افغانستان کے بعد ایرانی لڑکیوں پر ویب حملہ؟

892

عالمی اخبارات اور ڈی ڈبلیوں نیوز کا کہنا ہے کہ ’’ایران میں لڑکیوں کے اسکولوں پر گیس حملوں میں 1000 سے زائد لڑکیوں کو بیماری کی حالت میں اسپتال لایاگیا یہ تمام حملے ’’قم‘‘ یا دیگر مدرسے میں پڑھنے والی لڑکیوں پر کیا جارہا ہے جہاں لڑکیاں حجاب استعمال کرتی ہیں۔ اسپتالوں سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ان لڑکیوں کا کہنا ہے ان کو پہلے ایک گیس کی آواز آتی ہے جس کے بعد بدبو محسوس ہوتی ہے اور اس کے فوری بعد اُلٹی شروع ہوجاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی ان کے چلنے کی قوت ختم ہو جاتی ہے۔ عالمی اخبارات کا کہنا ہے کہ یہ ایک ویب حملہ بھی ہو سکتا ہے۔ ان حملوں میں ایک حیران کن انکشاف لڑکیوں کے میڈیکل رپورٹ سے پتا چلا ہے کہ تام لڑکیوں میں ایک عنصر دریافت ہوا ہے جس میں زہر کی ایک خاص مقدار شامل نظر آرہی ہے جیسا کہ بم کے اندر پائی جاتی ہے۔ ایرانی خبر رساں ایجنسی کے مطابق 14 فروری کو کئی بیمار طالبات کے والدین نے حکام سے بچیوں کے بیمار ہونے پر وضاحت طلب کی۔ تاہم اگلے دن حکومتی ترجمان علی بہادری نے کہا کہ انٹیلی جنس اور حکام زہر دینے کی وجہ تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ 14 فروری کو زہریلی گیس سے متاثرہ طالبات کے والدین نے قم کے گورنر ہاؤس کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔ اگلے دن حکومتی ترجمان علی بہادری جہرمی نے کہا کہ انٹیلی جنس اور وزارت تعلیم زہر خورانی کی وجہ جاننے کی کوشش کر رہی ہیں۔
پچھلے ہفتے پراسیکیوٹر جنرل محمد جعفر منتظری نے ان واقعات پر عدالتی تحقیقات کا حکم دیا جس کے بعد عدالت نے اعلان کیا ہے ان تمام مقدمات کا فیصلہ ہنگامی بنیادوں پر ہوگا اور مجرموں کو سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا یہ ساری صورتحال اچانک پیدا ہوگئی یا اس سے قبل بھی یہ ساری صورتحال موجود تھی۔ ایران میں قم مدرسے میں پڑھنے والی لڑکیوں کو اس صورتحال کا سامنا نومبر 2022ء سے ہے لیکن اب قم کے علاوہ دیگر اسکولوں میں ویب حملے تواتر سے جاری ہیں۔ تہران کے جنوب میں واقع قم میں گزشتہ سال نومبر سے اسکول کی طالبات میں زہر کی وجہ سے سانس لینے کی تکلیف کے سیکڑوں واقعات سامنے آئے جن میں کئی لڑکیوں کو اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ لیکن اب تک ایرانی حکومت خاموش تھی اور اس سلسلے میں کچھ بھی عملی اقدامات نہیں کیا جارہا ہے اب یہ کہا جارہا ہے کہ ملک کے اندر یا باہر جو بھی ان حالات کا ذمے دار ہے اس کو سخت سزا دی جائے گی۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق اس بات کا انکشاف ایک ایرانی نائب وزیر یونس پناہی نے کیا، جن کا کہنا ہے کہ ایران میں اسکول کی طالبات کو زہر دیا گیا کیونکہ کچھ افراد لڑکیوں کی تعلیم کو روکنا چاہتے ہیں۔ رپورٹوں کے مطابق دارالحکومت تہران کے جنوب میں واقع قم میں گزشتہ سال نومبر سے اسکول کی طالبات میں زہر کی وجہ سے سانس لینے کی تکلیف کے سیکڑوں واقعات سامنے آئے جن میں کئی لڑکیوں کو اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ نائب وزیر صحت یونس پناہی نے واضح طور پر تصدیق کی کہ جان بوجھ کر لڑکیوں کو زہر دیا گیا تھا۔ ایرانی خبر رساں ایجنسی کے مطابق یونس پناہی نے کہا کہ کچھ لوگ چاہتے تھے کہ خاص طور پر لڑکیوں کے اسکول بند کردیے جائیں اس لیے طالبات کو زہر دیا گیا۔ انہوں نے مزید تفصیل نہیں بتائی اور نہ کسی ہلاکت کا معلوم ہوسکا۔ رپورٹوں میں بتایا گیا کہ ابھی تک لڑکیوں کو زہر دینے کے واقعات کے خلاف کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ اب تک ان حملوں میں کسی لڑکی کی ہلاکت کی بھی خبر نہیں آئی ہے۔
