عالمی اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو آج کل کثیر جہتی بحرانوں کا سامنا ہے۔ ان کا تجزیہ ہے کہ پاکستانی معیشت سیاسی بحرانوں کی وجہ سے تباہی کی طرف گامزن ہے ، کئی دہائیوں سے روپے کی قدر میں تیزی سے کمی ہورہی ہے اور افراط زر بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اس پر رہی سہی کسر قدرتی آفات مثلاً سیلاب نے نکال دی ہے۔ ملک میں توانائی کا بحران شدید تر ہوتا جارہا ہے۔ اس لیے کہ بجلی پٹرولیم مصنوعات کے ذریعے چلائی جارہی ہے جس پر زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔ پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی نچلی سطح پر ہیں، ملک کی پیداواری صلاحیت ختم ہورہی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی کم ہوگئے ہیں۔ اشیائے خور ونوش اور ایندھن کی قیمتیں عام آدمی کے لیے آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ سیلاب کی وجہ سے زرعی پیداوار بھی متاثر ہوئی ہے۔ بظاہر یہ تمام وجوہات ہیں جو پاکستان کی اقتصادی تباہی کا سبب بنی ہیں، جس کا ذکر عالمی اور ملکی ماہرین معاشیات کرتے ہیں۔ بہت سے مذہبی رجحان رکھنے والے حضرات لازماً یہ کہیں گے کہ قوم پر یہ زوال عبادات کے نہ کرنے سے آیا ہے۔ نبی اکرمؐ نے یہ تعلیم دی کہ اگرچہ عبادت اللہ تعالیٰ کا حق ہے جسے جتنا زیادہ ادا کیا جائے کم ہے۔ لیکن اس سے انسان کے اپنے جسم، گھر والوں، اور ملنے ملانے والوں کے حقوق متاثر نہیں ہونے چاہئیں۔ اور انسان کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کے درمیان توازن قائم رکھنا چاہیے جو اسلامی تعلیمات کا نچوڑ اور خلاصہ ہے۔ لیکن ہمارے یہاں یہ ہورہا ہے کہ معاشی اور معاشرتی معاملات میں اللہ کے حکم کے مطابق حقوق العباد کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ بس اپنے مفادات کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔
میرا یہ خیال ہے کہ پاکستان کے اقتصادی دیوالیہ پن کی وجہ دراصل اخلاقی دیوالیہ پن ہے جس میں خود غرضی، ذاتی مفادات اس قدر حاوی ہوگئے ہیں کہ دوسرے شخص کی مشکلات نظر نہیں آتیں اور یہی خود غرضی کرپشن کا سبب بنتی ہے۔ جس شخص کے پاس اختیار ہے وہ اتنا ہی خود غرض ہے اور اپنے فرائض سے غافل ہے۔کرپشن ظلم کی ابتداء ہے۔ 2022 میں بدعنوانی پر نظر رکھنے والی عالمی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے دنیا کے 180 ممالک میں بدعنوانی کے تاثر کے بارے میں سالانہ رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق پاکستان کی درجہ بندی تین پوائنٹس کم ہونے کے بعد 124 سے گِر کر 140 تک پہنچ گئی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی سروے رپورٹ میں پولیس کو ملک کا کرپٹ ترین ادارہ قرار دیا گیا ہے جبکہ کرپٹ ترین اداروں میں ٹینڈرنگ، کنٹریکٹ کا شعبہ دوسرے اور عدلیہ تیسرے نمبر پر ہے۔ رپورٹ میں کرپٹ ترین اداروں میں تعلیم کے شعبہ کو چوتھا نمبر دیا گیا ہے، اس کے علاوہ نیب سمیت انسداد کرپشن اداروں پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں ایک عام شہری کا خوشحال ہونا ملکی ترقی کی ضمانت ہوتا ہے یا یوں کہیں کہ کسی ملک کے خوشحال ہونے کی یہی دلیل ہوتی ہے۔ جب ملک میں حکومت کی رٹ قائم نہ رہے تو ملک معاشی اور اخلاقی دونوں طور پر دیوالیہ ہوجاتا ہے۔ چلیے چھوٹی چھوٹی باتوں سے اندازہ لگاتے ہیں کہ یہ بڑا نقصان کیسے ہوا۔ پاکستان کا کوئی بھی شہر لے لیں وہ دو معاشی طبقات میں تقسیم ہے۔ مال دار لوگوں کے گھر غریبوں سے الگ ہوتے ہیں۔ میں ان کچی بستیوں اور تجاوزات کی بات نہیں کررہا کیونکہ یہ کچی بستیاں اور تجاوزات بھی کرپشن کا نتیجہ ہیں۔ شہر میں منشیات کا راج ہے صرف کرپشن کی وجہ سے۔ ملک بھر میں اسمگلنگ ہوتی ہے کرپشن کی وجہ سے۔ سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں وجہ کرپشن ہے۔ کیونکہ جس محکمے کو نگرانی کرنا ہوتی ہے وہ ٹھیکے دار سے رشوت وصول کرلیتا ہے۔ ٹھیکے دار معیاری مال نہیں لگاتا سڑک ایک دو بارشوں میں بہہ جاتی ہے، چاہے وہ اسلام آباد کا بلیو ایریا ہو یا کراچی کا صدر یا لاہور کا انارکلی بازارگندگی کے ڈھیر اورگٹر کا پانی ہرجگہ ہی نظر آئے گا۔ یہ اخلاقی دیوالیہ پن ہی ہمیں اقتصادی دیوالیہ پن تک لے گیا ہے۔
پاکستان میں کرپشن کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کار نہیں آتے۔ یہاں کا مزدور بیرون ملک جاکر کمانے پر مجبور ہے۔ یہاں کی عدالت ہر کام میں حکم امتناع (اسٹے آڈر) لگا دیتی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں عدالتی نظام کرپشن میں تیسرے نمبر پر ہے تو عالمی سرمایہ کار ایسے ملک میں سرمایہ کاری کیوں کریں گے جہاں کی عدلیہ کرپشن میں سر فہرست ہو کیونکہ انہیں یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ یہاں جب بھی مقدمہ دائر کریں گے تو انہیں انصاف نہیں ملے گا اور انہیں انصاف خریدنا پڑے گا اور ان کی کمائی میں ہر ایک اپنا حصہ مانگے گا۔ جب سرمایہ کاری نہیں ہوگی تو پیداواری قوت میں بھی اضافہ نہیں ہوگا۔ پولیس اور امن وامان قائم کرنے والے ادارے جب کرپٹ ہوجائیں تو بھی سرمایہ اس جگہ سے سب سے پہلے راہ فرار اختیار کرتا ہے جہاں بدامنی ہو، دہشت گردی ہو اور جہاں پولیس کے علاوہ ان اداروں کو امن و امان قائم کرنے کی ذمے داری دی جائے جن کا اصل فرض سرحدوں کی نگہبانی ہو وہاں بھی سرمایہ نہیں آتا۔ سرمایہ وہاں بھی نہیں آتا جہاں بنیادی سہولتیں ختم ہوگئی ہوں،
جہاں پانی پائپ لائنوں کے بجائے ٹینکروں سے آتا ہو اور پانی کی سستی فراہمی کو ناممکن بنا دیا گیا ہو۔ یہ سب کچھ صرف اور صرف کرپشن کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ صاف پانی کی فراہمی کی ذمے داری جس محکمے کی ہے وہ ٹینکر مافیا سے رشوت کھا رہا ہے۔ یہاں تعلیم کا محکمہ بھی کرپٹ ہوگیا ہے، ذوالفقار علی بھٹو نے تعلیم کو قومیا لیا تھا اور نجی تعلیمی اداروں کا تصور ختم کردیا تھا ملک بھر میں یکساں نصاب تعلیم تھا طبقاتی تعلیم ایک حد تک ختم ہوچکی تھی۔ لیکن نجی تعلیمی اداروں کو ایسی آزادی ملی ہے کہ انہوں نے ہماری معاشرتی اقدار کو بھی پامال کردیا ہے کراچی میں ناظم آباد جیسے متوسط طبقے کے علاقے میں ایک اسکول نے طالب علم کے چہرے پر اس لیے سیاہی مل دی کہ اس نے اردو بولی تھی۔ تو ایسے جاہل اور علم دشمنوں کے ہاتھ میں قوم کا مستقبل دے دیا گیا ہے۔ یہ ہمارا علمی دیوالیہ پن ہے کہ ہم اپنی قومی زبان کو آج تک ذریعہ تعلیم نہیں بنا سکے ہیں ہمارے طالب علموں کی ساری محنت انگریزی گرامر سمجھنے میں گزر جاتی ہے وہ نفس مضمون کیا سمجھیں گے؟ اور کس طرح ملک کی ترقی میں شراکت دار بنیں گے۔ یہ ہمارے علم و دانش کا دیوالیہ پن ہے۔ اب آخر میں ہم اپنے سیاسی رہنماؤں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ سب کو اپنی تصویر ہر وقت عوام کے سامنے رکھنے کا شوق ہے ہر ایک اپنے آپ کو لازمی سمجھتا ہے کہ اس کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ جبکہ قبرستان ماضی کے ایسے لازمی رہنماؤں سے بھرے پڑے ہیں۔ دوسری جانب ہمارے سیاسی رہنماؤں کے پاس کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہیں ہوتا کوئی پروگرام نہیں ہوتا یہ ہمارا سیاسی دیوالیہ پن ہے۔ اس صورت حال کے بعد اگر ہم اقتصادی دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئے ہیں تو اس میں حیران ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