کراچی کہ ایک شہر برباد ہے، جس پر آہ و فغان اور ماتم کرنے والے تو بہت ہیں، لیکن اس کے دکھوں کا مداوا کرنے والا کوئی نہیں، اب گھر یا دفتر سے نکلتے ہوئے آپ کو پتا نہیں چلتا کہ آپ وقت پر دفتر، گھر، یا کسی تقریب پہنچ پائیں گے۔ شہر کا ٹریفک بے قابو ہے، اور احتجاج یا کھیل کے سبب کہیں سے بھی آپ کو اپنے راستے سے کسی اور طرف دھکیل دیا جاتا ہے، دو دن پہلے شام کو اچانک کراچی کی سڑکیں جام ہوئیں اور پھر لوگ راستہ پانے کے لیے جگہ جگہ مارے پھرتے رہے، اسٹیڈیم اور اطراف کا علاقہ تو پی ایس ایل کرکٹ کے سبب بند ہی تھا، اوپر سے کئی علاقوں میں احتجاج کرنے والوں نے سڑکیں بند کردی۔ یوں ہر طرف ایک بھاگ دوڑ شروع ہوگئی، اور کسی کو بھی پتا نہیں تھا کہ وہ کس طرف جائے تو اسے راستہ ملے گا، خواتین، بچے، بوڑھے، مریض،گاڑی والے، اور موٹر سائیکل والے، رکشا اور منی بس والے ہر طرف گاڑیاں دوڑا رہے تھے، پولیس اہلکار سڑک کے کنارے ہاتھ جھاڑے کھڑے تھے۔ گرومندر سے راشد منہاس روڈ تک کا سفر تقریباً چار گھنٹے میں طے کیا، درمیان میں کئی سواریاں بدلنی پڑی۔
کراچی میں ٹریفک جام روز کا معمول ہے، یونیورسٹی روڈ پر ریڈ لائین کی کھدائی اور تعمیرات نے مصیبت ڈالی ہوئی ہے، ایکسپو میں ہونے والی نمائشیں، اور اسٹیڈیم میں ہونے والے میچ، شہر کے لاکھوں لوگوں کو پریشان رکھتے ہیں، اسٹیڈیم کے نزدیک شادی ہال، ہوٹل، بیکری، اسپتال، اسکول کالج، اور مساجد میں بھی لوگوں کو جانے سے روک دیا جاتا ہے، کوئی گاڑی اطراف میں پارک نہیں کی جاسکتی، یہ کراچی کے شہریوں سے ایک مذاق ہے، سیکڑوں لوگوں کا کاروبار سرے سے بند کرادیا جاتا ہے۔ کراچی روشنیوں کا شہر اندھیروں کا شکار ہے۔ ناقص طرز حکمرانی اور اداروں کی کمزور صلاحیت، عوام کی عدم دلچسپی، حکمرانوں کی لوٹ مار، اور عوام کے مینڈیٹ سے اغماض برت کر، زبردستی من مانی کرنا، کراچی کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ کراچی کو قابل رہائش اور میگا سٹی بنانے کے لیے 10 برس میں کئی ہزار ارب روپے بھی نا کافی ہوں گے۔ اور اس کے ساتھ ایک اچھی قیادت بھی، عوام نے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں اپنا فیصلہ دے دیا، لیکن اس شہر پر حکمران مقتدر قوتیں، اس شہر کو چھوڑنا نہیں چاہتی، ٹیکس وصولیوں میں اضافے اور وفاقی و صوبائی بجٹ سے رقم فراہم کرکے کراچی شہر کا انفرا اسٹرکچر بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس شہر کو بہتر کرنے کا خیال کس کو ہے، شہر کی مرکزی سڑکیں کھنڈر بن گئی ہیں، کھلے ہوئے نالے، مین ہول، لوگوں کو آئے دن حادثات سے دوچار کرتے ہیں، لیکن کوئی اس پر شنوائی کرنے والا نہیں ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو کراچی کے منصوبے اچھے لگتے ہیں، کہ یہاں سے عوام کی ہڈیوں سے رس نچوڑا جاسکتا ہے۔ اس شہر پر ٹیکسوں کا بوجھ لادا جاسکتا ہے، یہاں کے اداروں کو گروی رکھا جاسکتا ہے۔
ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے ہمیشہ کراچی کو دودھ دینے والی گائے سمجھا ہے۔ ’’معاشی بیمار ممالک‘‘ کو قرضوں میں جکڑنے والے یہ ادارے اب تک کئی ممالک کو اپنی مکمل گرفت میں لے چکے ہے۔ بہت سارے ممالک میں تباہی پھیرنے والے ان اداروں نے اب پاکستان پر جال ڈال دیا ہے، پاکستان کے موجودہ حکمرانوں نے بھی اس پھندے کو عوام کے گلے میں ڈال دیا ہے، اب پاکستان کا حال بھی ان تباہ معیشت والے ملکوں سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ ائر پورٹ سے لے کر موٹر وے اور پٹرول پمپ تک آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے پاس گروی ہیں۔ ورلڈ بینک کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کراچی پاکستان کی اقتصادی شہ رگ ہے۔ ٹیکسوں کا 65 فی صد سے زائد کراچی ہی ادا کرتا ہے۔ یعنی عالمی قرضوں کا سود کراچی ہی ادا کرے گا۔ جس ملک میں سب کچھ ہو اور وہ قرضوں پر چل اور پل رہا ہو اس کا حال ہی اس کا مستقبل بن جاتا ہے۔
