انصاف وہ جو نظر آئے

747

فرنکفرٹ انٹر نیشنل ائر پورٹ کے قریب ایک گاؤں تھا جس کا نام ’’ٹری بور‘‘ تھا۔ وہاں کی رہائشی ایک بوڑھی عورت نے فرنکفرٹ انٹر نیشنل ائر پورٹ کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا جس کی وجہ خاتون نے کچھ یوں بیان کی۔ رات کے وقت جہازوں کا شور اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ میں رات کو سو نہیں سکتی، جس کی وجہ سے میری اکثر طبیعت خراب رہتی ہے۔ عدالت میں جج نے اُس بوڑھی عورت کی پوری بات سننے کے بعد عورت سے پوچھا کہ آپ اب کیا چاہتی ہیں۔ اس شور کے عوض آپ ائرپورٹ سے کچھ معاوضہ حاصل کرنا چاہتی ہیں یا ائرپورٹ سے دور ایک عدد گھر حاصل کرنا چاہتی ہیں؟۔ عورت نے جواب میں کچھ یوں کہا، میں یہاں اپنے ذاتی گھر میں رہتی ہوں اور عرصہ دراز سے یہاں زندگی گزار رہی ہوں، چونکہ اب میری طبیعت اس قدر شور برداشت نہیں کر سکتی، اس لیے اس مسئلے کا کوئی اور معقول حل تلاش کیا جائے اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ نہ تو مجھے کوئی پیسوں کی ضرورت ہے اور نہ ہی میں اپنا گاؤں چھوڑ کر کہیں جانا چاہتی ہوں۔ اس بات سے اُس وقت کے موجودہ حکام بھی بہت پریشان ہوئے کہ اب اس مسئلے کا کیا حل ہو سکتا ہے، اس لیے کہ نہ تو عورت یہاں سے جانا چاہتی ہے اور نہ اتنے بڑے ائرپورٹ کو کہیں اور منتقل کیا جا سکتا ہے۔ ائرپورٹ حکام نے عورت کو کیس سے پیچھے ہٹ جانے کے لیے بے شمار پیشکشیں کیں، ائرپورٹ سے دور عالی شان گھر کی پیشکش کی اور ساتھ بڑی رقم دینے کے لیے بھی کہا لیکن وہ بوڑھی عورت اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ آخرکار تھک کر جج نے کہا اگر ہم آپ کی نیند کے ٹائم کو مینج کر لیں، مطلب رات کا ایک مخصوص ٹائم جب آپ سو رہی ہوں تب ائرپورٹ پر کوئی فلائٹ نہیں اترے تو کیا آپ کو یہ فیصلہ منظور ہو گا جس پر وہ عورت راضی ہوگئی، اور تب سے لے کر آج تک فرنکفرٹ انٹرنیشنل ائرپورٹ پر رات 12 سے لے کر صبح 5 بجے تک کوئی فلائٹ نہیں اترتی (منقول)۔
کہاں ایک نہایت کم حیثیت عورت اور کہا کھرب ہا کھرب کی لاگت سے تعمیر ہونے والا انٹر نیشنل ائر پورٹ۔ کہاں کسی غریب عورت کی نیند کا سوال اور کہاں 5 گھنٹوں کے لیے فلائٹ بند کرنے کے نتیجے میں لاکھوں ڈالر آمدنی کم ہوجانے کا نقصان لیکن جن قوموں کے نزدیک انسانوں، ان کی جان و مال، ان کی مشکلات، ان کے مسائل اور ان کے حقوق کی پاس داری کا خیال ہوتا ہے وہاں دھن دولت کو نہیں دیکھا جاتا۔ غور کی بات یہ ہے کہ اگر اسی قسم کا کوئی مقدمہ پاکستان کی کسی عدالت میں کسی ایسی ہی ایک معمولی خاتون کی جانب سے دائر کیا جاتا تو پہلے تو اس کو قابل ِ سماعت ہی نہیں سمجھا جاتا اور اگر قدرت کی جانب سے کسی معجزے کے نتیجے میں مقدمہ قابل ِ سماعت سمجھ کر چلانا ہی پڑ جاتا تو اس عورت کو مجبور کر دیا جاتا کہ وہ اپنا تام تھوبڑا اٹھا کر کسی دوسری جگہ منتقل ہو جائے بصورتِ دیگر اس کو زبردستی اٹھا کر کسی ویرانے میں پھینکا بھی جا سکتا ہے۔
