چیف جسٹس کے ریمارکس کی وضاحت کیلئے اٹارنی جنر ل کے لکھے گئے خط پرسینیٹ میں احتجاج

331

اسلام آباد: سینیٹ میں سپریم کورٹ میں نیب قانون میں ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ریمارکس پر وضاحت کے لیے اٹارنی جنرل شہزاد عطا الٰہی کی جانب سے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کو لکھے گئے خط پر احتجاج کیا گیا۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سینیٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل نے مجھے خط لکھا ہے میں سمجھتا ہوں امانت کے طور پر بات ہائوس کے سامنے رکھی جائے۔چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے بتایا کہ اٹارنی جنرل پاکستان نے مجھے بھی خط لکھا ہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے وضاحت نہیں کی، ایک بیانیہ دیا ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ خود کورٹ میں موجود تھے، وہاں ملک کا صرف ایک ہی وزیراعظم دیانتدار تھا جیسی کوئی بات عدالت میں نہیں ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ عدالت میں 1993 اور 1988 کی اسمبلیاں توڑنے کی بات ہوئی تھی، سوشل میڈیا رپورٹس درست نہیں ہیں۔رضا ربانی نے کہا کہ یہ نہایت افسوسناک بات ہے کہ اٹارنی جنرل نے یہ جرات کی ہے کہ ہائوس کی کارروائی کی وضاحت کریں، اٹارنی جنرل کو یہ استحقاق ہے کہ وہ دونوں ہائوسز میں آکر بیٹھ سکتا ہے، وہ اس ہائوس کا رکن نہیں، اس ہائوس کی کارروائی پر کنٹرول نہیں کر سکتا، اٹارنی جنرل اس ہائوس کی کارروائی پر وضاحت جاری نہیں کر سکتے نہ بات کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب عدلیہ کی جانب سے پارلیمنٹ کے اوپر حملہ ہوتا ہے تب بھی اٹارنی جنرل کو عدالت میں کھڑے ہوکر پارلیمنٹ کا دفاع کرنا چاہیے، اٹارنی جنرل کے اس خط پر تحفظات ہیں، ریکارڈ کے لئے وہ خط اس ہائوس کے سامنے رکھا جائے۔اپوزیشن لیڈر شہزاد وسیم کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے نیب سے متعلق کیس میں کہا تھا پارلیمنٹ غیر مکمل ہے اس کی بات کریں دو اسمبلیاں خالی پڑی ہیں الیکشن کی فی الفور تاریخ دیں اور میدان میں آئیں، حکومت عدالتوں کے یا تو سارے فیصلے تسلیم کرے یا نہ کرے، کیا لاہور ہائی کورٹ عدالت نہیں؟۔

ا نہوں نے کہا کہ انہوں نے کس کا گریبان اور دامن چھوڑا ہے، گیس کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا۔دیگر ارکان نے نقطہ اعتراض پر بات کرنے کیلئے اجازت چاہی جو چیئر مین سینیٹ نہ دی تو اراکین نے شور شرابہ شروع کر دیا جس پر چیئرمین سینیٹ نے اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا۔