کراچی کے مسائل سے ہم ہی نہیں عالمی ادارے ورلڈ بینک، اور آئی ایم ایف بھی واقف ہیں۔ کئی سال پہلے ورلڈ بینک نے ایک رپورٹ جاری تھی۔ جس میں سب سے اہم بلدیاتی اور صوبائی اداروں کی ناقص کارکردگی کا ذکر تھا۔ صوبائی اداروں نے کراچی کے ترقیاتی فنڈز اپنی مٹھی میں دبا کر رکھے ہیں۔ بلدیاتی اداروں نے بھی قسم اٹھا رکھی ہے کہ وہ کراچی سے کچرا نہیں اٹھائیں گے۔ ٹھیکیداری در ٹھیکیداری نظام چل رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں سیوریج اور صفائی کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ تمام حکمران کہتے ہیں کہ اداروں کو مضبوط کریں گے لیکن کمزور بھی خود ہی کرتے ہیں۔ کراچی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ تمام اداروں کو جان بوجھ کر تباہ کر دیا گیا۔ اب سڑکوں کا وہ حال ہے کہ گاڑیاں بھی ’’سسک سسک‘‘ کر چلتی ہیں۔ ترقیاتی کاموں کے نام پر کراچی کا بیڑہ غرق کر دیا گیا۔ ٹارگٹ کلنگ سے جان چھوٹی تو اسٹریٹ کرائمز نے کراچی کا ’’گلا‘‘ پکڑ لیا ہے۔ اسٹریٹ کرائم روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ قانون نافد کرنے والے ادارے شہر میں رسمی سیکورٹی کے فرائض انجام دیتے ہیں، وہ نظر تو آتے ہیں، لیکن امن و امن قائم کرنے کے لیے نہیں، بلکہ اپنے موجودگی دکھانے کے لیے موجود ہیں۔ تاکہ ان کا حق حکمرانی قائم رہے۔ ایک ایک کرکے کراچی کے تمام ادارے یا تو وفاق نے چھین لیے یا پھر سندھ حکومت نے ان پر ’’قبضہ‘‘ کر لیا اور یہ سلسلہ تاحال جاری و ساری ہے۔ کراچی کے منتخب بلدیاتی نمائندوں کو نہ تو اختیار دیا جارہا ہے، اور نہ ہی ترقیاتی فنڈ۔ سب کے ہاتھ باندھ کر کہہ دیا کہ آؤ ہمت ہے توہم سے چھین لو، ہمارا مقابلہ کرو۔
کبھی کراچی میں سرمایہ کاری اپنے جوبن پر تھی۔ کاروبار اور صنعتیں برق رفتاری سے چل رہی تھیں۔ معیشت کا پہیہ رواں دواں تھا۔ لیکن اب چند ہفتوں قبل گورنر سندھ کو ایک تقریب میں کراچی کے صنعت کاروں نے اپنی ملوں، اور کارخانوں کی چابیاں یہ کہہ کر پیش کی کہ اب کاروبار اور صنعتوں پر تالہ لگادیا گیا ہے، اور اس کی چابیاں آپ کی خدمت میں پیش کی جاتی ہیں۔ آج کراچی کی صنعتیں اپنی آخری سانسیں گن چکی تھیں۔ تاجروں کا برا حال ہے، ہزاروں کنٹینر بندگاہ پر کھڑے ہیں، روشنیوں کا شہر کراچی ملک کی معاشی شہ رگ ہونے کے باوجود بھی بہت سی محرومیوں کا شکار ہے۔ اس کی بنیادی وجہ حکمرانوں کی بے حسی ہے۔ وہ اس شہر سے سیاسی انتقام لے رہے ہیں۔ ماضی میں کراچی کو بھارتی شہر ممبئی کا جڑواں شہر قرار دیا جاتا تھا اور یہ دونوں شہر معیار اور طرز زندگی میں یکسانیت کے حامل تھے۔ ٹرام، سرکلر ٹرین سروس، ڈبل ڈیکر بسیں، اعلیٰ صفائی ستھرائی، شاہراوں کی چمک دمک اور خوبصورت بس اسٹاپ، بلند و بالا عمارتیں اور دیگر بہت سی سہولتیں شہریوں کا اثاثہ ہوتی تھیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کراچی جیسے کچرے کا ڈھیر بن گیا ہو۔ سب چیزیں نہ صرف تھم گئیں بلکہ تنزلی کا شکار ہو گئیں۔ بھارتی شہر ممبئی ایک مثالی شہر بن گیا جبکہ کراچی کی روشنیاں مدھم سی ہو گئیں اور وہ ایک اجڑی بستی کا روپ دھار گیا۔ جہاں جا بجا کوڑے کرکٹ کے ڈھیر، ٹوٹی سڑکیں، ناکارہ بسیں اور بے تکی آبادیوں کا پھیلائو شہر قائد کا مقدر ٹھیرا۔ نہ صرف یہ بلکہ حالیہ دنوں تک بھی ان کھٹارہ بسوں کی چھتوں پر محو سفر شہری کسی گاؤں یا قصبہ کا منظر پیش کرتے ہیں۔ شہر کراچی کی اپنے شہریوں کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا یہ عالم ہے کہ نہ صرف لاہور بلکہ پاکستان کے تمام شہروں سے نچلے درجہ پر آچکا ہے لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کی جانب سے شہریوں کو دی جانے والی سہولتوں کی تشہیری مہم کو دیکھ کر تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے پورے کراچی اور سندھ میں سب زبردست ہے اور ہم یورپ میں بستے ہیں۔ کبھی ریڈ لائین اور کبھی پنک بس، لیکن کیا یہ واقعی عوام کو سہولت فراہم کر رہی ہیں کہ شو پیس کے طور پر شہر کے کچھ اہم مقامات پر نمائش کے لیے کھڑی نظر آتی ہیں۔
کراچی کی حقیقی آبادی تو چنگ چی رکشاؤں یا پرانی کھٹار منی بسوں ہی میں سفر کررہی ہے، جہاں آئے دن کرائے پر مسافروں اور بس کنڈیکٹرز میں تکرار ہوتی ہے کہ یہاں کوئی کرایہ نامہ نہیں ہے۔
گزشتہ پینتیس سال سے کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، جس نے شہری اداروں پر بھی قبضہ کیا ہوا ہے۔ شہریوں کی سہولتوں کا انحصار ایک پائیدار اور با اختیار میٹرو پولیٹن کارپوریشن پر ہوتا ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی نے میٹرو پولیٹن کارپوریشن کی مقامی حکومت کا راستہ روک رکھا ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں پوری قوم کی نظر کراچی شہر پر تھی، اور لوگوں کو توقع تھی کہ یہاں ایک اچھی مقامی حکومت قائم ہوگی تو پورے ملک کے لیے وہ ایک مثال بن کر ابھرے گی۔ کراچی کے ان بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کراچی نے کامیابی حاصل کی تو سیاسی پنڈتوں نے ان نتائج کی راہ میں روڑے اٹکانا شروع کردیا ہے، اب حافظ نعیم الرحمن کو عدالتوں کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے بھی کھیل شروع کردیا ہے۔ کراچی میں مقامی حکومت کے قیام کے راستے میں کانٹے بچھا دیے گئے ہیں۔ ملک بھر میں حافظ نعیم الرحمن نے ایک جری اور بہادر لیڈر کی حیثیت سے ایک امیج بنایا ہے، جماعت اسلامی کی دیانت دار قیادت پر عوام کو اعتماد ہے۔ حافظ نعیم الرحمن کراچی مئیر کے لیے ایک قابل قبول شخصیت ہیں۔ عوام چاہتے ہیں کہ وہ کراچی کو سنوارنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ لیکن نادیدہ ہاتھ انہیں اس منصب پر آنے سے روکے ہوئے ہیں۔ یہ کراچی کے عوام کے منڈیٹ کی توہین ہے۔ جماعت اسلامی کراچی کی روشنیاں بحال کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتی ہے، ماضی میں عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان یہ فریضہ دیانت داری سے ادا کرچکے ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن بھی کرشماتی شخصیت ہیں، وہ یہ کام کرسکتے ہیں، کراچی کو پھر سے روشنیوں کا شہر بنا سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے اس شہر کو صوبائی حکومت کے چنگل سے نکالنا ہوگا۔ صوبائی حکومتوں کا بلدیاتی حکومتوں کے حق پر ڈاکا ڈالنا اب ختم ہونا چاہیے۔