جس ملک میں جج کے سامنے دورانِ سماعت انسان قتل کر دیے جائیں اور قاتلوں کو بھاگنے سے پہلے ہی گرفتار بھی کر لیا جائے تو جج صاحب فرماتے ہیں کہ مجرم کے خلاف ہم اس وقت تک فیصلہ نہیں دے سکتے جب تک ہمارے سامنے گواہان قتل کی شہادت نہ دے دیں، وہاں اتنے اعلیٰ قسم کے انصاف کی توقع کرنا کتنی بڑی حماقت ہوگی۔
سوشل میڈیا ہو یا الیکٹرونک میڈیا یا پھر پرنٹ میڈیا، نہ جانے کتنے ایسے واقعات سے بھرے پڑے ملیں گے جس میں عدالتی فیصلے نہایت سفاکانہ مذاق بنے دکھائی دیں گے۔ کتنی خواتین ایسی ملیں گے جن پر حرام کاری کا گھناؤنا الزام تھا لیکن تیس تیس برس بعد ان کو معصوم قرار دیکر ان کی رہائی کے پروانے جاری کیے گئے ہوں گے۔ نہ جانے کتنے پھانسی پا جانے والے ملزمان کو ان کی موت کے برسوں بعد بے گناہ قرار دے کر ان کی رہائی کے احکامات جاری کیے جانے جیسے واقعات تو اب اتنے عام ہو چکے ہیں کہ جی یہی چاہتا ہے کہ تمام عدالتوں کو مسمار کرکے جرگہ سسٹم نافذ کر دیا جائے جہاں فیصلہ غلط ہوتا ہے یا درست، لیکن معاملات برسوں کے بجائے منٹوں اور سیکنڈوں میں نمٹا دیے جاتے ہیں۔ مانا کہ وہاں بھی انصاف سے کام نہ لیا جاتا ہو لیکن کیا ہماری عدالتیں، خواہ وہ چھوٹی ہوں یا بڑی، سارے فیصلے منصفانہ اور آئین و قانون کے مطابق کرتی ہیں؟۔
اسی فیصلے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے کہ جہاں عدالتوں کے جج کسی بھی دباؤ میں آئے بغیر جو فیصلہ بھی کرتے ہیں وہ آئین و قانون کے مطابق اور مبنی بر انصاف کرتے ہیں وہیں کوئی کتنا ہی غریب شہری ہو وہ لالچ اور بلیک میلنگ کی ہر سوچ سے بہت دور ہوتا ہے۔ ’’ٹری بور‘‘ گاؤں کی اُس خاتون کو کیا کیا پیشکشیں نہیں کی گئیں، اعلیٰ سے اعلیٰ رہائش کا کہا گیا، بھاری سے بھاری رقوم بطورِ معاوضہ دینے کا کہا گیا لیکن اس غریب عورت نے کسی بھی پیشکش کو قبول نہ کرکے یہ ثابت کر دیا کہ وہ یہ مقدمہ اپنی ذاتی منفعت کے لیے لڑ ہی نہیں رہی تھی۔ وہ صرف سکون چاہتی تھی اور جو کچھ اسے میسر تھا وہ اس پر قانع تھی۔ ظاہر ہے اس گاؤں میں صرف وہی تو رہائش پزیر نہیں ہوگی، اس کی وجہ سے کتنے نفوس کو ذہنی سکون میسر ہوا ہوگا اور دنیا میں مزید جن جن کو آنا ہے، وہ سب بھی ایک پر سکون نیند حاصل کرتے رہیں گے۔
اس ایک واقعے کا کراچی ماڈل کالونی کے عین اوپر سے گزرنے والے ہوائی جہازوں کے شور کا موازنہ کریں تو بات کہاں سے کہاں جا نکلے گی اور اگر اس موازنے میں آبادی پر گر جانے والے ایک ہوائی جہاز کا ذکر بھی کردیا جائے تو حرج کی کوئی بات نہیں، جس کے متاثرین آج تک اپنے نقصانات کے پورا ہونے کے منتظر ہیں اور فلائٹیں ہیں کہ اسی طرح چیختی دھاڑتی راتوں کی نیندیں اور دن کے سکون کو برباد کرتی مسلسل محو ِ پرواز ہیں۔