وزیر اعظم شہباز شریف نے حکومت کی بچت مہم کا اعلان کیا ہے لیکن اس اعلان سے تو یہ ظاہر ہورہا ہے کہ ان کی حکومت صرف وفاقی کابینہ تک محدود ہے کیونکہ اس اعلان کے مطابق وفاقی کابینہ اور اس کے وزراء مشیران اور معاونین ہی مراعات اور تنخواہیں نہیں لیں گے اور خود اپنی جیب سے بجلی اور گیس کے بل ادا کریں گے۔ لگژری گاڑیوں میں سفر نہیں کریں گے۔ ان کا معاون عملہ غیر ملکی دوروں پر ساتھ نہیں جائے گا اور وزراء غیر ملکی دوروں میں فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قیام نہیں کریں گے۔ وفاقی کابینہ کی حد تک تو یہ بہت اچھے اقدامات ہیں۔ لیکن ان سرکاری ملازمین کا مفت پٹرول اور مفت گیس اور بجلی بھی بند ہونا چاہیے، کیونکہ یہ سرکاری ملازمین نہایت بے دردی کے ساتھ ان مراعات کا استعمال کرتے ہیں۔ جب ان کی اپنی جیب سے بل جائے گا تو انہیں معلوم ہوگا کہ 25 ہزار روپے ماہانہ کمانے والے پر کیا گزرتی ہے۔ ججوں کی غیر معمولی پنشن اور مفت گیس اور بجلی کی سہولت واپس لینی چاہیے وہ بھی انصاف سے کام لیں اور عوام کی طرح اپنا بجلی کا بل خود ادا کریں اور اپنے حصے کی قربانی دیں۔ لیکن فی الحال ایسا ہوتا نظر نہیں آتا ہے۔ ماضی سے آج تک پاکستان میں حکومت کوئی بھی ہو جب وہ اپنی آمدنی میں اضافے کے لیے نئے ٹیکسز لگاتی ہے تو عوام پر اس کا بوجھ ڈالتی ہے اور ان سے قربانیاں دینے کے لیے کہتی ہے۔ لیکن حکومتی اشرافیہ کے اخراجات پورے نہیں ہوتے تو حکومت غیر ملکوں سے قرضے لیتی ہے۔ ان قرضوں کو ادا کرنے کے لیے عوام پر مزید ٹیکسوں کے بوجھ بڑھاتی ہے یا ان ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کردیتی ہے، کئی دہائیوں سے حکومت ان ڈائریکٹ (بالواسطہ) ٹیکسوں پر چل رہی ہے۔ اس لیے کہ اس کا اثر پاکستان کے طبقہ اشرافیہ پر نہیں پڑتا۔ البتہ پاکستانی عوام کو مزید کچلنے کے لیے ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کردیا گیا ہے جس کے نتیجے میں مہنگائی میں اضافہ ہوگیا ہے اور اب عوامی ردعمل سے بچنے کے لیے کابینہ کی جانب سے بچت مہم کا اعلان کردیا گیا ہے۔ مگر اس کے نتیجے میں مہنگائی کم نہیں ہوگی۔
پاکستان کے قومی ادارہ شماریات (پی بی ایس) کے عمومی کنزیومر پرائس انڈیکس (صارف تک پہنچنے والی قیمتوں کا اشاریہ) کے مطابق مہنگائی میں جنوری 2023 تک گزشتہ برس کے مقابلے میں 27.6 فی صد اضافہ ہوا ہے، بھاری ٹیکسوں کے باوجود حکومتی اخراجات قابو میں نہیں آرہے ہیں اس کا واضح مطلب یہ
ہے کہ غیر پیداواری مد میں زیادہ اخراجات ہورہے ہیں۔ جبکہ بھارت میں مہنگائی کی شرح 7 فی صد ہے اور بنگلا دیش میں یہ شرح 9 فی صد ہے۔ لیکن ان دونوں ممالک میں پیداواری شرح پاکستان سے تین گنا زیادہ ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی شرح دسمبر تک 24.5 فی صد تھی 1975 کے بعد اب یہ شرح اس بلندی کو پہنچی ہے۔ پاکستان دسمبر میں دنیا میں مہنگائی کی بلند ترین شرح رکھنے والے ممالک میں 19 ویں نمبر پر تھا، لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان اس فہرست اول آنے کی کوشش کررہا ہے۔ پاکستان میں موجودہ مہنگائی کی وجہ آئی ایم ایف کی شرائط نہیں ہیں بلکہ وہ طریقہ کار ہے جو حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے اختیار کیا ہے۔ حال ہی میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ ’’ایک ملک کے طور پر کام کرنے کے قابل ہونے کے لیے ضروری اقدامات کرے اور خطرناک راستے نہ اختیار کرے کیونکہ پاکستان کو اس کے قرضوں کی (ادائیگی کے لیے) تنظیم نو کی ضرورت ہے‘‘۔ معاشی مشکلات سے نکلنے کے لیے پاکستان نے آئی ایم ایف سے 6.5ارب ڈالر کا بیل آؤٹ پیکیج لیا ہے۔ لیکن اس کی واپسی کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا ہے وہ مزید معاشی تباہی کا سبب ہوسکتا ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کی معاشی صورت حال کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے دیوالیہ (ڈیفالٹ) ہونے سے بچنے کے لیے سخت اقدامات کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ میونخ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، آئی ایم ایف کی سربراہ نے ان اقدامات کی مزید تفصیلات بتائیں جن کو یقینی بنانے کے لیے آئی ایم ایف توقع کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم دو چیزوں پر زور دے رہے ہیں۔ ٹیکس کی آمدنی۔ وہ لوگ ٹیکس دیں جو خوب منافع کما رہے ہیں، انہیں معیشت میں اپنا حصہ ڈالنے کی ضرورت ہے‘‘، انہوں نے بیل آؤٹ پیکیج کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا۔ آئی ایم ایف کے سربراہ نے مزید کہا، ’’دوسرے، سبسڈی صرف ان لوگوں کی طرف منتقل کر کے دباؤ کی منصفانہ تقسیم کرنا ہے جنہیں واقعی اس کی ضرورت ہے‘‘۔ اس نے ٹارگٹڈ سبسڈیز متعارف کرانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا، ’’یہ سبسڈی سے دولت مندوں کے فائدے کی طرح نہیں ہونا چاہیے۔ غریبوں کو ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ فنڈ بہت واضح ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے غریب لوگوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔
پاکستانی ماہرین معاشیات کہاں ہیں؟ وہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے وہ حکمت عملی کیوں نہیں بنا رہے ہیں جس سے ملک کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہو اور ٹیکسوں کا بوجھ ان لوگوں پر پڑے جو اس کو برداشت کرسکتے ہوں۔ ایک انٹرویومیں مشہور ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے دعویٰ کیا ہے کہ مہنگائی کیے بغیر آئی ایم ایف کی شرائط پوری کی جاسکتی ہیں، یعنی ان کے قرضوں کی بروقت ادائیگی ہوسکتی ہے ڈاکٹر شاہد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اب بہت کم ٹیکس براہ راست وصول کیے جاتے ہیں۔ اگر ٹیکس براہ راست وصول کیے جائیں تو بجلی اور گیس اور پٹرول سستے ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جی ایس ٹی 17 اور 18 فی صد کی شرح سے لگائی جاتی ہے۔ یہ شرح ظالمانہ ہے اور اس طرح سے ٹیکس لگانا آئین کی شق 3 شق 4، شق 25 اے، شق 37 اور 38 اور آئین کے آرٹیکل 227 کے خلاف ہے۔ حکومت کہتی تو یہ ہے کہ ہم ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس لگائیں گے۔ لیکن وہ آمدنی پر ٹیکس لگانے کے بجائے اشیاء پر ٹیکس لگاتی ہے۔ یعنی وہ لوگ جو ان اشیاء کی فروخت سے اربوں روپے کما رہے ہیں ان سے ٹیکس وصول نہیں کیے جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو فٹ پاتھ پر پڑا ہے وہ بھی اپنے استعمال کی اشیاء پر 17 سے 18 فی صد جی ایس ٹی ادا کررہا ہے اور ارب پتی بھی جی ایس ٹی دے رہا ہے۔ لیکن ارب پتی لوگ 4 ہزار ارب روپے سالانہ کا انکم ٹیکس کم دے رہے ہیں اور حکومت کم ٹیکس وصول کررہی ہے بلکہ وہ ٹیکس وصول کرنا ہی نہیں چاہتی ہے۔ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی یہی سوال دوہراتے ہیں کہ حکومت اشیاء پر کیوں ٹیکس لگاتی ہے آمدنی پر کیوں ٹیکس نہیں لگاتی؟ تینوں بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور میں یہ درج ہے کہ وہ ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس لگائیں گے چاہے وہ صوبوں میں ہو یا وفاق میں۔ معیشت کو دستاویزی بنایا جائے گا اور ٹیکسوں کا نظام منصفانہ ہوگا۔
