سامان عبرت بکھرا ہے قدم قدم پر

779

سابقہ وزیراعظم ملک معراج خالد اعوان میرے ننھیالی عزیزوں سے تھے۔ ان کا سب سے بڑا وصف ایمانداری تھا۔ ان پر کرپشن کا کبھی ایک سکہ ثابت نہ ہو سکا۔ ان کے دورِ اقتدار و اختیار میں ان کے قریبی رشتہ دار ہمیشہ ناراض ہی رہے کیونکہ جو رشتہ دار جس کام کا اہل نہ ہوتا ہے ملک معراج خالد نے اس کا وہ کام کبھی نہ کروایا لیکن جس کا کام جائز اور مقررہ شخص کے اہل ہوتا وہ یہ کام ضرور کرواتے۔ مظلوم اور ضرورت مند کی مدد کو ہر پل تیار رہتے۔ خدمت خلق کی طرف دوڑ کر جاتے۔ جہاں تک میری ذاتی رائے ہے کہ وہ ساری زندگی جن اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ان میں وہ اسلامی نظام اور ملکی بقا کے لیے بہت کچھ کرسکتے تھے۔ وہ پاکستانی تاریخ کو کسی حد تک بدل سکتے تھے۔ وہ کوئی ایسا یادگاری کام کر سکتے تھے کہ لوگ جس کی مثال قدم قدم پر دیتے لیکن اس درویش صفت انسان نے اپنی نیک طبیعت اور ایمانداری کو زیادہ تر صرف اپنے تک محدود رکھا اور کوئی زبردست قسم کا انقلابی عمل وجود میں نہ لا سکا۔ اس کے باوجود جب اس سیاستدان کی وفات ہوئی تو ہر بندہ اس کی تعریف میں رطب اللسان تھا۔ ملک کے بڑے بڑے کالم نگاروں نے اس کی تعریف میں کالم لکھے۔ اسے درویش منش انسان کا خطاب دیا گیا۔ اس کی ایمانداری کو خوب سراہا گیا۔ لوگوں کے اپنی آنکھوں دیکھے اس کی خوبیوں کے واقعات بیان کیے گئے۔ اسی طرح ماضی قریب میں وفات پا جانے والے جماعت اسلامی کے تین ہیرے قاضی حسین احمد، سید منور حسن اور عبدالغفار عزیز جن کی وفات پر میں نے لکھنے والوں کو بلا تفریق گروہی و سیاسی اختلاف ان کی تعریفیں ہی لکھتے دیکھا۔ لکھنے والوں نے ان کی نیکی، ایمانداری اور خدمت خلق کا دل کھل کر اعتراف کیا۔
اب جبکہ حال میں ہی ایک سابق صدر اور سابق جنرل اس دنیا فانی سے رخصت ہوا ہے جسے پاکستان میں آمریت کا بادشاہ بھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ یہ وہ ترقی یافتہ اور جدید فیشن ایبل آمر تھا جس نے آمریت کو جمہوریت کے لبادے میں لپیٹ کر حکومت کی۔ جس نے اپنے ایسے سیاسی لوٹے تیار کیے جو اسے بار بار باوردی منتخب کرنے کے بھی نعرے لگاتے تھے۔ یہ آمر عوام کا منتخب شدہ نہیں تھا لیکن ایک جمہوری حکمران سے بھی کئی گنا زیادہ عرصہ حکومت کر کے گیا۔ جس نے پاکستان کو نہ تو اپنی ملکیت سمجھا اور نہ ہی رب کی امانت (کیونکہ ملکیت اور امانت دونوں ہی سے محبت کی جاتی ہے اور ان کا خیال رکھا جاتا ہے) لیکن بلا شرکت غیر اس ملک پر اپنا پورا اختیار چلایا اور ملک کو اس نہج پر پہنچایا جہاں سے نہ جانے کب واپسی ہو۔ پرویز مشرف نے اپنے دور اقتدار میں جو بڑے کارنامے انجام دیے ان میں سے چند یہ ہیں کہ جامعہ حفصہ کی سیکڑوں بچیوں کو فاسفورس بموں سے قتل کروایا۔ میڈیا، فوج، ہر چیز جنرل کے ہاتھ میں ہونے کے باوجود لوگوں نے دیکھا کہ کیسے کیمروں کے پہنچنے سے پہلے پہلے دیواروں کو پانی سے دھو ڈالا گیا کہ لوگوں کو معصوم بچیوں کا خون نظر نہ آئے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی جس پر کوئی معتبر جرم تو امریکی عدالت بھی ثابت نہیں کرسکی۔ جو ہر طرح کا ظلم و ستم سہنے کے بعد آج بھی امریکی جیل میں پڑی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ سمیت چھے سو افراد کو امریکا کے ہاتھ ڈالروں کے عوض بیچا۔ افغانستان پر بمباری کرنے کے لیے امریکا کو اپنے ہوائی اڈے دیے۔ امریکا کو اپنے ملک کے خوبصورت سیاحتی علاقوں پر سرعام ڈرون حملوں کی اجازت دی۔ اجازت کیا بلکہ مددگار بنا رہا جس سے مقامی معصوم لوگوں کی شہادت کے علاوہ پاکستان کی سیاحت تباہ و برباد ہوگئی اور وہ آج تک بحال نہیں ہو سکی۔ اس بندے نے پاکستان کو دہشت گردی کا نمونہ بنا دیا۔ لوگ پاکستان کو حقارت کی نظر سے اور پاکستانیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔ دوسرے ممالک کے ائر پورٹس پر ہمارے شہریوں کو تو کیا کئی بار وزراء تک کو رسوا کیا گیا۔ ان کو سب سے الگ کھڑا کر دیا جاتا۔ ان کی جرابیں تک اتروا کر دیکھیں جاتیں۔
یہ شخص سمجھتا تھا کہ یہ سدا بادشاہ ہی رہے گا۔ امریکا سے وصول شدہ ڈالر سدا سینے سے لگا کر رکھے گا۔ بے شک ہر فرد کا معاملہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی عدالت میں مجرم ہے اور کون بری۔ ہم کسی فرد کے معاملے میں رائے قائم کرنے والے کون ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں ایک ظاہر چیز بھی ہے جو ہم اکثر افراد کے بارے میں اس دنیا ہی میں دیکھ لیتے ہیں اور وہ ہے متوفی کے لیے زندہ انسانوں کی گواہیاں جو کسی کے اس دنیا سے انتقال کے بعد بے اختیار لوگوں کی زبانوں سے نکلتیں ہیں۔ جو وقت کا فرعون بن جائے، انسانوں کو دکھ دے اور ستائے۔ اس کے بستر مرگ پر گرتے ہی لوگ شور مچا دیتے ہیں کہ اس کا مکافات عمل شروع ہوگیا۔ اس کے لیے کسی کے ہاتھ دعا کے لیے نہیں اٹھتے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور لوگوں کی دعاؤں سے محروم اپنی تکلیف میں ہی تڑپتا رہتا ہے۔ آخر کار لوگ اس کے مرنے پر سجدہ شکر بجا لاتے ہیں۔ دوسری طرف وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور دوسرے انسانوں کی بھلائی کے لیے جیتے ہیں۔ انہیں تکلیف پہنچنے یا کوئی آزمائش پڑنے پر لوگ ان کے لیے اپنے رب کے سامنے دست سوال پھیلا کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان کی تکلیف پر رنجیدہ اور موت پر سوگوار ہو جاتے ہیں۔ لوگوں کی زبانیں اور قلم ان کے حق میں گواہی دینا شروع ہو جاتے ہیں۔
موجودہ حکمرانو! اور کرسی کے شدت سے طلب گار سابقہ حکمرانو! پرویز مشرف کے حالات سے عبرت پکڑو۔ لوگوں کے لیے کچھ کرکے، انہیں آسانیاں دے کر اپنے اس دنیا میں آخری حال پر ہی رحم کھا لو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہاری موت بھی کسی دوسرے ملک اسپتال میں ہو اور لوگ تمہارا پاکستان میں دفن ہونے سے نخوت سے ناک سکیڑیں۔ یہ لوگ تمہارے لیے پاکستان کی دو گز زمین دینا بھی پسند نہ کریں۔ تمہاری نماز جنازہ میں شریک ہونا معیوب خیال کریں۔ تعریف تو دور کی بات تمہارے لیے دعائے مغفرت کے لیے بھی ان کے ہاتھ نہ اٹھیں۔ آخرت کا معاملہ تو رب کے ہاتھ میں ہے لیکن لوگوں کا حق مار کر تمہارے کمائے گئے ڈالرز اور روپے اس دنیا میں ہی تمہارے دشمن بن جائیں گے۔