اس وقت پاکستان شدید مشکلات سے دوچار ہے، اقتصادی بدحالی ہے، سیاسی انتشار ہے، اخلاقی زوال آخری درجے میں ہے، عالمی ساہوکاروں کے قرضوں کا انبار ہے اور ہم مشکلات سے نکلنے کے لیے حسب ِ سابق کاسۂ گدائی لیے ہوئے انھی کے آستانے پر سجدہ ریز ہیں۔ ہم نے قرضوں سے نجات کا راستہ مزید قرضوں کے حصول کو بنالیا ہے اور اس کا انجام مکمل تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سیاست اور حکمرانی کے سارے حصے داراس کی ذمے داری میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ ہر دور میں لعنت وملامت، طَعن وتشنیع اور چاند ماری کا ہدف حکومت ِ وقت ہی بنتی ہے، لیکن درحقیقت ذمے داری اُن سب پر عائد ہوتی ہے جو کل صاحب ِ اقتدار تھے یا آج صاحب ِ اقتدار ہیں، ہوسکتا ہے ان ناکامیوں میں کسی کا حصہ کم ہو اور کسی کا زیادہ، مگر بری الذمہ کوئی بھی نہیں ہے، غالب نے کہا تھا:
قرض کی پیتے تھے مَے، لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
سو اب یہ ’’فاقہ مستی‘‘ رنگ لاچکی ہے اور یہ رنگ دو آتشہ بلکہ سہ آتشہ ہوچکا ہے، بالعموم میڈیا پر جو ماہرین ِ معیشت آکر بیٹھتے ہیں، وہ مرض کی نشاندہی تو کرتے ہیں، لیکن اس مرض کا کوئی نسخہ ٔ شفا ان کے پاس بھی نہیں ہے اور آخر ِ کار اس امر پر سب کا اتفاق ہوتا ہے کہ ڈیفالٹ کے بحران سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف کے در پر جبیں سائی ناگزیر ہے۔ عالمی ساہوکاروں سے ہماری مراد آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک، اسلامک ڈویلپمنٹ بینک اور وہ حکومتیں ہیں جن کے پاس دولت کے وافر ذخائر ہیں اور وہ وقتاً فوقتاً قرض کی صورت میں مدد کرتی رہتی ہیں۔
گزشتہ پچاس برسوں کے سالانہ میزانیوں کے اعداد وشمار کو پیش ِ نظر رکھیں تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ ہر سال ہماری مجموعی محصولات اور مجموعی اخراجات کے تخمینوں میں ایک بڑاخلا ہوتا ہے، بجٹ میں نشاندہی نہیں کی جاتی کہ یہ خلا کہاں سے پر ہوگا، لیکن ظاہر ہے اس کے لیے قرضے لینے پڑتے ہیں اور اس طرح قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ہمارے پاس بس ایک ہی تدبیر رہ جاتی ہے کہ ایک جگہ سے نیا قرض لیں اور دوسرے قرض خواہ کی اقساط ادا کریں اور اپنی پیٹھ پر مزید قرضوں کا بوجھ لادتے پھریں۔ ماضی میں صوبوں کے سالانہ بجٹ میں کبھی کبھار یہ بھی سنتے تھے کہ بچت کا بجٹ پیش کیا گیا، میں نے ایک بیوروکریٹ سے پوچھا: یہ صوبائی میزانیوں میں بچت دکھاتے ہیں، کیا انہیں اس اضافی رقم کے خرچ کرنے کی کوئی تدبیر سجھائی نہیں دیتی، اتنے کُند ذہن ہیں کہ کوئی ترقیاتی منصوبہ ذہن میں نہیں آتا، انہوں نے بتایا: دراصل وفاق فرض کرلیتا ہے: ممکن ہے عالم ِ غیب سے کوئی امداد آجائے، کہیں سے غیر متوقع قرض مل جائے، اس لیے وہ صوبوں کو ہدایت دیتے ہیں: بجٹ میں اسے بچت دکھائیں، کیونکہ یہ بھی امکان ہے کہ حسب ِ توقع یہ امداد نہ مل سکے اور منصوبے کاغذ پر ہی بنے رہ جائیں۔
ہم متعدد بار لکھ چکے ہیں کہ دینی، ملی اور قومی غیرت وحمیت اور وقار کے ساتھ جینے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے: ’’اپنے اخراجات کو اپنے وسائل تک محدود رکھنا، عشرتوں کو ختم کرنا اور کفایت شعاری اختیار کرنا‘‘، جبکہ ہمارا شعار یہ ہے: جنابِ عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو ہالینڈ کے وزیر اعظم کا حوالہ دیتے تھے کہ وہ سائیکل پر چل کر دفتر آتے ہیں، لیکن جب اپنا دور آیا تو گھر سے دفتر آنے جانے کے لیے ہیلی کاپٹر استعمال کرتے رہے۔ اس سے تو بہتر تھا کہ وزیر اعظم ہائوس میں قیام فرمالیتے، کیونکہ اس کی نگہداشت اور خدمات پر مامور عملے میں کوئی کمی آئی، نہ بجٹ میں ایوانِ وزیر اعظم کے لیے مختص رقوم میں کوئی کمی آئی اور نہ وزیر اعظم ہائوس کے اخراجات کم ہوئے۔ ایوانِ صدر، ایوانِ وزیر اعظم اور سارے گورنر ہائوس بھی اُن کے منشور کے مطابق یونیورسٹیوں میں تبدیل نہ ہوسکے، بس سوچے سمجھے بغیر خام دعوے اور نتیجہ فریب اور سَراب کے سوا کچھ برآمد نہ ہو۔ نیز پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ میں خان صاحب کا یہ امتیاز ہے کہ انہوں نے ملک وقوم بالخصوص نوجوان نسل کو اخلاقی زوال سے دوچار کیا، لیکن جب ان کی اپنی اخلاق بافتگی کے آڈیو ویڈیو کلپس کا شہرہ ہوا، تب جاکر انہیں احساس ہوا کہ اسلام میں عیوب کی پردہ پوشی کا حکم ہے، بشرطیکہ پردہ دری کا تعلق اُن کی ذات سے ہو۔ ورنہ جب توپوں کا رُخ اُن کے مخالفین کی جانب ہو تو یہ اُن کا پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے اور اسی کے فروغ کے لیے روزانہ کی بنیاد پر ترجمانوں کے اجلاس ہوا کرتے تھے، اب یہ یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا کارکنان کے اجلاسوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔
ہم نے ایک ماہرِ معیشت سے پوچھا: اقتصادی مسائل کا حل کیا ہے، انہوں نے بتایا:
جنرل سیلز ٹیکس کو اٹھارہ فی صد سے سات فی صد پر لایا جائے، کیونکہ جی ایس ٹی کا اثر امیرو غریب پر یکساں مرتب ہوتا ہے، امیر تو یہ بوجھ برداشت کرلیتا ہے، لیکن غریب کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ ایک یومیہ مزدور بھی جب ماچس کی ڈبیا یا بنیادی ضرورت کی کوئی چیز خریدے گا تو اُسے اُس پر تھوک اور پرچون فروش دکانداروں کے نفع کے ساتھ ساتھ سیلز ٹیکس پورا دینا پڑتا ہے، اسی طرح پٹرول اور ڈیزل پر جو ٹیکس لگتا ہے، اُس کی زد میں بھی امیرو غریب یکساں طور پر آتے ہیں۔ حکومت کے لیے ایسی کوئی حکمت ِ عملی بنانا مشکل ہے کہ غریب اس کی زد میں نہ آئیں یا اُن پر کم بوجھ پڑے، کیونکہ ایسے کسی بھی اقدام سے بدعنوانی کو فروغ ملے گا اور المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں دیانت وامانت کا معیار بھی بہت پست ہے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ کروڑوں روپے مالیت کی لینڈ کروزر اور مرسیڈیز کے مالکان کو بھی پٹرول یا ڈیزل اُسی قیمت پر ملتا ہے، جس پر موٹرسائیکل اور رکشہ چلاکر مزدوری کرنے والے کو ملتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا: مالداروں پر اُن کی آمدنی کے مطابق ٹیکس لگایا جائے، اس میں زرعی، صنعتی اور کاروباری ہر طرح کی آمدنی شامل ہے، جب زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانے کی بات ہوتی ہے تو چونکہ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں بڑی تعداد جاگیرداروں کی ہے، اس لیے وہ اس کی مزاحمت کرتے ہیں۔ وفاق نے اسے صوبوں پر چھوڑ دیا ہے اور جاگیرداروں کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ زرعی اخراجات بہت زیادہ ہوگئے ہیں، اُن میں بیج، کھاد، کیڑے مار دوائوں، ٹیوب ویل اور ٹریکٹر وغیرہ کی قیمت ِ خرید اور چلانے کی اجرت اور زرعی مزدوروں کی اجرت شامل ہے، حالانکہ ٹیکس اُن کی بچت پر عائد ہوتا ہے نہ کہ اصل آمدنی پر، الغرض تمام اخراجات نکال کر جو بچت ہو، اُس پر ٹیکس عائد ہونا چاہیے۔
اُن کے بقول اگر مالداروں پر صحیح ٹیکس عائد کیا جائے تو سات ہزار ارب روپے کی اضافی آمدنی ہوسکتی ہے، واللہ اعلم باِلصَّواب، اس ممکنہ اضافی آمدنی کا تخمینہ کیسے لگایا گیا ہے، یہ ہمیں معلوم نہیں، نیز یہ کیسے وصول کی جائے گی، اس کا طریقۂ کار کیا ہوگا اور کیا حکومت میں اتنی جان ہے کہ بڑے فیصلے کرکے انہیں نافذ بھی کرسکے۔