حکومتی ذرائع کے مطابق ملک میں 40 ہزار ارب روپے کا کالادھن ہے جس میں ہرروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ حکومت انکم ٹیکس وصول کرنے کے بجائے جی ایس ٹی کی شرح میں اضافہ کررہی ہے۔ ماہر اقتصادیات کا کہنا ہے کہ پٹرولیم لیوی تو بھتے کی ایک شکل ہے۔ گزشتہ سال پٹرولیم لیوی سے 180 ارب روپے آمدنی ہوئی تھی اس سال اسی مد میں 850 ارب روپے کی آمدنی ہورہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انکم ٹیکس کی وصولی میں بھی اسی شرح سے اضافہ ہوا ہے یا نہیں؟۔ حالانکہ اگر ٹیکسوں کی چوری روک دی جائے تو پٹرولیم لیوی کی شرح صفر ہوجائے گی اور جی ایس ٹی کی شرح 17 یا 18 فی صد سے کم ہوکر 5 فی صد پر آجائے گی۔ لیکن ہوا یہ ہے کہ پٹرولیم لیوی کی شرح 50 فی صد ہوگئی اور جی ایس ٹی 18 فی صد تک پہنچ گیا۔ جبکہ ڈائریکٹ (براہ راست) ٹیکسوں کی وصولی کی شرح میں نہایت کمی آگئی جو کسی زمانے میں 14.4فی صد ہوتی تھی اب یہ 10 فی صد سے بھی کم ہوکر رہ گئی ہے۔ ٹیکس وصولی کی اس شرح میں ایک فی صد کی کمی کا مطلب ہوتا ہے کہ کم ازکم 800 ارب روپے کی وصولی کم ہوئی ہے۔
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا دعویٰ ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل نہیں کررہی ہے کہ ڈائریکٹ ٹیکسوں کی وصولی کی شرح میں اضافہ کیا جائے اور امیروں سے ٹیکس وصول کیا جائے۔
یاد رہے کہ حکومت نے بجٹ خسارہ آئی ایم ایف کے سامنے 4.9 فی صد پیش کیا تھا، لیکن اب یہ خسارہ 7 فی صد تک پہنچ گیا ہے اسے بھی درست کرنا ہے۔ بجٹ میں مہنگائی کی شرح 11.5 رکھی تھی یہ 27.6 پر آگئی ہے اسے ٹھیک کریں روپے کی قدر کو سنبھالیں۔ حکومت کا آئی ایم ایف کو جواب ہے کہ ہم ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس نہیں لگا سکتے یہ ہماری سیاسی مجبوری ہے۔ (یہ سیاسی مجبوری نہیں ہے بلکہ اس کے نتیجے میں طبقہ اشرافیہ ہی متاثر ہوتا ہے) اس کے جواب میں ظاہر ہے کہ آئی ایم ایف کا یہ جواب ہوگا کہ آپ جس چیز پر چاہیں ٹیکس لگائیں چاہے آمدنی پر یا اشیاء پر آپ کو قرضوں کی ادائیگی کرنا ہے یہ گردشی قرضے 2009 سے بڑھتے چلے جارہے ہیں یہ 2500 ارب روپے سے تجاوز کرچکے ہیں‘‘۔ یہ تو ماہرین معاشیات کی باتیں ہیں اور آئی ایم ایف کی سربراہ نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ ٹیکس لگائیں اور سبسڈیز ختم کریں۔ لیکن اس کا یہ مطلب کیوں نہیں لیا جاتا کہ ان لوگوں پر ٹیکس لگایا جائے جن کی آمدنی قابل ٹیکس ہے۔ سرکاری ملازمین کی مفت خوری کیوں نہیں بند کی جاتی ایک دیوالیہ ہونے کے قریب ملک کی کابینہ کی تعداد 85 سے تجاوز کرچکی ہے۔ مفت بجلی کے استعمال پر پابندی لگائی جائے، مفت گیس بند کی جائے، مفت پٹرول کے نام پر لوٹ مار بند کی جائے۔ مکانوں کے کرائے کی مد میں کمی کی جائے۔ تمام اسپیشل الاؤنس ختم کیے جائیں۔ ججوں اور جرنیلوں کی پنشن گھٹا کر ڈھائی لاکھ سے بھی کم کردی جائے۔ تاکہ وہ بھی اس درد کو محسوس کرسکیں جو عوام کو ہوتا ہے۔ یہ حکومتوں اور سیاست دانوں کی چالبازیاں ہی ہیں کہ وہ عوام سے جھوٹ بولتے ہیں آئی ایم ایف نے مہنگائی کی شرط لگائی ہے۔ ساہوکار سے قرض لوگے تو وہ یہ تو پوچھے ہی گا کہ میرا قرض تم کیسے ادا کروگے؟ ہمارے حکمران اپنی اور تمام طبقہ اشرافیہ کی 17.4 ارب ڈالر سالانہ کی مراعات میں ایک روپے کی کمی بھی نہیں کرنا چاہتے۔ جو کچھ بھی کیا گیا ہے وہ سب صرف دکھاوا تھا۔