ایک عقل مند موسیقار اپنا ساز بجا رہا تھا سامنے سننے والی صرف بھینسیں تھیں۔ تو معاملہ یہ تھا کہ جیسے بھینس کے آگے بین بجانا سو کچھ اثر ہوتا نہ تھا، موسیقار چونکہ عقل مند تھا لہٰذا اس نے اپنے سامعین کے لحاظ سے اپنی دھن میں تبدیل کی اور ساز کے تاروں سے بچھڑوں کے ڈکارنے کی آوازیں پیدا کرنی شروع کیں۔ بس تھوڑی دیر میں بھینسوں کے کان کھڑے ہوگئے اور وہ مادرانہ شفقت کے اثر میں آکر موسیقی میں کھو گئیں۔ اور کچھ ایسی کھوئیں کہ اپنے کٹووں کی تلاش میں نکل پڑیں۔ موسیقار تو اپنے تجربے کی کامیابی کے بعد خوشی خوشی نکل گیا، بعد میں بھینسوں کے مالک حیران پریشان پھرتے رہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آج کل کسی نامعلوم موسیقار کی بین پر ملک سے ڈالر نکل گئے ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہوگئے ہیں۔ صبح شام یہ سوال گفتگو کا موضوع ہے کہ آج ڈالر کا کیا ریٹ ہے؟ مصنوعی ڈھکن کے ہٹتے ہی ڈالر نے جو اُڑان بھری تو لوگ دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔ حالاں کہ لندن سے چار ماہ قبل آنے والے یہ دعویٰ کرکے آئے تھے کہ وہ ڈالر کو 200 تک نیچے لائیں گے لیکن ڈھکن ہٹاتے ہی 2 روز میں ڈالر کی قدر میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ پھر اس بنیاد پر کہا گیا کہ ملک دیوالیہ ہونے کو ہے۔ اس پر بھی خاصی بحث ہوئی، ایک دوسرے پر الزامات لگائے گئے، موجودہ حکمران گزشتہ اور گزشتہ حکمران موجودہ حکومت کو ذمے دار ٹھیرا رہے ہٰں۔ سب اس سوچ میں ہیں کہ عقل مند موسیقار کہاں سے ملیں؟ معاشی حالات سنگین ہیں اور سیاست دان اپنی اپنی بین بجا رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے ملک دیوالیہ ہوچکا بس اعلان باقی ہے، کوئی کہتا ہے کہ ساری صورت حال ایک طرف لیکن ایسا ہونا ممکن نہیں۔ دونوں اپنے اپنے بیانات کے حق میں تگڑی دلیلیں لاتے ہیں اور عوام بیچاری بھینس بنی ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم دودھ تو دودھ خون پسینہ بھی نکال لو بس روٹی ٹکر تو دے دو لیکن وہ بھی پہنچ سے باہر ہورہا ہے۔
مہنگائی سے پریشان عوام دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان ہیں، پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں کس قدر اضافہ ہوا ہے خود حکومتی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جون 2022ء میں ختم ہونے والے مالی سال میں مہنگائی کی شرح 21 فی صد سے بڑھ گئی تھی جو وقت کے ساتھ ساتھ دنوں اور ہفتوں کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔ اس پر بھی بس نہیں اور مزید مہنگائی کی نوید سنائی جاتی ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط بجلی اور پٹرول کو مزید مہنگا کرنے کی ہیں۔ آخر آئی ایم ایف سیاست دانوں اور حکمرانوں کے اثاثے ضبط کرنے کی شرط کیوں نہیں لگاتا؟۔ عوام ہی کو نچوڑنا مقصود ہے۔ ملک کی صورت حال کے ذمے دار سب سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ ہے کہ انہوں نے ملک میں جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا۔ اپنی پسند نا پسند پر اپنے فائدے اور نقصان کو بنیاد بنا کر ملک میں اکھاڑ پچھاڑ کرتے رہے، تجربات پر تجربات کرتے رہے اور سیاست میں کرپشن کا راستہ روکنے کے بجائے اس کو تحفظ دیتے رہے۔ لہٰذا کرپشن کی دیمک ہر ادارے میں لگی اور بنیادوں میں بیٹھ گئی۔ عدلیہ انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہی بلکہ انصاف بکنے کے لیے بازار میں آگیا۔ سیاست میں بددیانت اور خائن باوزن ٹھیرے۔ بیوروکریسی نے ریاست کے نظام میں رشوت کو سکہ بنا ڈالا۔ لہٰذا حالات بدسے بدتر ہوتے چلے گئے۔ آئی ایم ایف نے قرضے کے جال میں جکڑا فائدے کا رخ عوام سے موڑ دیا۔ اب بھی کہنا یہ ہے کہ آئی ایم ایف جو کہہ رہا ہے بے چوں چرا ماننا ہوگا، ٹیکس نیٹ بڑھانا ہوگا، لیکن بات یہ ہے کہ اگر آج آئی ایم ایف سے قسط مل گئی تو چھ ماہ بعد کیا ہوگا؟ پھر یہی مقام ہوگا کیا ہمارا مقدر یہ ہے؟ کیا اس کو کبھی بدلنا ہے یا نہیں۔ ریاست مدینہ کی مثال دی جاتی ہے کہ پاکستان کلمہ کی بنیاد پر وجود میں آیا، ریاست مدینہ کے نظام میں کیا تھا؟ سب سے پہلے انصاف… انصاف پر مبنی معاشرہ اسلامی معاشرہ کہلانے کا حق دار ہے، نماز کا نظام اور زکوٰۃ کا نظام بنیاد تھی۔ زکوٰۃ کے نظام سے بڑھ کر معاشی انصاف دینے والی کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔ معاشی انصاف پاکستان کو بچا سکتا ہے، معیشت کا پہیہ چل سکتا ہے، غریب کی زندگی کو بہتر بنا سکتا ہے بلکہ صرف غریب نہیں بحیثیت مجموعی سارے لوگوں کی زندگی میں آسانی لاسکتا ہے۔ پاکستان کو خوش حالی کی شاہراہ پر گامزن کرسکتا ہے۔
1980ء میں ضیا الحق نے زکوٰۃ اور عشر کا قانون اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے تحت نافذ کیا تھا، اس کے تحت ملک بھر میں 32 ہزار زکوٰۃ کمیٹیاں قائم کی گئی تھیں، یہ نظام مرکزی طور پر 30 سال تک قائم رہا، اب بھی ہے لیکن پھر 2010ء میں اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ معاملہ صوبوں کو چلا گیا۔ اب بھی زکوٰۃ کی رقم بینکوں میں کاٹی جاتی ہے، یہ رقم مرکزی زکوٰۃ کونسل کے اکائونٹ میں جاتی اور پھر وہاں سے یہ آبادی کے تناسب سے صوبوں میں تقسیم کردی جاتی ہے۔ اس وقت صورت یہ ہے کہ زکوٰۃ کاٹنے کے موجودہ نظام پر لوگوں کو اعتماد نہیں ہے۔ لہٰذا رمضان سے قبل لوگ بینکوں سے اپنی رقم نکال لیتے ہیں یا بیانِ حلفی جمع کراتے ہیں۔ 2020ء میں زکوٰۃ کی مد میں 9 ارب روپے سے زیادہ جمع کیے گئے تھے۔ جس پر جسٹس عطا بندیال نے کہا تھا کہ پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق وفاق نے زکوٰۃ کی مد میں 9 ارب سے زیادہ جمع کیے لیکن یہ رقم مستحقین تک کیسے گئی اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ پاکستان کے معاشی مسائل کی کنجی زکوٰۃ کا نظام ہے، اگر لوگوں کو اس نظام پر اعتماد ہوگا تو زکوٰۃ کی رقم جو ان حالات میں 9 ارب جمع ہوئی، اس سے کہیں زیادہ ہوگی اور پھر اس کے ذریعے روزگار کے بڑے مواقع پیدا ہوں گے، عوام کی قوت خرید بڑھے گی جس سے معیشت کاجام پہیہ چل پڑے گا۔