جنرل پرویز مشرف اپنے اعمال کی گٹھڑی اُٹھائے اپنے ربّ کے حضور پیش ہوگئے۔ اُن کی موت بہت عبرتناک تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ ایک ایسی پُراسرار بیماری کا شکار تھے جس کو سمجھنے اور جس کا علاج کرنے میں ڈاکٹروں کی ٹیم آخری وقت تک ناکام رہی۔ جنرل پرویز مشرف نے بیماری کے آغاز میں امریکا جانے اور وہاں علاج کرانے کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن امریکا نے انہیں ویزا دینے سے انکار کردیا تھا۔ امریکا اپنے ’’دوستوں‘‘ کے ساتھ یہی سلوک کرتا ہے۔ چناں چہ انہیں دبئی کے امریکن اسپتال میں داخل ہونا پڑا جہاں وہ کئی سال تک زیر علاج رہے لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ بہترین علاج کے باوجود اُن پر کوئی دوا کارگر نہ ہوسکی۔ ان کے تمام اعضا نے کام کرنا چھوڑ دیا، آنکھیں پتھرا گئیں، کان بند ہوگئے، زبان بے حس ہوگئی، ہاتھ پائوں سُن اور بیجان ہوگئے، نظام ہضم جواب دے گیا۔ بس سانس کی آمدورفت جاری رہی، جب وقت آگیا تو سانس کی ڈوری بھی ٹوٹ گئی۔
جنرل پرویز مشرف کو وزیراعظم نواز شریف نے کئی سینئر جرنیلوں کو نظر انداز کرکے آرمی چیف مقرر کیا تھا۔ نواز شریف کے بعض قریبی ساتھیوں نے بھی ان کی سفارش کی تھی جبکہ خود جنرل پرویز مشرف بھی جاتی امرا میں حاضری دے کر نواز شریف کے والد میاں محمد شریف کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے رہے۔ پرویز مشرف کا تعلق اردو اسپیکنگ فیملی سے تھا۔ وہ 1943ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ برصغیر کی تقسیم کے نتیجے میں ان کا خاندان پاکستان آگیا اور تعلیم و تربیت کے سارے مراحل انہوں نے وطن عزیز میں طے کیے۔ 1961ء میں انہوں نے پاک فوج میں شمولیت اختیار کی اور بھارت کے خلاف 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں حصہ لیا۔ اس پس منظر کے ساتھ میاں محمد شریف کو پرویز
مشرف آرمی چیف کے لیے نہایت موزوں نظر آئے۔ انہوں نے اپنے بیٹے وزیراعظم نواز شریف کو پُرزور سفارش کی کہ اس سے بہتر آرمی چیف انہیں نہیں مل سکتا اس لیے اس کے تقرر میں ذرا سی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کیاجائے۔ انہیں کیا خبر تھی کہ یہ فیصلہ اُن کے پورے خاندان کے لیے قدرت کا ایک تازیانہ ثابت ہوگا، انہیں پرویز مشرف کے ہاتھوں ملک بدر ہونا پڑے گا اور نواز شریف موت کے منہ میں جاتے جاتے بچیں گے۔ قدرت نے مستقبل کو پردئہ خیفا میں رکھا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو کائنات کا سارا نظام جو ایک حکمت کے تحت چل رہا ہے اور جس میں ہر فرد احتساب کے خودکار عمل سے گزر رہا ہے درہم برہم ہوجاتا۔ جنرل پرویز مشرف نے آرمی چیف بنتے ہی اپنے تیور بدل لیے، من مانی کرنے لگے، کسی مشاورت اور ٹھوس منصوبہ بندی کے بغیر کارگل میں بھارت کے خلاف فوج کشی کر بیٹھے۔ جس کا نتیجہ نہایت سنگین برآمد ہوا اور وزیراعظم نواز شریف کو واشنگٹن جا کر صدر کلنٹن سے مداخلت کی اپیل کرنا پڑی۔ دنیا کے اس بلند ترین محاذ پر
