….آئی ایم ایف سے زیادہ جھوٹے حکمران

528

آئی ایم ایف بہت بدمعاش ہے۔ کمزور ملکوں کو نچوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ چھوٹی معیشت کو مزید سیکڑ دیتا ہے۔ اس سے نمٹنا آسان نہیں ہے۔ اور بات بھی درست ہے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے مذاکرات کے بارے میں روزانہ ہم پڑھ رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ہیں۔ نئی شرائط عائد ہوگئیں۔ آئی ایم ایف نہیں مان رہا بہت مشکل ہورہی ہے۔ اور پھر آئی ایم ایف کا وفد پاکستان آگیا اس کے بارے میں کہا گیا کہ آئی ایم ایف ہماری ایک ایک کتاب ایک ایک وزارت پر نظر رکھے ہوئے ہے اور حکمران خدا سے زیادہ آئی ایم ایف سے ڈرنے لگے کہ اس کی نظر ہر چیز پر ہے۔ آئی ایم ایف وفد کے جانے کے بعد حکومت نے 170 ارب روپے کے نئے ٹیکسوں پر مشتمل منی بجٹ مسلط کرکے عوام کو میگا مسائل سے دوچار کردیا۔ گزشتہ کئی ہفتوں کی میڈیائی مہم کے ذریعے پورے ملک کو یہ یقین دلا دیا گیا کہ جو کچھ ہوگا وہ آئی ایم ایف کے حکم پر ہوگا اور اس ساری خرابی کا ذمے دار عمران خان ہے۔ چناں چہ حکومت نے وہ کڑوی گولی نگلنے کے لیے عوام کو راضی کرلیا جس کو وہ اپنے لیے بالکل پسند نہیں کرتے۔ پٹرول سمیت 350 اشیا مہنگی کردی گئیں اور جس وقت اسحق ڈار یہ اعلان کررہے تھے انہوں نے قوم کو سادگی اپنانے کا مشورہ بھی دے ڈالا۔ اور چونکہ کئی ہفتوں سے فضا بنائی جارہی تھی اس لیے ملک کی سب سے طاقتور اپوزیشن پی ٹی آئی نے اس پر صرف بیانات دینے اور بیان بازی کے بعد جو اعلان کیا وہ الیکشن کی تاریخ کے لیے جیل بھرو تحریک شروع کرنے کا تھا۔ باقی رہے عوام تو ان کو کچھ سمجھ میں ہی نہیں آسکا کہ ہوا کیا ہے۔
جس روز یہ فیصلہ ہوا اسی روز آئی ایم ایف کا ایک مطالبہ اور شائع ہوا ہے کہ حکومت کے الیکٹرک سے 662 ارب کے واجبات وصول کرے۔ کہاں عوام سے 170 ارب کے ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف اور کہاں ان سے ٹیکس وصول کرکے کھا جانے والے کے الیکٹرک پر
واجب 662 ارب روپے، حکومت اس قسم کے چار منی بجٹ اس رقم میں پورے کرسکتی ہے لیکن چوروں سے پیسے لینے کے بجائے عوام سے وصول کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب
دیکھیں کہ کیا کیا مہنگا کیا گیا۔ ان میں دالیں ہیں، شکر ہے، خوردنی تیل ہے، صابن، ٹوتھ پیسٹ، کھلونے، بسکٹ، ٹافی، سگریٹ، کمپیوٹر، جام جیلی وغیرہ ہیں۔ اور جو رعایتیں دی گئی ہیں ان میں پانچ سال پرانے ٹریکٹر ڈیوٹی فری درآمد کرنے کی اجازت ہے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں اربوں روپے اضافہ ہے۔ اور جو فضول خرچیاں جاری رکھی گئیں ان میں وزرا، افسروں، بیوروکریٹس، ججوں، جرنیلوں کے لیے مفت بجلی، مفت پٹرول، بڑی گاڑیاں، بڑی رہائش گاہیں اور تمام مراعات، تمام سبسڈیز شامل ہیں۔ یہ 170 ارب روپے کون دے گا۔ تنخواہ دار طبقہ، چھوٹا تاجر، روزمرہ کام کرنے والا مزدور، مہنگی اشیا خریدے گا۔جو مراعات حکومت نے حاصل کی ہیں ان میں عالمی بینک سے حکومت سندھ نے توانائی کی بچت کے لیے دو لاکھ سولر سسٹم رعایتی نرخوں پر حاصل کرنے کا معاہدہ بھی کیا ہے۔ پہلے تو ٹریکٹر سے شروع کرتے ہیں ٹریکٹر کون خرید سکتا ہے۔ تنخواہ دار طبقہ…؟ تو پھر یہ فائدہ کون اٹھائے گا ملکی زرعی پیداوار کے نام پر اپنی آمدنی بڑھانے والے حکمران، جاگیردار اور وڈیرے… جو مہنگا ٹریکٹر بھی خرید سکتے ہیں لیکن اس آئی ایم ایف پیکیج کی وجہ سے انہیں یہ سہولت دی گئی ہے کہ پانچ سال پرانے ٹریکٹر ڈیوٹی فری درآمد کرلیں۔ پھر اس زرعی شعبے کی دوسری مافیا گندم اور شکر مافیا نے بھی اعلان کردیا ہے کہ گندم کی امدادی قیمت اور گنے کی قیمت ہماری مرضی سے مقرر کی جائے بلکہ کر ہی دی گئی۔ حکومت نے جو سستا کیا وہ تو اپنے لیے اور بڑوں کے لیے کیا اور جو مہنگا کیا وہ عام آدمی کے لیے کیا۔ مہنگی ہونے والی 350 اشیا میں گندم، دودھ، چائے، دالیں، خشک میوے، پام آئل، سویابین، مسالے، کریم، صابن، ٹوتھ پیسٹ، کھلونے، کمپیوٹر، بسکٹ، جام جیلی وغیرہ ہیں۔ ان کی قیمت امیر کے لیے بھی بڑھی ہے لیکن اسے مہنگی نہیں لگے گی، غریب پہلے ہی پسا ہوا ہے اسے بہت مہنگی لگیں گی۔ اس منی بجٹ میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بھی 40 ارب روپے اضافہ کردیا گیا ہے۔ جس میں کرپشن کی باقاعدہ رپورٹس سامنے آچکی ہیں۔ اس میں کرپشن بھی اس طرح کی گئی کہ وڈیروں نے اپنے ہاریوں اور ووٹروں کے شناختی کارڈ لے لیے ہیں ان پر رقم وصول کی جاتی ہے اور ان غریبوں کو کبھی کبھی چند ٹکڑے دے دیے جاتے ہیں۔ اس پروگرام کے فنڈ میں 40 ارب اضافہ غریبوں کو نہیں ان بڑے بڑے وڈیروں کو ملے گا جو پہلے ہی اربوں کما رہے ہیں۔ ان ہی لوگوں کی چوپالوں اور اوطاقوں سے زلزلہ زدگان اور سیلاب زدگان کا امدادی سامان نکلتا ہے۔ اور ممنوع جگہوں سے جن کا نام لینا منع ہے۔ ان کو کسی مہنگائی، کسی آئی ایم ایف پیکیج، ڈالر کی قلت، یا مہنگے ہونے اور زرمبادلہ کے ذخائر کم ہونے کا کوئی غم نہیں ہوتا کیونکہ ان کا سارا نظام ہی عوام کے نام پر فنڈز حاصل کرنے پر ہے۔ بعض اوقات تو اس کا برملا اعلان بھی ہوتا ہے۔ لیکن سب سے بڑی خرابی یہ ہوئی کہ آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر نے جرمن نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہہ دیا کہ پاکستانی حکومت غریبوں کو سبسڈی دے امیروں سے ٹیکس لے۔ اسے بھانڈا پھوڑنا کہیں گے یا حکمرانوں کا جھوٹ بے نقاب کرنا
لیکن اس کے نتیجے میں حقیقت تو سامنے آگئی کہ حکمران آئی ایم ایف کا خوف دلا کر قوم کا خون نچوڑ رہے ہیں۔ اس خبر کے بعد شہباز شریف صاحب نے اعلان کیا کہ سرکاری اخراجات کم کیے جائیں گے۔ اور پھر بھی اعلان نہیں کیا تو آئی ایم ایف کی جانب سے ایک اور جھٹکا دیا گیا جس کے بعد کابینہ نے فیصلہ کر ہی لیا۔ فیصلہ بظاہر اچھا ہے جون 24 تک تمام لگژری اشیا کی خریداری پر مکمل پابندی ہوگی، نئی گاڑیوں کی خریداری نہیں ہوگی، کابینہ اراکین تنخواہیں اور مراعات نہیں لیں گے، اپنے یوٹیلیٹی بلز خود ادا کریں گے، لگژری گاڑیاں واپس کی جائیں گی، مفت پٹرول بند کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے اچھے اچھے اعلانات ہوئے ہیں۔ اگرچہ یہ اعلانات کافی نہیں ہیں لیکن اگر حکومت اپنے اعلانات پر خلوص سے عمل شروع کردے اور لوگ جاگتی آنکھوں سے یہ دیکھنے لگیں کہ حکمران خود سادگی اختیار نہیں تو کم از کم فضول خرچی میں کمی تو کررہے ہیں، تو قوم سے سادگی اختیار کرنے کا مطالبہ جائز ہوگا۔ ویسے دیکھا تو یہ گیا ہے کہ اعلانات کردیے جاتے ہیں۔ مثلاً توانائی کی بچت کا اعلان، دکانیں ریستوران، شادی ہال جلد بند کرنے کا حکم لیکن یہ حکم ہوا میں اُڑ گیا۔ صرف کابینہ کے وزرا نہیں حکمران پارٹی کے ایک ایک رکن پارلیمنٹ کی سیکورٹی کروڑوں کی ہے۔ جن گالف کورسوں کا ذکر خواجہ آصف نے کیا ہے ان کو بیچنے کی ہمت تو کریں ذرا… ان کی اپنی زبان میں لگ پتا جائے گا۔ حکومت کے جھوٹ کو آئی ایم ایف نے طشت ازبام کیا اب جو فیصلے کیے ہیں اگر یہ جھوٹے نکلے تو ان کے لیے کوئی ڈائریکٹر آئی ایم ایف نہیں چاہیے لوگ صبح شام خود دیکھتے ہیں کہ ان کے حکمران کیا کررہے ہیں، یہ بچت کے لیے نہیں بلکہ قرضہ حاصل کرنے کے اقدامات ہیں۔ اس کی گواہی عائشہ غوث کا بیان اور سیکرٹری خزانہ کا دعویٰ کررہے ہیں جس کے بعد مزید مہنگائی کی خوش خبری وزیراعظم دے رہے ہیں۔