امریکا، برطانیہ اور اقوام ِ متحدہ نے لڑکیوں کے اسکولوں پر گیس حملوں میں 1000سے زائد لڑکیوں کے بیمار حالت میں اسپتال لائے جانے کے بعد سخت ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔ ایران کے کئی دوسرے شہروں سے طلبہ کو زہر دیے جانے کی اطلاعات ہیں۔ گزشتہ دو ہفتوں میں اس عمل میں تیزی آئی ہے اور مزید طالبات کو مبینہ طور پر زہر دیا گیا ہے۔ لڑکیوں کو زہر دینے کے حوالے سے ابھی تک کوئی واضح وجہ نہیں بتائی گئی، لیکن ایران کے سرکاری ذرائع نے مختلف واقعات منتخب کیے ہیں، جن میں سے کچھ زیادہ قابل اعتبار نہیں۔
ایک ایرانی وزیر کے مطابق ایران میں لڑکیوں کو اسکولوں سے باہر رکھنے کے لیے ’کیمیائی مرکبات‘ کا استعمال کرتے ہوئے زہر دیا جا رہا ہے۔ ایران کے نائب وزیر صحت یونس پناہی نے اتوار کو مزید تفصیلات فراہم کیے بغیر کہا کہ ’بعض افراد نے تمام اسکولوں، خاص طور پر لڑکیوں کے اسکولوں کو بند کرنے کی کوشش کی۔ رائٹر کے مطابق دارالحکومت تہران اور اردبیل کے شمال مغربی شہر سمیت چار شہروں میں کم از کم 14 اسکولوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اٹارنی جنرل محمد جعفر منتظری نے قم پراسیکیوٹر کے نام ایک خط میں اس معاملے کو جان بوجھ کر حالات خراب کرنے کی کوشش قرار دیا۔ اے ایف پی کے مطابق اس طرح کی صورتحال افغان طالبات کے ساتھ 21 دسمبر 2022 کو کابل کی ایک نجی یونیورسٹی میں پیش آچکی ہے۔ 2015 ہرات کے مختلف علاقوں میں ایک ماہ کے اندر لڑکیوں کے اسکول کی طالبات کو چار مرتبہ زہر دیا گیا تھا جس کے بعد ایرانی ٹیلی گرام گروپ میں فدائیان ولایت نامی گروپ کے بارے میں خبریں شائع ہوئیں جس نے ان زہریلے حملوں کی ذمے داری قبول کی تھی۔ گروپ نے اس کا مقصد لڑکیوں کو گھر پر رکھنا اور انہیں تعلیم حاصل کرنے سے روکنا بتایا۔ کہا جاتا ہے کہ گروہ نے رات کو پمفلٹ بھی تقسیم کیے، جن میں لڑکیوں کی تعلیم کو حرام اور ’امام زمان کے خلاف جنگ‘ قرار دیا تھا۔
اسکول کی طالبات کو زہر دینے کی وجوہات کے بارے میں ابھی تک کوئی سرکاری رپورٹ شائع نہیں ہوئی، لیکن ایران میں رائے عامہ پر جو سوال چھایا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ کیا یہ نقطہ نظر ایران کے اندر مذہبی تحریکوں پر طالبان کے اثر رسوخ کی وجہ سے ہے؟ افغانستان پر قبضہ کرنے کے ابتدائی دنوں سے طالبان گروپ نے مڈل اسکول اور اس سے اوپر کے لڑکیوں کے اسکول بند کرتے ہوئے لڑکیوں کو اسکول جانے سے روک دیا تھا۔ افغانستان میں طالبات کو زہر دینے کی ایک تاریخ ہے۔ 2012 اور 2016 کے درمیان افغان اسکولوں میں طالبات کو بار بار زہر دیا گیا۔ یہ رجحان ہرات میں زیادہ تھا، جو ایران سے متصل ہے۔ قم کی طرح یہاں لڑکیوں کو سب سے زیادہ زہر دینے کے واقعات ہوئے۔ ہرات میں دیے جانے والے زہر کی علامات بھی اسی طرح کی ہیں جو ایران میں سامنے آئیں۔ افغانستان میں طالبات نے چکر آنا، متلی، انتہائی کمزوری اور شدید سر درد کی بھی شکایت کی۔ 2015 ہرات کے مختلف علاقوں میں ایک ماہ کے اندر لڑکیوں کے اسکول کی طالبات کو چار مرتبہ زہر دیا گیا تھا۔
ایسا لگتا ہے کہ ایران میں اسکول کی طالبات کو زہر دینے میں ملوث گروہ افغانستان میں استعمال کیے جانے والے طریقوں سے متاثر تھے یا پھر افغانستان میں یہ کارروائیاں کرنے والوں کو ایران میں لڑکیوں کو زہر دینے کا سبق سکھایا گیا تھا۔ ایرانی میڈیا نے بھی یہ اطلاع دی کہ ’ہزار سالہ‘ کے نام سے جانے جانا والا ایک گروہ اس فعل کا ذمے دار تھا۔ میلینیالسٹ ایک ایسا گروہ ہے جو دنیا کے قریب آنے اور انصاف، اچھائی اور ہم آہنگی پر مبنی ایک نئے نظام کے قیام پر یقین رکھتا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ لڑکیوں کو اسکول نہیں جانا چاہیے اور وہ صرف تیسری جماعت تک ہی پڑھ سکتی ہیں۔ ہزارہ کو طالبان کے شیعہ ورژن کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم، مذہبی انتہا پسندانہ افکار کی تشکیل اور ایران میں خواتین مخالف تحریکوں کا زور پکڑنا تشویش ناک نظر آتا ہے۔