پاکستان اور بھارت دونوں کے لیے جنگ جاری رکھنا مشکل تھا اس لیے بھارت نے امریکا کی اپیل پر جنگ بند کردی۔ جانی نقصان دونوں طرف ہوا لیکن ہزیمت پاکستان کو اُٹھانا پڑی۔ کارگل کی مہم جوئی سے جنرل پرویز مشرف اور وزیراعظم نواز شریف کے درمیان تعلقات سخت کشیدہ ہوگئے اور وزیراعظم آرمی چیف کو برطرف کرنے کا موقع تلاش کرنے لگے۔ یہ موقع انہیں اس وقت میسر آیا جب جنرل پرویز مشرف سری لنکا کے سرکاری دورے سے پاکستان واپس آرہے تھے اور ان کا مسافر بردار سول طیارہ ابھی فضا میں تھا کہ نواز شریف نے نہایت عجلت میں انہیں برطرف کرکے اپنے ایک عزیز جنرل ضیا الدین بٹ کو آرمی چیف بنادیا اور ٹیلی ویژن پر ان کی حلف برداری کی تقریب بھی ٹیلی کاسٹ کردی لیکن نواز شریف کو یہ سب کچھ بہت مہنگا پڑا۔ جنرل پرویز مشرف کوئی بے خبر آرمی چیف نہ تھے انہیں نواز شریف کے ارادوں کی سن گن بہت پہلے لگ گئی تھی اور وہ توقع کررہے تھے کہ ان کے بیرونی دورے کے موقع پر نواز شریف کچھ بھی کرسکتے تھے۔ چنانچہ وہ اپنے ماتحت جرنیلوں کو ہدایت دے گئے تھے کہ ہنگامی صورت میں انہیں کیا کرنا ہوگا۔ اس ہدایت کی روشنی میں ماتحت جرنیل فوراً حرکت میں آگئے، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی عمارات پر قبضہ کرکے ان کی نشریات روک دی گئیں، وزیراعظم ہائوس کا محاصرہ کرلیا گیا اور وہاں موجود ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کی سہولتیں معطل کردی گئیں اور جنرل ضیا الدین بٹ جہاں تھے وہیں انہیں محصور کردیا گیا۔ نواز شریف نے کراچی ائرپورٹ کے کنٹرول روم کو ہدایت جاری کی تھی کہ پرویز مشرف کا طیارہ ائرپورٹ پر نہ اُترنے دیا جائے اور اس کا رُخ کسی عرب ملک کی طرف موڑ دیا جائے لیکن طیارے میں ایندھن کم تھا اس لیے پائلٹ نے آگے جانے سے انکار کردیا اور کراچی کی فضا ہی میں چکر لگاتا رہا، اتنے میں فوج نے کراچی ائرپورٹ کا نظام بھی سنبھال لیا اور طیارے کو ائرپورٹ پر اُترنے کا گرین سگنل دے دیا گیا۔
اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ہماری ماضی کی تاریخ کا حصہ ہے جسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ البتہ یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ اگر نواز شریف، جنرل پرویز مشرف کو برطرف کرنے کا عاجلانہ قدم نہ اُٹھاتے اور ان کی تین سالہ مدت پوری ہونے کے بعد انہیں ریٹائر کرکے نیا آرمی چیف مقرر کرتے تو حالات کا رُخ کچھ اور ہوتا اور انہیں اور ان کے پورے خاندان کو جس بحران اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا وہ اس سے محفوظ رہتے لیکن اقتدار کا نشہ بھی بہت بُری چیزہے جس حکمران کو یہ نشہ چڑھ جائے وہ آپے میں نہیں رہتا اور اپنے ہاتھوں سے اپنی قبر کھودنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ نواز شریف کو بھی یہ نشہ چڑھا ہوا تھا۔ وہ دوسری بار تین چوتھائی اکثریت سے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد امیرالمومنین بننا چاہتے تھے، اس کے لیے شاید قانون سازی بھی شروع ہوگئی لیکن قدرت نے انہیں ایسا جھٹکا دیا کہ وزارت عظمیٰ بھی ان سے چھن گئی اور ان کی جان کے بھی لالے پڑ گئے، اگر سعودی حکمران ان کی مدد کو نہ آتے تو جنرل پرویز مشرف ہائی جیکنگ کیس میں انہیں پھانسی پر لٹکادیتے۔
(جاری ہے)