا چاہئے تاکہ ملک و قوم کے دشمن عناصر کو عوام کے ذہن پراگندہ کرنے کا موقع نہ مل سکے۔
اس ضمن میں یہ گزارش بھی بے جا نہ ہو گی کہ مولانا ہدایت الرحمن جیسے مخلص اور منتخب عوامی نمائندوں کی بات ہمدردی اور سنجیدگی سے سننے کے بجائے ان کو قید و بند کی صعوبتوں سے گزارا جائے گا حالانکہ ان کی پاکستان سے محبت اور وفاداری بہرحال ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے اور ان کی جدوجہد بھی سو فیصد جمہوری اور پر امن ہے، ان کا کوئی مطالبہ بھی بلاجواز اور نامناسب قرار نہیں دیا جا سکتا پھر آخر ان سے معاہدوں اور وعدوں کے باوجود اس علاقہ کے پسماندہ اور حقوق سے محروم لوگوں کی آواز سننے کے بجائے مولانا ہدایت الرحمن اور ان کے ساتھیوں پر تشدد اور ظالمانہ مقدمات کے ذریعے ہمارے حکمران امن پسند شہریوں کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟ اطلاعات کے مطابق جمعۃ المبارک کے روز مولانا ہدایت الرحمن کی رہائی کے لیے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر محترم سراج الحق کی قیادت میں ایک بڑا جرگہ بھی بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں منعقد کیا گیا۔ امید کرنا چاہئے کہ حکومت کے فیصلہ ساز اس جرگہ کی آواز پر توجہ دیتے ہوئے مولانا ہدایت الرحمن کی رہائی میں مزید رکاوٹیں کھڑی نہیں کریں گے۔ یہ بات کسے نہیں معلوم کہ جب جمہوری راستے مسدود کئے جاتے ہیں تو غیر جمہوری عناصر کو اپنا کھیل کھیلنے کا موقع ملتا ہے۔ ہمارا حکمران طبقہ اپنا رویہ آخر کب تبدیل کرے گا۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کا یہ فرمان یقینا بہت اہم ہے کہ مٹھی بھر گمراہ عناصر بلوچستان کے عوام اور فوج کا عزم متزلزل نہیں کر سکتے مگر ہمارے فیصلہ سازوں کو اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ لوگوں کو گمراہی کا راستہ دکھانے میں خود ان کی ناقص حکمت عملی اور بے تدبیری کا بھی خاصا عمل دخل ہے جس کی اصلاح کی جانب فوری توجہ دینا اورموثر اقدامات روبہ عمل لانا بھی ملک و قوم کو درپیش حالات اور وقت کا اہم تقاضا ہے…!!!