معاشی ماہرین کا ایک لگا بندھا فارمولا معیشت کو دستاویزی بنانے کا ہوتا ہے، ہر حکومت یہ سوچتی ہے، لیکن پھر اس بھاری پتھر کو چوم کر رکھ دیتی ہے۔ ہمیں خوب یاد ہے: جب جنرل پرویز مشرف اقتدار کی معراج پر تھے، تو انہوں نے اس کا بیڑا اٹھایا، دکانداروں نے ہڑتال کردی، دکانیں بند ہوگئیں، کاروبار ٹھپ ہوگئے، جنرل پرویز مشرف نے ترنگ میں آکر کہا: بھلے یہ دکانیں بند کریں، آخر ہفتے دو ہفتے بعد مجبور ہوکر کھولیں گے تو ہمیں یعنی محکمہ ٔ محصولات کے افسران کو اپنے دروازے پر پائیں گے، لیکن پھر یہ شیخی بھی ہوا کا غبارہ ثابت ہوئی اور پھر اس عربی محاورے جیسا حال ہوا: ’’اَلآن کَما کَان‘‘، یعنی نتیجہ پہلے جیسا ہی برآمد ہوا۔
افغانستان کے موجودہ حکمرانوں کو ہم تاریک دور کے لوگوں سے تشبیہ دیتے ہیں کہ انہیں جدید دور کا شعور نہیں ہے، اہل ِ مغرب سے امداد ملنا تو درکنار، امریکا نے ان کے نو ارب ڈالر ضبط کر رکھے ہیں، باوسائل مسلم ممالک (سعودی عرب، کویت، قطراور متحدہ عرب امارات وغیرہ) بھی امریکا کی آشیر باد کے بغیر انہیں تسلیم کرسکتے ہیں اور نہ مالی مدد دے سکتے ہیں۔
لیکن وہ اپنے ملک کو چلا رہے ہیں، آج (23فروری 2023) پاکستان میں ڈالر دوسو باسٹھ روپے اور افغانستان میں اُن کی مقامی کرنسی کے حساب سے نواسی روپے کا ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے: پاکستان سے ڈالر افغانستان اسمگل ہورہے ہیں، سوال یہ ہے کہ افغانستان میں ایسی کیا کشش ہے کہ پاکستان سے ڈالر ادھر اسمگل ہورہے ہیں، حالانکہ اس کے برعکس ہونا چاہیے تھا، کہا گیا تھا: افغانستان میں لوگ بھوکے مریں گے، لیکن اس طرح کی کوئی صورتِ حال سامنے نہیں آئی، آخر ان کے پاس کون سا نسخہ ہے جو ہمیں سجھائی نہیں دیتا۔
بعض ماہرین بتاتے ہیں: پاکستان مصنوعی تفاخر سے نکل کر حقیقت پسند بنے، اپنے آپ کو نادہند قرار دے، قرضوں کی ادائی موقوف کرے، حالات کی سازگاری پر اُن کی ادائی کے لیے نیا طریقۂ کار وضع کرے، اپنے نظام سے سود یکسر ختم کرے اور بیرونی قرضوں کے مقابل بھی سود کی ادائی سے دستبردار ہوجائے۔ یہ عزیمت کا راستہ ہے، مشکل راستہ ہے، اس کے بھی نتائج یقینا ہوں گے، بجٹ میں تخفیف سمیت عدلیہ، سول وملٹری اشرافیہ کے مشاہرے اور مراعات بھی متاثر ہوں گی۔ الغرض جب مراعات یافتہ طبقہ قربانی پر آمادہ ہوگا، دوہرا معیار ختم ہوگا، قوم کو یہ سب کچھ ہوتا ہوا نظر آئے گا تو پوری قوم بھی یقینا قربانی کے لیے آمادہ ہوجائے گی، تب قوم سے یہ مطالبہ حق بجانب ہوگا کہ ڈالر کی ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ روک دیں۔ ایک عرصے تک قوم کو اپنے تمام شعبوں کے مصارف کو اپنے وسائل کے اندر رکھنا ہوں گے، اگر قوم اللہ کی ذات پر اعتماد کرے تو کوئی بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لیے اُن راہوں سے وسائل پیدا فرمادے جو ابھی ہمارے وہم وگمان میں بھی نہیں ہیں، قرآنِ کریم میں ہے: ’’اور جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرتا ہے، تو وہ اُسے (ایسی راہوں سے) رزق عطا فرماتا ہے کہ اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا‘‘۔ (الطلاق: 2-3)
آئی ایم ایف نے بھی کہا ہے: ہمیں غریبوں کو سبسڈی دینے پر اعتراض نہیں ہے، لیکن بالادست طبقے کے لیے مراعات کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے، جبکہ ہمارے ہاں صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ ہمارا گمان ہے کہ حکومت بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے سوا آئی ایم ایف کو کوئی ایسا قابل ِ عمل طریقۂ کار بتا نہیں سکی کہ کسانوں سمیت زیریں طبقات کے لیے اعانتی پالیسیوں کا ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جاسکے۔ ایک سرکاری یا پرائیویٹ ملازم جو اپنی تنخواہ پر 32فی صد انکم ٹیکس ادا کرچکا ہے، وہ باقی ماندہ تنخواہ سے مارکیٹ میں کوئی پروڈکٹ خریدنے جائے گا تو اُسے مزید اٹھارہ فی صد جی ایس ٹی دینا پڑے گا، اس طرح مجموعی ٹیکس پچاس فی صد ہوجائے گا، یہ سراسر غیر منصفانہ ہے۔